عدلیہ کو کون بے وقار کر رہا ہے؟
اتفاق ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد سپریم کورٹ میں ججوں کی طرف سے سیاسی مقدمات میں کثرت سے ’ریمارکس‘ دینے اور باقاعدہ فریق کا کردار ادا کرنے کا سلسلہ رکا تو اب اعلیٰ عدلیہ کے ججوں نے خط لکھ کر وہی کردار ادا کرنا شروع کر دیا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے 5 ججوں کے بعد سپریم کورٹ کے 4 ججوں نے عدالت عظمی میں ججوں کی تقرریاں روکنے کا مشورہ دیا ہے۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کہ کیا اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے حلف یا ملازمت کی شرائط میں کہیں یہ بھی لکھا ہے کہ وہ اپنی آئینی تفہیم کے مطابق موقع بے موقع قوم کے علاوہ چیف جسٹس، صدر مملکت اور پارلیمنٹ کی رہنمائی کا فریضہ ادا کرتے رہیں۔
ججوں کی خود مختاری اور عدالت کے وقار کے بارے میں بلند بانگ دعوؤں کے باوجود یہ سوال بدستور جواب طلب ہے کہ اس وقت کون سے عناصر اعلیٰ عدلیہ کو مشکوک بنا کر بے وقار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کیا ایک نظام کے تحت کام کرنے والے چیف جسٹس، جوڈیشل کمیشن، ججز کمیٹیاں اس گناہ کی مرتکب ہو رہی ہیں یا اپنے عدالتی فرائض انجام دینے کی بجائے، آئین اور سپریم کورٹ کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کے خواہشمند جج حضرات یہ افسوسناک کام کر رہے ہیں؟
ایک جج کے فرائض کے بارے میں عام تفہیم تو یہی ہے کہ وہ اپنی کسی بھی رائے کا اظہار کرنے سے گریز کرتا ہے۔ جب کوئی معاملہ اس کے سامنے پیش ہوتا ہے تو وہ فریقین کے وکلا کے دلائل سننے کے بعد انہیں متعلقہ قوانین کی کسوٹی پر پرکھ کر اپنی بہترین صوابدید کے مطابق کوئی فیصلہ صادر کرتے ہیں۔ اگر یہ فیصلہ کم تعداد میں ججوں کا کوئی بنچ صادر کرے تو آئین میں اس کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل دائر کرنے کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔
لارجر بنچ ایسے کسی فیصلے کو تبدیل کر سکتا ہے یا اسے من و عن قبول کر سکتا ہے۔ کسی بھی صورت میں ابتدائی بنچ میں بیٹھنے والے جج اس معاملہ کو ذاتی انا کا مسئلہ نہیں بناتے بلکہ طریقہ کار کے مطابق عدالتی کارروائی کو قبول کیا جاتا ہے۔ یوں یہ اصول واضح ہوتا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے وقار میں اسی وقت اضافہ ہو سکتا ہے جب وہ سختی سے اپنی پیشہ ورانہ عدالتی ذمہ داریاں نبھائیں اور ’خدائی فوجدار‘ بن کر ہمہ وقت دوسروں کی کمزوریاں تلاش کرنے اور انہیں غیر آئینی قرار دینے کا طریقہ اختیار نہ کریں۔
اعلیٰ عدلیہ کے جج اسی وقت عزت و احترام کے مستحق ہوسکتے ہیں جب وہ خود بھی مقررہ روایات کا احترام کریں اور ملکی عدلیہ کو بھی مقررہ طریقہ کار اور نظم کے مطابق چلنے دیں۔ اگر سپریم کورٹ یا کسی ہائی کورٹ کا نظام انفرادی ججوں کی رائے یا خطوں کے ذریعے ہی چلانا ہے تو پھر یہ فاضل جج حضرات اپنی پریشانی و اختلاف رائے کا اظہار کرتے ہوئے کس آئین و قانون کی دہائی دے رہے ہیں۔ وہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج ہوں یا سپریم کورٹ کے منصف، انہیں بخوبی اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے کہ اگر کسی مسئلہ پر ان کی رائے طلب نہیں کی گئی۔
