غزہ کے سوال پر ڈونلڈ ٹرمپ کی اشتعال انگیزی


امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ پر قبضہ کرنے اور اسے ایک بڑے تجارتی مرکز اور شاندار سیاحتی مقام میں تبدیل کرنے کی ’خواہش‘ ظاہر کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ غزہ پر قبضہ کر کے اس شاندار خطے کو مثال بنا دے گا۔ البتہ اس اشتعال انگیز بیان کو پوری دنیا نے مسترد کیا ہے اور امریکی انتخابات میں ٹرمپ کی حمایت کرنے والے امریکن عربوں نے بھی اس بیان کی شدید مذمت کی ہے۔

اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے امریکی صدر کا کہنا تھا کہ غزہ اب رہنے کے قابل نہیں رہا۔ اپنے گھروں کو لوٹنے والے لوگ اب تباہ شدہ کنکریٹ کی عمارتوں میں پناہ لے رہے ہیں جہاں مزید ہلاکتیں ہو سکتی ہیں۔ انہوں نے فلسطینیوں کی کسمپرسی کا نقشہ کھینچتے ہوئے دعویٰ کیا یہ بیچارے غزہ میں اس لیے موجود ہیں کیوں کہ ان کے پاس جانے کے لیے کوئی دوسرا مقام نہیں ہے۔ اس لیے میں چاہتا ہے کہ انہیں متبادل جگہ فراہم کی جائے۔ یہ مقامات ایک دو یا زیادہ بھی ہوسکتے ہیں۔ وہاں شاندار ماحول میں اعلیٰ گھروں میں یہ لوگ رہیں تاکہ ہر وقت موت کا سایہ ان کے سر پر حاوی نہ رہے۔ بظاہر فلسطینیوں کی حمایت میں دکھ اور افسوس کا اظہار کرنے کے بعد امریکہ کے صدر درحقیقت غزہ کے لاکھ 25 فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکال کر ہمسایہ ممالک اردن اور مصر میں آباد کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ ان دونوں ممالک کے علاوہ فلسطینیوں کے نمائندوں نے ٹرمپ کی اس تجویز کو مسترد کیا تھا۔

البتہ آج نیتن یاہو کے ہمراہ پریس کانفرنس میں سابقہ دور حکومت میں اپنی شاندار پالیسیوں کے بارے میں دعوے کرتے ہوئے انہوں نے غزہ کے بارے میں کہا کہ ’امریکہ غزہ کا انتظام سنبھال لے اور ہم وہاں کام کریں گے۔ ہم اس خطے کے مالک ہوں گے اور وہاں سے تمام خطرناک اور تباہ کرنے والے بم اور دھماکہ خیز مواد کو صاف کریں گے۔ اسلحہ و بارود سے پاک کرنے کے بعد وہاں سے ملبہ ہٹایا جائے گا۔ ہم اقتصادی ترقی کا منصوبہ شروع کریں گے جس سے روزگار کے بے شمار مواقع پیدا ہوں گے اور لوگوں کے رہنے کی شاندار جگہ بن جائے گی۔ ہم وہاں پر حقیقی معنوں میں کام کریں گے اور یہ بہت مختلف ہو گا‘ ۔ ان سے سوال پوچھا گیا کہ جب امریکہ اس علاقے کو بحال کردے گا اور اس کی تعمیر نو کا کام پورا ہو جائے گا تو وہاں کون لوگ آباد ہوں گے؟ اس کے جواب میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’دنیا کے لوگ‘ ۔ یعنی غزہ کے فلسطینیوں کو ان کے وطن سے جبراً نکالنے کی تجویز دینے کے بعد اب امریکہ کا صدر اس علاقے پر خود قابض ہونے اور وہاں اپنی مرضی کے لوگ آباد کرنے کی خواہش کا اظہار کر رہا ہے۔

پوری دنیا نے اس تجویز کو خطرناک اور اشتعال انگیز قرار دیتے ہوئے مسترد کیا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ٹرمپ اس قسم کے بیانات سے سنسنی ضرور پیدا کر سکتے ہیں لیکن وہ اس پر عمل نہیں کریں گے۔ اگر کسی صورت انہوں نے غزہ کے حوالے سے اپنے کسی منصوبے کو عملی شکل دینے کی کوشش کی تو اس سے یہ خطہ زیادہ خطرناک ہو جائے گا اور مشرق وسطیٰ کی صورت حال مزید پیچیدہ اور مشکل ہو جائے گی۔ سعودی عرب کے علاوہ ترکی، اور دیگر عرب ممالک نے اس تجویز کو ناجائز اور ناقابل عمل قرار دیا ہے۔ مصر کا کہنا کہ غزہ کی تعمیر نو کا کام فوری طور سے شروع ہونا چاہیے لیکن یہ کام فسلطینیوں کی موجودگی ہی میں کیا جائے۔ ان لوگوں کو اپنی زمین سے بے دخل کرنے کا کوئی منصوبہ قابل قبول نہیں ہو گا۔ ٹرمپ نے پریس کانفرنس میں ایک سوال کے جواب میں اصرار کیا تھا کہ سعودی عرب دو ریاستی حل کی حمایت نہیں کرتا۔ بلکہ اب ان کی حکومت ابراہم اکارڈ کے تحت مزید عرب ممالک کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے پر آمادہ کرے گی اور یہ خطہ امن و امان کا گہوارہ بن جائے گا۔ تاہم ریاض سے وزارت خارجہ نے غیر معمولی عجلت سے ٹرمپ کے اس دعوے کو مسترد کیا ہے کہ سعودی عرب نے فلسطین کے بارے میں اپنی پوزیشن تبدیل کی ہے۔

