خادم اعلیٰ کی تشہیری مہم


کینال روڈ اور مال روڈ لاہور کی ایسی شاہراہیں ہیں جنھیں اہل قلم نے ہمیشہ ہی اپنی تحاریر میں بہت خاص اہمیت دی ہے۔ یونیورسٹی کیمپس کی حسین یادیں ہوں یا پنجاب اسمبلی کے سامنے کسی احتجاج میں کھائے جانے والے ڈنڈے، دونوں صورتوں میں یہ دونوں سڑکیں لکھاریوں اور قارئین کی توجہ کا مرکز بنیں۔ یہاں بہت سی اہم عمارتیں بھی موجود ہیں جو ان شاہراہوں کی تاریخی اہمیت کو اجاگر کرتیں ہیں ،ان میں پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس،ایف سی کالج، ایچی سن کالج، گورنر ہاؤس پنجاب اسمبلی،جی پی او ، الحمرا ہال، گورنمنٹ کالج اور اولڈ کیمپس قابل ذکر ہیں۔

آج کل ان شاہراہوں پرآپ کو خوبصورت عمارتوں کے علاوہ پولز پر آویزاں فلیکسز کی بھرمار بھی نظر آئے گی۔ اگر آپ موٹر سائیکل یا کار پر سفر کر رہے ہوں تو آپ فلیکسز پر لکھا گیا متن نہیں پڑھ سکتے کیونکہ لکھی گئی سطور اتنے واضح حروف میں نہیں ہوتیں کہ آپ دورانِ سفر تحریر کو مکمل طور پر سمجھ سکیں۔ صرف ایک چیز جو آپ واضح طور پر پڑھ اور دیکھ سکتے ہیں وہ ”عزت مآب“ جناب میاں محمد شہباز شریف کا چہرہ انور اور ان کا اسم گرامی ہے جو بڑے بڑے حروف میں کنندہ ہوتا ہے۔ اکثر تصویر میں ان کا پوز شاعرِ مشرق ڈاکٹر علا مہ محمد اقبال سے مشابہہ ہوتا ہے جو آج کل ان کا ٹریڈ مارک بن چکا ہے۔ بظاہر اس تشہیری مہم کا مقصد عام عوام کو پنجاب حکومت کی طرف سے شروع کئے گئے مختلف ترقیاتی منصوبہ جات اور حکومت وقت کی ”شاندار“ کار کردگی سے آگاہ کرنا ہے ،جیسے میٹروبس، اورنج ٹرین، سپیڈو، صاف پانی کی فراہمی کے منصوبہ جات، لیند ریکارڈ کے محکمہ کو کمپیوٹرائزڈ کرنا اور نہ جانے کون کون سے منصوبہ جات۔ ۔

یقیناً یہ منصوبے اہمیت کے حامل ہیں اور عوام کے لئے فائدہ مند بھی ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان منصوبوں کا اجرا حکومتِ پنجاب کرتی ہے یا میاں شہباز شریف ذاتی حیثیت سے اپنی جیب سے کرتے ہیں؟ جواب بہت سادہ ہے کہ حکومتِ پنجاب ایک ادارے کی حیثیت سے ان سارے پراجیکٹس کا آغاز کرتی ہے اس کے باوجود آویزاں فلیکسز پر حکومت پنجاب کی مہر انتہائی باریک الفاظ میں ثبت ہوئی ہوتی ہے جسے اگر آپ دورانِ سفر پڑھنا چاہیں تو آپ کو گاڑی یا موٹر سائیکل روکنا پڑتی ہے۔ ان منصوبوں پر جتنا بھی سرمایہ خرچ ہوتا ہو وہ غریب عوام کے ادا کردہ ٹیکسوں سے آتا ہے لیکن جب کریڈٹ لینے کی بات آتی ہے میاں صاحب پیش پیش نطر آتے ہیں۔ بات صرف منصوبوں کے اشتہارات تک ہی محدود نہیں رہتی بلکہ ہر سال جب حکومت سالانہ بجٹ پیش کرتی ہے تو اس میں جس محکمے کے لئے جو بجٹ مختص کیا جاتا ہے اس کی بھی اخبارات ، ٹی وی اور مذکورہ سڑکوں پر دھڑلے سے نما ئش کی جاتی ہے۔ اپنی ذاتی تشہیر کی خاطر حکمران حضرات عوام کا اربوں روپیہ اشتہاروں کی نذر کر رہے ہیں۔ بعض اوقات تو منصوبے پر اتنا خرچہ نہیں آتا جتنا اس کی تشہیر پر آتا ہے۔ یہ اخبارات کے صفحات ہوں یا ان سڑکوں پر لگے پولز ،سب کے سب میاں صاحب کے قصیدوں سے بھرے نظر آتے ہیں۔

جمہوری ریاستوں میں یہ رویہ انتہائی نامنا سب سمجھا جاتا ہے اور شخصیات کی بجائے اداروں کو مقدم خیال کیا جاتا ہے۔ جہاں ادارے شخصیات سے کم تر سمجھے جاتے ہیں وہاں جمہوریت کے مضبوط ہونے کے امکانات معدوم ہو جاتے ہیں ۔ ایسے معاشروں میں معاشی لوٹ کھسوٹ، اقربا پروری اور سیاسی عدم استحکام جیسے کلچر کو فروغ ملتا ہے۔ ہم 1947 سے لے کر آج تک صرف اسی لئے مضبوط ادارے تشکیل دینے میں ناکام رہے ہیں کیونکہ ہم نے ہمیشہ اداروں کو با اثر شخصیات کے تناظر میں دیکھا ہے ۔ یہ ادارے ہی ہیں جو ہمیشہ قائم رہتے ہیں شخصیات تو آتی جاتی رہتی ہیں۔ اگر کسی ادارے کی طرف سے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے تو اس کا کریڈٹ کسی با اثر شخصیت کو دینے کی بجائے اسی ادارے کو ہی ملنا چاہئے جیسا کہ مہذب ممالک میں ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).