یعنی اگر وہ کسی بنچ میں شامل نہیں ہیں یا کسی ایسی کمیٹی میں موجود نہیں جہاں وہ اپنی رائے دینے کے مجاز ہیں تو انہیں خط لکھ کر اپنی فاضلانہ قانونی رائے عام کرنے کا بھی کوئی حق حاصل نہیں ہو سکتا ۔ سپریم کورٹ یا ہائی کورٹس کوئی سیاسی فورم نہیں ہے کہ کسی پارٹی کے جس رکن کا جی چاہے، وہ شور مچانا شروع کردے۔ بدقسمتی سے ججوں کے خطوط اعلی عدلیہ کو سیاسی ڈبیٹنگ فورم بنانے کی افسوسناک کوشش ہے۔ ملک کے چیف جسٹس ان تمام معاملات میں قانون کے مطابق تحمل و بردباری سے کام لے رہے ہیں اور ایسا ہی طریقہ ان عدالتوں کے دیگر ججوں کی طرف سے بھی دیکھنے میں آ رہا ہے۔
ورنہ خط لکھ کر اشتعال دلانے کی جو کوشش کی جا رہی ہے، اس کے نتیجے میں اعلیٰ عدلیہ کے جج کمرہ عدالت میں جانے کی بجائے گروہ بندی کر کے اپنے سیکرٹریوں کے ذریعے ایک دوسرے کے خطوں کا جواب دے کر پوائنٹ اسکورنگ کرنے میں مصروف ہوجائیں۔ اس صورت حال میں نہایت احترام سے یہ عرض کرنے میں کوئی مشکل نہیں ہے کہ اس وقت اعلیٰ عدلیہ کی اتھارٹی، وقار، خود مختاری اور غیر جانبداری کو اگر کسی طرف سے خطرہ ہے تو وہ وہی جج ہیں جو سیاسی وابستگی کی بنیاد پر خطوں کے ذریعے رائے دینے اور تمام نظام کو الٹ پلٹ کرنے کی اپنی سی کوشش کر رہے ہیں۔
اعلیٰ عدلیہ کے کسی بھی جج کی نیک نیتی یا صوابدید کے بارے میں کوئی رائے دینا مناسب نہیں ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اعلیٰ عدالتوں کے ہر جج سے بھی یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ صرف اپنے احترام یا اپنی رائے کے صائب ہونے پر اصرار نہ کرے بلکہ ساتھی ججوں کی رائے، نظام، آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی کا احترام بھی کرے۔ یہ احترام محض الفاظ ہی کی حد تک نہ ہو بلکہ خاص طور سے اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے انفرادی فعل، گفتگو اور لکھے ہوئے الفاظ سے اس کا اظہار ہونا چاہیے۔
موجودہ صورت حال میں دیکھا جاسکتا ہے کہ خط لکھ کر ججوں کے تبادلوں کے بارے میں صدر کے آئینی حق کو چیلنج کرنے والے جج ہوں یا اب سپریم کورٹ میں ججوں کی تعینات پر چیں بچیں ہونے والے سپریم کورٹ کے جج، وہ اپنے ہی ساتھی ججوں اور ادارے کے میکنزم کا احترام کرنے میں ناکام ہیں۔ اس بارے میں سب سے بنیادی نکتہ تو یہی ہے کہ اگر کوئی جج کسی بنچ یا کمیٹی کا رکن نہیں ہے اور وہاں رائے کے اظہار سے بڑھ کر کسی مسئلہ پر اس حد تک پریشان ہو چکا ہے کہ وہ اپنے ضمیر کے ہاتھوں مجبور ہو کر کوئی قانونی یا انتظامی نکتہ چیف جسٹس کے گوش گزار کرانا چاہتا ہے تو باہمی احترام اور نظام سے وابستگی کا تقاضا تو یہ ہو گا کہ متعلقہ جج اپنا اختلاف جس طریقے سے مناسب سمجھے چیف جسٹس، جوڈیشل کمیشن یا ججز کمیٹی تک پہنچا دے لیکن یہ کام خفیہ مواصلت کے ذریعے ہو۔
