عامر ہزاروی صاحب کے موازنے کا موازنہ


“ہم سب “کا اس پر اعتقاد ہے کہ اظہار رائے کی آزادی ہر شہری کا حق ہے۔ پچھلے ایک برس سے گاہے بگاہے ہم سب (میرے آفس کے دوست) “ہم سب” پر شائع ہونے والے مضامین کو پڑھتے اور آپس میں ہی ان کا تنقیدی جائزہ لیتے رہتے ہیں۔ 28 مارچ 2017ء کو “جناح کا دیس آزاد کے دیس سے کیوں بہتر ہے؟” کے عنوان سے محترم عامر ہزاروی صاحب کا ایک مضمون “ہم سب ” پر شائع ہوا۔ کچھ حقائق مسخ ہوتے دیکھ کر سوچا کہ سکوت توڑ کر دو چار سطریں لکھ دی جائیں۔

سب سے پہلے ایک عام غلط فہمی کا ازالہ کرنا چاہوں گا۔ عدم برداشت اور اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک صرف بھارت کا ہی قصہ نہیں ہے۔ پاکستان میں بھی یہ کلچر اسی شرح کے ساتھ موجود ہے۔ 2009ء میں گوجرہ میں عیسائی آبادی پر ڈھائی جانے والی قیامت ہو یا 2013ء میں جوزف کالونی لاہور ہونے والی چڑھائی ۔ ۔ ۔ 2014ء میں قصور میں مسیحی جوڑے کا زندہ جلایا جانا ہو یا 2016ء میں میرپور خاص میں ہندوآبادی اور مندرپر حملہ ۔ یہ واقعات کم از کم میری یادداشت سے تو حذف نہیں ہوئے۔ سندھ میں تو حالت یہ تھی کہ صوبائی اسمبلی کو مائی ناریٹیز بل لانا پڑا۔ غیرمسلموں کے ساتھ امتیازی سلوک ایک طرف خود شیعہ مسلمانوں کےحوالے سے جو برداشت ہمارے ہاں موجودہے وہ ہی دیکھ لی جائے۔ آج بھی ایک بہت بڑے مسلک کے کچھ علماء یہ ارشاد کرتے سنائی دیتے ہیں کہ شیعہ کے ساتھ سلام و طعام جائز نہیں ہے۔ شدت پسندی کی یہ وبا اتنی عام ہے کہ مورخ بھی بانی پاکستان محمد علی جناح صاحب کی اس نماز جنازہ کا ذکر تو کرتا ہے جوشبیر احمد عثمانی صاحب کی امامت میں سنی مسلک کے مطابق ادا کی گئی، لیکن شیعہ عالم انیس الحسنین رضوی نے جو نماز جنازہ شیعہ مسلک کے مطابق پڑھائی اس کا درسی کتابوں میں کہیں ذکر تک نہیں ملتا۔ یہ نماز جنازہ گورنر جنرل ہاوس کے ایک کمرے میں پڑھی گئی۔ اس میں چند لوگوں نے شرکت کی۔ وزیر اعظم لیاقت علی خان اس کمرے کے باہر کھڑے رہے اور انہوں نے نماز جنازہ میں شرکت نہ کی۔

ہزاروی صاحب تقسیم ہند کے مخالف علما پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :

“ہمارے بزرگوں نے اسلامی ملک کی بجائے سیکولر ملک کو ترجیح دی۔ ایک مسلمان لیڈر کی بجائے ایک ہندو لیڈر کا ساتھ دیا۔ تقسیم کی بجائے متحدہ ہندوستان کو ترجیح دی۔ بدلے میں مودی ملا۔ بدلے میں ادتیا یوگی ملا۔ “

ہزاروی صاحب کے احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئےگزارش ہے کہ اگر وہاں انتہا پسند قوتیں ہیں تو پاکستان کی طرح وہاں بھی ایسا بہت بڑا طبقہ موجود ہے جو ان سے اختلاف کرتا ہے۔ مودی تو انہیں آج ملا۔ پہلے وزیر تعلیم کی صورت میں انہیں مولانا آزاد ملے جو 1946ء تک کانگریس کے صدر بھی رہے۔ جی ہاں وہی کانگریس جس کے متعلق ہمارا خیال ہے کہ وہ ہندووں کی جماعت تھی۔ ڈاکٹر ذاکر حسین نے بھارت کے صدر کے منصب پر وفات پائی۔ فخر الدین علی احمد بھارت کے صدر رہے۔ ایٹمی سائنسدان کی حیثیت میں عبدالکلام ملے، جو بعد ازاں بھارت کے صدر رہے اور ہم نے اسی عبدالکلام کو “لفٹ” ہی نہیں کروائی تھی۔ سلمان خورشید وزیر خارجہ رہے۔ کرکٹ ٹیم کے لیے کپتان اظہر الدین ملا۔ اصل میں ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ اگر کہیں کوئی مسلمان کسی بڑے منصب پر نہ ہوتو مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا رونا اور اگر کبھی کوئی کسی عہدے پر فائز ہوجائے تو اس مسلمان کی نیت پر شک کیا جاتا ہے۔ یعنی جو میری طرح سوچتا ہے وہ ٹھیک ہے اور جو دوسری رائے رکھتا ہے تو وہ بکا ہوا ہے ۔۔۔ ایجنٹ ہے۔۔۔ غدار ہے۔۔۔ وغیرہ وغیرہ

