سلمی اعوان: شخصیت اور فن
کتاب – سلمی اعوان: شخصیت اور فن
پبلشر۔ اکادمی ادبیات اسلام آباد
سلمی اعوان سے میری پہلی شناسائی اُس آرٹیکل سے ہوئی جو اخبارِ خواتین کے صفوں پر جگمگا رہا تھا۔ اُن کے مختصر نام نے بھی چونکایا۔ لفظ اعوان نے بھی توجہ کھینچی کیونکہ میں بھی اسی برادری سے تعلق رکھتی تھی۔ تھوڑی کھُد بد ہوئی، کھوج لگانے کی کوشش کی، تو حسب نسب سے آگاہی ہوئی۔ مگر سلمی اعوان تک رسائی کی کوئی صورت نہ نکلی۔ مجھے اچھی طرح یاد نہیں کہ وہ کالم تھا یا سفرنامے کا کوئی حصہ، مگر اُن کی تحریر پڑھ کر مجھے یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ بڑی دھڑلے والی خاتون ہے، تحریر میں خالص دیہاتی اسلوب منعکس ہو کر لاٹیں مار رہا تھا۔ کہیں کہیں نامناسب الفاظ کا بھی تڑکہ لگا ہوا تھا جو لکھنے والے کے بے ساختہ پن، منجھے ہوئے کھلاڑی اور دیسی ہونے کا ثبوت فراہم کر رہا تھا۔
باردگر سلمی اعوان سے دوستی ہو گئی۔
ایک دن انہوں نے فون کر کے بتایا کہ اکادمی ادبیات میری شخصیت اور فن پر کتاب لکھوانا چاہتی ہے۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا ہے کہ آپ کس کا نام تجویز کریں گی؟ تو میں نے ان سے کہا ہے کہ اسلام آباد میں نعیم فاطمہ علوی مجھ پر کام کریں گی۔ کہنے کو تو انہوں نے کہہ دیا، میں نے سن بھی لیا، اکادمی سے بھی رسمی خط آ گیا،
مگر جب میں نے لکھنے کے لیے ان کی کتابوں اور ان پر لکھے مضامین کا بغور مطالعہ کیا، تو بخدا میری ٹانگیں کانپنے لگی۔ میرا حوصلہ جواب دے گیا، یقین کیجئے میں ہرگز ہرگز اپنے اندر ہمت نہیں پا رہی تھی کہ ان پر کچھ بھی لکھ سکوں گی۔
لفظ خاموش، آنکھیں پرنم دل نے کہا یہ کن چکروں میں پڑ گئی ہو؟
یہ تمہارے بس کا روگ نہیں۔ ایک مہینہ تو بس سلمی اعوان کی کتابیں ہی پڑھتی رہی اور صرف پڑھتی رہی، مگر جب لکھنے بیٹھی تو کبھی کورا کاغذ منہ چڑاتا اور کبھی قلم کی سیاہی سوکھ جاتی اور میں گھبرا کر اپنی میز کرسی سے یہ سوچ کر اٹھ جاتی یا خدا میں کیسے ان کے معیار پر پورا اتر سکتی ہوں بھلا؟
بالآخر ایک دن میں نے اپنی کیفیت سلمی اعوان کو بتا ہی دی، کہنے لگیں، نہیں، مجھے سو فیصد امید ہے کہ تم انصاف کرو گی، لو جی، اور مشکل، سو بالآخر ایک دن اناڑی تیراک کی طرح علم کے سمندر میں کود گئی۔
سلمی اعوان کی شخصیت اور فن پر قلم اُٹھانا میرے لیے کوئی آسان کام نہ تھا۔
یہ کام میرے لیے دو طرح سے مشکل تھا۔ ایک تو سلمی اعوان جیسی کُہنہ مَشق نثر نگار جن کی، بحیثیت لکھاری، کئی جہتیں ہیں۔ اور ہر جہت اپنے اندر دریا نہیں، سمندر ہے۔
ادبی نگار خانے میں وہ بیک وقت افسانہ نگار، ناول نگار، سفر نامہ نگار، کالم نگار، اور مضمون نگار اپنی مُستند پہچان کے ساتھ زندہ و پائندہ ہیں۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ انہوں نے بچوں کے لیے بھی کہانیاں لکھیں۔ سو اتنے سارے پہلوؤں کی بھر پور عکاسی کرنا آسان کام نہ تھا۔
دوسری بہت بڑی آزمائش یہ تھی۔ کہ دہائیوں پہلے ایم اے کی ڈگری کے لئے میں نے ایک تھیسس لکھا تھا۔ اور اُس کے بعد کبھی تحقیقی کام نہیں کیا تھا۔ لہذا مجھے بہت محنت کرنا پڑی۔ اور ایک ایک صِنف کے بارے میں لکھنے کے لیے سلمی اعوان کی انتیس کتابوں ”29“ کے علاوہ بھی بہت سے لٹریچر کو کھنگالنا پڑا۔ کیونکہ میں خانہ پُری کر کے اس ذمہ داری سے جان نہیں چھڑانا چاہتی تھی۔
بہرحال میں نے اپنی کمٹمنٹ، باریک بینی، محنتی طبیعت، اور موصوفہ سے عشق کی وجہ سے اس مسودے کو چند مہینوں کا چِلہ کاٹ کر مکمل کر لیا۔
اس پر میرا اترانا تو بنتا تھا نا؟
مجھے لگا جیسے میں نے سمندر میں غوطہ زن ہو کر گوہر مقصود حاصل کر لیا ہے۔ کتاب کو خود ہی ٹائپ کروایا، اغلاط درست کیں اور مسودے کو مکمل کر کے اکادمی ادبیات کے حوالے کر دیا۔