لیکن پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ ججوں نے اب سپریم کورٹ کے چار ججوں نے کھلے خط کے ذریعے اپنی نام نہاد قانونی رائے کا اظہار کیا ہے۔ ان خطوں میں صرف آئین و قانون کے بارے میں اپنی رائے ہی ظاہر نہیں کی گئی بلکہ یہ واضح کیا گیا ہے کہ اس رائے سے مختلف کوئی طریقہ اعلیٰ عدلیہ پر عوام کے اعتماد کو مجروح کرے گا اور آئین سے متصادم ہو گا۔ ظاہر ہے کہ یہی رائے اگر خفیہ طور سے چیف جسٹس یا کسی متعلقہ ادارے تک پہنچائی جاتی تو اس سے سنسنی پیدا نہ ہوتی جو ان خطوں کو عام کر کے پیدا کی گئی ہے۔
ایسا رویہ سیاسی لیڈروں کی طرف سے اختیار کیا جائے تو قابل فہم ہو سکتا ہے لیکن ججوں کا ایسا طرز عمل قابل قبول نہیں ہونا چاہیے۔ اور اسے ہماری عدالتی روایت کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔ سپریم کورٹ کے 4 اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے 5 ججوں کے حالیہ مراسلوں کے حوالے سے یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ یہ سب جج اس معاملہ میں کسی بنچ کا حصہ نہیں تھے۔ انہیں انتظامی طور سے کسی کمیٹی میں بھی ان مسائل پر غور کرنے کے لیے شامل نہیں کیا گیا تھا، پھر یہ تمام جج متفقہ امور پر غور کرنے اور اختلاف کا اظہار کرنے کے لیے خط لکھنے پر کیسے اتفاق کرتے رہے ہیں؟
اس کا ایک ہی جواب ہو سکتا ہے کہ یہ جج حضرات پرائیویٹ طور سے ایک دوسرے سے مل کر اہم آئینی امور پر ایک رائے بناتے ہیں اور پھر اسے لکھ کر چیف جسٹس کو روانہ کیا جاتا ہے۔ یہ بات تو مانی جا سکتی ہے کہ کوئی باضمیر جج کسی صورت حال پر پریشان ہے تو وہ ایک خط میں اس کا اظہار کر کے دل کا بوجھ ہلکا کر لیتا ہے اور اپنے تئیں اپنی اخلاقی ذمہ داری سے عہدہ برا ہوجاتا ہے لیکن جب متعدد جج ایک ہی مضمون کا مشترکہ خط لکھنے کا قصد کرتے ہیں تو اس سے یہی اندازہ قائم ہوتا ہے کہ جج حضرات پیش نظر مقدمات پر غور کرنے کے علاوہ ’دلچسپی‘ کے دیگر امور پر غور و فکر کرنے میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔
یہ طریقہ عام فہم میں کسی نظام کے خلاف سازشیں کرنا شمار ہوتا ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کے ذی وقار ججوں سے ایسی کسی ساز باز میں ملوث ہونے کی توقع نہیں کی جاتی۔ سپریم کورٹ کے سینئر جج منصور علی شاہ سمیت 4 فاضل ججوں نے چیف جسٹس اور جوڈیشل کمیشن کو خط میں دو نکات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ایک یہ کہ سپریم کورٹ میں 8 نئے جج شامل ہونے سے فل کورٹ بننے کی صورت میں ناقابل قبول صورت حال پیدا ہوگی کیوں کہ ابھی تک 26 ویں آئینی ترمیم کے بارے میں فیصلہ نہیں ہوا کہ اسے فل کورٹ میں سنا جائے گا یا نہیں۔