موصوف آگے جا کرلکھتے ہیں کہ:

 “آج اگر ہم بھارت کیساتھ ہوتے تو یقینا فسادات نے جنم لینا تھا۔ ہم یقیناً غلام ہوتے۔ ہم نے خوف کی زندگی گزارنا تھی کوئی مودی اور کوئی یوگی ہمارے سر پہ بھی سوار ہوتا اللہ کی رحمت شامل حال نہ ہوتی تو ہم بھی جے ماترے کہہ رہے ہوتے۔ ”

یہاں موصوف ایک بار پھر نادانستگی میں انصاف سے کام نہیں لے سکے۔ 2011ء کی مردم شماری کے مطابق بھارت میں مسلمانوں کی تعداد 17 کروڑ جبکہ ان کا بھارت کی مجموعی آبادی میں تناسب 14 فیصد سےکچھ زائد ہے۔ اب یہاں ایک سوال کہ اگر برصغیر تین حصوں بھارت ، پاکستان اور بنگلہ دیش میں تقسیم نہ ہوگیا ہوتا تو کیا ہماری شرح پھر بھی یہی ہوتی؟ تقسیم سے قبل 1941ء میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق مسلمان ہندوستان کی آبادی کا 14 فیصد تھے۔ جبکہ تقسیم کے بعد بھارت میں ہونے والی 1951ء کی مردم دشماری کے مطابق مسلمان صرف 9.9 فیصد رہ گئے ۔ یہ تقریبا دس فیصد جو 2011ء میں بڑھ کر 14 فیصدہوچکے ہیں،ذرا تصور کریں کہ متحدہ ہندوستان میں جو 14 فیصد تھے اب بڑھ کر کتنے ہوچکے ہوتے خود اندازہ لگا لیجیے۔ چلیں میں آپ کی مشکل آسان کردیتا ہوں۔ پیو(PEW) کی 2011ء کی ایک تحقیق کے مطابق ہندوستان ، پاکستان اور بنگلہ دیش میں بسنے والے مسلمان ، پوری دنیا کی مسلم آبادی کا 31 فیصد ہیں۔ یہاں ایک اور بات بھی ذہن نشین کر لیں کہ خود بھارتی سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ہندووں اور مسلمانوں کی شرح تناسب میں فرق کم ہورہا ہے۔ مسلمان تیزی سے بڑھ رہے ہیں جبکہ ہندووں کی شرح پیدائش مسلمانوں سے کافی کم ہے ۔

ہزاروی صاحب مزید لکھتے ہیں کہ:

“بھارت حافظ سعید کا نام لے کر پوری دنیا میں شور مچاتا ہے لیکن میں پوری ذمہ داری کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ اس حافظ سعید کا ایک بیان مجھے پاکستان میں ہندو اقلیتوں کے خلاف دکھا دیں میں کہوں گا کہ حافظ سعید دہشت گرد ہے۔ “

یعنی آپ ایک بات تو تسلیم کر رہے ہیں کہ ہندو پاکستان میں رہے تو محفوظ ہے اور اگر وہ ہندوستان میں ہے تم اس کی ایسی کی تیسی۔ ویسے بھی حافظ سعید صاحب اس موضوع پر کہنے پہ یقین ہی نہیں رکھتے، بلکہ عمل کرکے دکھاتے ہیں۔ یہاں میں ہزاروی صاحب کی نیت پر کوئی شک نہیں کروں گا۔ میں ان کی خوش لحن آواز میں یوٹیوب پرپڑی تلاوت قرآن سن چکا ہوں۔ اس کے گرافک میں انہوں نے حافظ صاحب کے ساتھ اپنی ایک تصویر بھی دکھائی ہے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ ہزاروی صاحب کی معلومات کا ذریعہ اردو اخبارات ہیں۔ میرا گمان ہے کہ انہوں نے سابق ڈی جی ایف آئی اے طارق کھوسہ کا 03 اگست 2015ء کو ڈان میں لکھا گیا کالم “Mumbai Attacks Trial”نہیں پڑھا ہوگا جس میں انہوں نے بڑی وضاحت سے بتایا کہ ممبئی حملے کرنے والے کون تھے؟ بھارت کیسے پہنچے؟ وغیرہ وغیرہ۔

بھارت میں اگر انتہاپسند سوچ کو پسند کیا جاتا ہے تو پاکستان میں بھی بھارت مخالف انتہا پسند سوچ رکھنے والوں کی تعداد کچھ کم نہیں ہے۔ حافظ سعید کی مقبولیت ہی اس کا واضح ثبوت ہے۔ جن کے ترانوں میں شامل ہے کہ

“اک پاکستان بناواں گے وچ ہندوستان دے فیر اسیں

پھیرا غزنوی والا پانواں گے وچ ہندوستان دے فیر اسیں”

یا پھر عبدالودود عاصم کی خوبصورت آواز میں پڑھا گیا وہ ترانہ جس میں وہ بڑے فخر سے دسمبر 2000ء میں دہلی کے لال قلعہ پر کی جانے والی یلغار کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے ہندوستانیوں کو مبارکباد دیتا ہے۔

“اس سرخ حصار اور تاج محل کے بند دریچے گونج اٹھے

اے باب ہند مبارک ہوتجھے آمد لشکر طیبہ کی”

کیا یہ انتہا پسندی نہیں؟ اگر اسی طرح کی بات “ہندوتوا”کی شکل میں کسی انڈین کے منہ سے نکلے تو یہ گھٹیا ہندو سوچ اور اگر پاکستانی کہے تو حب الوطنی۔ یہ صرف ایک مثال نہیں۔ مجھے ان کے ایک دو نہیں سینکڑوں ترانے ازبر ہوتے تھے۔ ان میں سے کوئی ایک بھی معتدل سوچنے اور مخالف نقطہ نظر کے برداشت کا درس نہیں دیتا۔ میں کئی دفعہ مرکزالقادسیہ جاچکا ہوں اور بارہا مرتبہ حافظ سعید صاحب کی تقاریر سن چکا ہوں۔ میرے اپنے دو دوست کشمیر کی جنگ میں خالق حقیقی سے جا ملے ہیں۔

بھارت کا مسلمان ہزاروی صاحب کے نقطہ نظر سے کتنا متفق ہے آپ ہزاروی صاحب کے کالم کے نیچے موجود تاثرات سے اندازہ لگا سکتے ہیں ۔ ممبئی سے سرفراز فیضی لکھتے ہیں کہ:

” کچھ مسائل ضرور ہیں لیکن پاکستانی بھائیوں کے دل میں ہندوستانی مسلمانوں کے مظلوم ہونے کا جو تاثر بیٹھا ہے وہ پورے طور پر صحیح نہیں۔ ہندستان کا مسلمان خود کو پاکستان کے مسلمانوں سے زیادہ محفوظ سمجھتا ہے۔ ہمارے سروں پر ڈرون نہیں برستے۔ ہمارے علماء کا اغواءاور قتل نہیں ہوتا۔ ہماری مسجدوں میں گولہ باری نہیں ہوتی۔ ہمارے مدرسوں پر حملے نہیں ہوتے۔ جتنا پاکستان میں مسلمان آپس میں مل کر نہیں رہتے اس سے زیادہ ہندو مسلم یہاں مل کر رہتے ہیں۔ جتنا خوف ایک پاکستانی مسلمان کو دوسرے پاکستانی مسلمان سے ہے اتنا خوف ایک ہندوستانی مسلمان کو ہندوستانی کافر سے نہیں۔ یہاں اگر کہیں ہندو مسلم اختلاف ہے بھی تو وہ پاکستان میں الگ الگ قومیتوں کے اختلاف سے بہت کم ہے۔ جب فسادات، ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں کی جیسی خبریں پاکستان سے آتی ہیں، اس سے تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ ہم یہاں پاکستانیوں کے مقابلہ میں زیادہ محفوظ ہیں۔”

گزارش ہے کہ حالات اور تاریخی واقعات کو جہاں ہے جیسا ہے کی بنیاد پر دیکھنا چاہیے۔ ایسے میں جب ہم نے کسی ایسی سوسائٹی کو کبھی اندر اتر کر اور اس میں رہ کر نہ دیکھا ہو، اُس کا موازنہ اپنی روایات اور طور طریقوں سے نہیں کرنا چاہیے۔ دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے۔ ہم بھی اپنے فاصلے مٹائیں اور جو سچ ہے وہی اپنے آنے والی نسلوں کو بتا کر جائیں۔ غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہیں۔ دوسروں کی آنکھ کاتنکا دیکھنے کی بجائے اپنی آنکھ کے شہتیر پر نظر رکھیں تو امید ہے برداشت کا ماحول پروان چڑھے گا اور ہمارے اپنے بہت سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).