یہ کام یوسف خشک صاحب کے زمانے میں شروع ہوا تھا اور میری خوش قسمتی اور اِترانے کی وجہ ایک یہ بھی تھی کہ یہ کتاب اُن کے دفتر کے چکر لگائے بغیر ہی اُن کی خاص توجہ کا مرکز رہی۔ وہ خود فون کر کے مجھے اس کتاب کے بارے میں آگاہ کرتے رہے۔
مگر اس کے باوجود یہ بیل منڈھے نہ چڑھی۔ جب مہینے سالوں میں بدلنے لگے تو مجھے مایوسی ہونے لگی اور پھر میں نے یوسف خشک صاحب کو میسیج کیا کہ کیا وجہ ہے کہ آپ کی ذاتی دلچسپی کے باوجود کتاب کی اشاعت کے بارے میں کوئی امید نہیں بندھ رہی؟
مگر لگتا تھا کہ وہ بھی بے بس ہیں۔
مگر کس کے سامنے؟
یہ مُعّمہ میرے اوپر کبھی منکشف نہ ہو سکا۔
میں اپنے اس مسودے کے لیے بہت حساس تھی۔
مگر جب ماحول ساز گار نہ ہو تو آپ کی دعائیں بھی بے رنگ ہو جاتی ہیں۔
بہرحال اس اثناء میں یوسف خشک صاحب کی مدت ملازمت پوری ہوئی۔ اور وہ اس احساس کے ساتھ رخصت ہوئے کہ میں آپ کی کتاب نہ چھپوا سکا۔
اُن کے بعد محترمہ ڈاکٹر نجیبہ عارف کو اکادمی ادبیات کی ذمہ داری سونپی گئی۔ انہیں مبارکباد دیتے ہوئے میں نے صرف اتنا کہا ڈاکٹر صاحبہ میں نے اس کتاب پر بہت محنت کی ہے۔ کہنے لگیں فکر نہ کرو۔ سلمی اعوان میری بھی ترجیحات میں اول نمبر پر ہیں۔
جب مسودے کی ڈھنڈیا مچی تو معلوم ہوا کہ مسودہ تو گم ہو چکا ہے۔ مسودے کی ایک کاپی میرے پاس محفوظ تھی۔ دوبارہ بھیجی تو دوبارہ نئے سرے سے اس پر کام شروع ہوا
اور پھر کیا؟
اچانک آسمان سے رحمت کے پھول برسنے لگے۔
درختوں نے خوشی سے لہلہانا شروع کیا۔ تو برگ و بار نے ان کے لیے نیا لباس تخلیق کیا۔ پودے پھولوں سے بھر گئے۔ اور ہر طرف شادیانے بجنے لگے۔ ہواؤں نے گنگنا کر راگ الاپا اور گرد و پیش کا منظر بدلنے لگا۔
اور پھر ایسا ہی ایک بھلا سا دن تھا جب ڈاکٹر نجیبہ عارف صاحبہ نے خوش خبری سنائی کہ سلمی اعوان پر لکھی کتاب چھپ گئی ہے۔
اس کتاب کی خوش خبری سلمی اعوان کو بھی ایثار ایوارڈ ملنے کے ساتھ ہی ملی اور میرے لیے تو یہ 2024 کی سب سے بڑی خوش خبری تھی۔
چھوٹا یا بڑا، کوئی بھی کام اُس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک کہ دوست اور ساتھیوں کا تعاون حاصل نہ ہو۔ مجھ پر اُن احباب کا شکریہ ادا کرنا واجب ہے جن کا تعاون میرے ساتھ رہا۔
سب سے پہلے تو میں اُس شخصیت کا شکریہ ادا کروں گی، جس نے میری توجہ کام پر مرتکز رکھنے کے لیے ہر وہ حربہ استعمال کیا جو بھلے میرا ناپسندیدہ تھا مگر میرے لیے مفید تھا۔ لکھنے پڑھنے کے دوران میرے ملاقاتیوں اور فون پر ایسا پہرہ لگایا کہ چودہ طبق روشن ہو گئے۔ کب میرے کاغذ پرنٹ ہو جاتے کب نئے کاغذ اور قلم میری میز پر رکھے ہوتے مجھے معلوم ہی نہ ہو پاتا۔
اس کے بعد میں محبوب ظفر صاحب کا شکریہ ادا کروں گی، جنہوں نے اس موضوع پر لکھی بے شمار کتابیں مجھے گھر آ کر دیں۔
سلمی اعوان نے بذات خود اس کتاب میں دلچسپی لی اور ہر موقعے پر میری مدد کی۔
ڈاکٹر نجیبہ عارف کا تو کیا ہی شکریہ ادا کروں۔ اُن کے لیے محض شکریے کے الفاظ ناکافی ہیں، جنہوں نے ایک گمشدہ مسودے کو پاتال سے نکال کر پذیرائی بخشی۔
اختر رضا سلیمی صاحب کا بھی شکریہ جنہوں نے کئی مشکل ترین مسائل کو سلجھایا، اور خصوصی توجہ دی۔ خاص طور پر مسودے میں ایثار ایوارڈ کو بھی شامل کیا۔
سو میں کہہ سکتی ہوں کہ اس کتاب نے مجھے میرے اندر کی صلاحیتوں سے روشناس کروایا۔ گرد و پیش کے ماحول سے شناسائی کروائی، اور موسموں کے بدلتے رویوں سے آگہی بخشی۔
- پیر و مرشد سلمیٰ اعوان - 25/03/2025
- فلاحی ادارہ اخوت - 17/03/2025
- ضعف میں طعنہ اغیار کا شکوہ کیا ہے - 13/03/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).