اس لیے یہ جج نئی تقرریوں کو رکوانا چاہتے ہیں۔ ان کا دوسرا نکتہ چند روز پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ میں تبادلوں کے صدارتی حکم اور وہاں سنیارٹی کی تبدیلی کے حوالے سے ہے۔ وہ ان تبادلوں کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے 5 ججوں کی طرح ’غیر آئینی‘ سمجھتے ہیں اور تبادلے کے بعد از سر نو حلف نہ اٹھانے والے ججوں کی تقرری کو ’مشتبہ‘ قرار دے رہے ہیں۔ جب سپریم کورٹ کے چار جج اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ ججوں کی رائے سے اس حد تک اتفاق کرتے پائے جائیں تو یہ قانون کے سوال پر پیدا ہونے والا اتفاق رائے نہیں ہے بلکہ عدالتی امور طے کرنے کے بارے میں تبدیلیوں پر بعض ججوں کی پریشانی کا اظہار ہے۔
سپریم کورٹ کے جن چار ججوں نے چیف جسٹس کو 26 ویں آئینی ترمیم کے تناظر میں خط لکھا ہے۔ وہ اپنی ذاتی حیثیت میں اس ترمیم کے مخالف ہیں اور کسی بھی طرح اسے ختم کرانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ حیرت ہے کہ نئی آئینی ترمیم پر اختلاف کو مسلط کرنے کے خواہاں یہ جج اسی ترمیم کے تحت مقرر ہونے والے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی تقرری پر خاموش رہے۔ بلکہ ان میں سے دو جج جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر تو جسٹس یحییٰ آفریدی سے سینئر تھے لیکن چیف جسٹس کے عہدے کے لیے نظر انداز ہونے کے باوجود انہوں نے نئی ترمیم کے تحت بھی جج کے طور پر کام جاری رکھا۔
اور اب عدالت کا حصہ رہتے ہوئے، وہ ترمیم کے دیگر پہلوؤں پر عمل درآمد رکوانا چاہتے ہیں۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملک میں آئین کی بالادستی کا سارا بوجھ چند عالی دماغ ججوں ہی کے کاندھوں پر دھرا ہے۔ اگر وہ ترمیم کو غلط سمجھتے تھے تو اپنے عہدے چھوڑ کر ایک شہری کے طور پر سپریم کورٹ سے اس ترمیم کے خلاف رجوع کرتے۔ سپریم کورٹ کے چار فاضل ججوں نے خاص طور سے سپریم کورٹ کی عوامی مقبولیت کا حوالہ دیا ہے اور کہا کہ موجودہ صورت میں نئے جج مقرر ہونے سے عوام کا عدالت پر سے اعتماد کمزور ہو گا۔
حالانکہ عام طور سے یہی سمجھا جاتا ہے کہ جج قانون کے مطابق رائے بناتے ہیں وہ عوامی نقطہ نظر کی بنیاد پر فیصلے صادر نہیں کرتے۔ اگر سپریم کورٹ کو اب سیاسی فورم بنانے کا ارادہ کیا جا رہا ہے تو یہی طریقہ درحقیقت اس اعلیٰ عدالتی فورم کو بے وقعت کرنے کا سبب بنے گا۔ فاضل ججوں نے خط میں موقف اپنایا ہے کہ ’عوام کو موجودہ حالات میں‘ کورٹ پیکنگ ’کا تاثر مل رہا ہے، جاننا چاہتے ہیں کس کے ایجنڈا اور مفاد کے لیے عدالت کی تذلیل کی جا رہی ہے‘؟
پہلے تو یہ خط لکھنے والے یہ چاروں جج واضح کریں کہ عوام نے انہیں کس طریقے سے اپنا نمائندہ بنا کر ان کا مقدمہ ایک خط میں چیف جسٹس کے گوش گزار کرنے کا حق دیا ہے؟ اگر یہ سارے جج اس سوال کا دیانتدارانہ جواب دے سکیں تو انہیں خود ہی معلوم ہو جائے گا کہ کس ایجنڈے کے تحت کون لوگ عدالت کی تذلیل پر کمر بستہ ہیں۔
- جنگ جوئی میں سیاسی اقدامات نظر انداز کرنے کا رویہ - 20/03/2025
- ملکی افق پر آمریت کے منڈلاتے بادل - 19/03/2025
- لاپتہ افراد کا معاملہ دہشت گردی سے منسلک نہ کیا جائے! - 18/03/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).