سعودی عرب کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ اس وقت تک تعلقات بحال کرنے کے بارے میں بات نہیں کرے گا جب تک ایک نئی فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں نہیں لایا جاتا۔ سعودی عرب کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے ایک بیان میں فلسطینیوں کو غزہ سے کسی دوسری جگہ منتقل کرنے کی کسی بھی کوشش کو مسترد کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ فلسطینیوں کے بارے میں اس کا موقف اٹل ہے۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے زور دیا ہے کہ سعودی عرب کا موقف ’واضح اور دو ٹوک‘ ہے اور اس میں کسی بھی صورتحال میں مختلف ’تشریح‘ کی گنجائش نہیں ہے۔ خیال رہے کہ غزہ کی جنگ کے دوران بھی فلسطینیوں کو خدشہ تھا کہ یہ جنگ کہیں ایک اور ’نکبہ‘ کا پیش خیمہ ثابت نہ ہو۔ نکبہ دراصل 1948 میں اسرائیلی ریاست کے قیام کے موقع پر لاکھوں فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی کو کہا جاتا ہے۔ اب ٹرمپ نے مسلسل غزہ کے فلسطینیوں کو بظاہر ان کی ہمدردی اور حمایت میں ’محفوظ‘ علاقوں میں منتقل کرنے کے منصوبے پر اصرار کیا ہے لیکن وہ تمام حدوں کو پار کرتے ہوئے اب یہ اعلان کر رہے ہیں کہ امریکہ خود غزہ پر قبضہ کرے گا اور وہاں ترقیاتی کام کرے گا لیکن اس منصوبہ میں فلسطینیوں کی واپسی کا کوئی اشارہ موجود نہیں ہے۔

یوں تو پوری دنیا میں ٹرمپ کے تازہ بیان کو محیر العقل اور تشویشناک کہا گیا ہے کیوں کہ دنیا میں یہ مسئلہ حل کرنے اور اسرائیل کی حفاظت کے لیے دو ریاستی حل ہی کو واحد آپشن کے طور پر بہترین طریقہ سمجھا جاتا ہے۔ اسرائیل اوسلو معاہدے کے تحت اس حل پر اتفاق کرچکا ہے لیکن بعد میں آنے والی حکومتوں اور خاص طور سے نیتن یاہو نے فلسطینی ریاست کی شدید مخالفت کی تھی بلکہ وہ گولان ہائٹس کی طرح مغربی کنارے کے فلسطینی علاقوں پر بھی قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اس موقف کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ تاہم ایسی کوئی بھی کوشش مشرق وسطیٰ میں نئی کشیدگی اور جنگ کا پیش خیمہ سمجھی جا رہی ہے۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان ہونے والا معاہدہ بھی ابھی عارضی ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے آج وائٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس کے دوران اس حوالے سے کوئی حتمی وعدہ کرنے سے گریز کیا ہے۔ اب ٹرمپ کی طرف سے غزہ کے بارے میں اشتعال انگیز اور بوگس بیانات سے یہ جنگ دوبارہ چھڑ جانے کا اندیشہ موجود ہے۔

مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ کے سینئر فیلو برائن کٹولس نے خبر رساں ایجنسی رائیٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے خیال میں ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ پر امریکی قبضے کا بیان بنا سوچے سمجھے دیا ہے، امریکی صدر کا اس بارے میں کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ میرے خیال میں وہ یہ سب باتیں سوچے سمجھے بغیر کر رہے ہیں۔ اس باتوں کے پیچھے کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ اگر ایسا کوئی منصوبہ ہے بھی تو اس کا آج کے مشرق وسطی کی حقیقت کوئی تعلق نہیں بنتا۔ ایسے بیانات سے ٹرمپ توجہ کا مرکز بننا چاہ رہے ہیں۔ اپنے پہلے دورِ صدارت میں بھی ٹرمپ نے ایسے ہی بیانات دیے تھے جس کا مقصد بحث شروع کرنا تھا۔ مسئلہ یہ ہے کہ ایسی باتوں سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ اس سے ہمیں ان کے مضحکہ خیز بیانات پر توجہ مرکوز دینے کے لیے کچھ وقت اور توانائی مل جاتی ہے لیکن اس میں فلسطینیوں یا اسرائیلیوں کے لیے کوئی نئی حقیقت موجود نہیں ہے۔

ٹرمپ کے بیان اور اس سے پیدا ہونے والی سنسنی خیزی کے بارے میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے لیے اقوام متحدہ کی نمائندہ خصوصی فرانسیسا البانیز واشگاف اور دو ٹوک بیان میں ٹرمپ کے دعوے اور خواہش کو مسترد کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ٹرمپ کا بیان غیر قانونی، غیر اخلاقی اور غیر ذمہ دارانہ ہے۔ کوپن ہیگن میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے استفسار کیا کہ اس لغو بیانی کا کیا مقصد ہو سکتا ہے؟ اس قسم کی حرکتوں سے اس خطے میں بحران مزید خطرناک ہو جائے گا۔ ٹرمپ کا بیان غزہ کے لوگوں کو زبردستی منتقل کرنے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ اس قسم کا موقف اختیار کرنا بین الاقوامی جرم ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’دنیا میں اس وقت 193 ممالک ہیں۔ امریکہ اگر دنیا سے الگ تھلگ ہونا چاہتا ہے تو اسے کر دینا چاہیے‘ ۔

ڈونلڈ ٹرمپ لغو بیانی، جھوٹ بولنے اور بلند بانگ دعوے کرنے کی شہرت رکھتے ہیں۔ انہوں نے امریکی عوام کی ایک بڑی تعداد میں اندھی حمایت کی وجہ سے یہ مقام حاصل کر لیا ہے کہ وہ خود کو کسی اصول یا اخلاقی معیار کا پابند نہیں سمجھتے۔ غزہ کے مستقبل کے بارے میں آج سامنے آنے والا بیان بھی ٹرمپ کے غیر ذمہ دارانہ طرز عمل کی محض ایک مثال ہے۔ وہ اس سے پہلے ڈنمارک کے زیر انتظام گرین لینڈ کو فوجی کارروائی سے امریکہ کا حصہ بنانے کا خیال بھی پیش کرچکے ہیں۔ ان کی پریس کانفرنسوں یا تقریروں میں تسلسل سے جھوٹ بولا جاتا ہے لیکن غلط بیانی کی نشاندہی کے باوجود انہیں اس سے فرق نہیں پڑتا کیوں کہ ان کے حامی کسی جھوٹ کو اہم نہیں مانتے بلکہ ان کا خیال ہے کہ ٹرمپ ان کی زندگی تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ غزہ کو امریکہ کی ملکیت میں لینے کا بیان اگر کسی دوسرے امریکی لیڈر نے کسی آف دی ریکارڈ گفتگو میں بھی دیا ہوتا تو اس پر میڈیا میں قیامت بپا ہوجاتی اور ایسے لیڈر کے بخیے ادھیڑ دیے جاتے لیکن ٹرمپ انتہائی ڈھٹائی سے دعویٰ کر رہے ہیں کہ انہوں نے یہ تجویز جس کے سامنے رکھی، اس نے اس کی تعریف کی۔ حالانکہ اگر کسی کے سامنے یہ تجویز رکھنے کی ضرورت ہے تو وہ غزہ کے فلسطینی ہیں۔ ان کی مرضی کے بغیر انہیں منتقل کرنے یا اپنی دھرتی سے نکالنے کی کوشش کرنا معلوم انسانی اصولوں کے منہ پر تھپڑ کے مترادف ہے۔

ٹرمپ کی دروغ گوئی اور اسرائیل کی حمایت میں کسی بھی حد سے گزرنے کے دعوؤں کو دیکھتے ہوئے اس حقیقت سے منہ نہیں موڑا جاسکتا کہ ڈونلڈ ٹرمپ بہر حال اس وقت دنیا کی سب سے بڑی طاقت امریکہ کے صدر ہیں۔ ان کی پارٹی کانگرس میں بھی اکثریت رکھتی ہے اور اس وقت ٹرمپ کی مقبولیت کی وجہ سے ارکان کانگرس و سینیٹرز اختلافات کے باوجود بہر حال ان کی حمایت پر مجبور ہیں۔ اس لیے غزہ کے بارے میں ٹرمپ کے بیان کا سنجیدہ نوٹس لینے اور اسے عالمی فورمز میں زیر غور لانے کی ضرورت ہے۔ عرب ممالک کو اس سوال پر سیکورٹی کونسل کا اجلاس بلانا چاہیے تاکہ ایک دور دراز خطے پر کسی قانونی اختیار کے بغیر ’حق ملکیت‘ کا دعویٰ کرنے والے بیان کا سنجیدہ نوٹس لیا جائے اور ٹرمپ حکومت کو کسی ایسا اقدام سے باز رہنے کا مشورہ دیا جائے جو مشرق وسطیٰ ہی نہیں بلکہ کسی بڑے عالمی تنازع کا سبب بھی بن سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 3040 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments