دو راہا
وہ نجانے کب، کہاں، کیوں اور کیسے میری زندگی میں دبے پاؤں داخل ہو گئی مجھے کچھ خبر نہیں لیکن جب سے وہ میری زندگی میں آئی ہے میں کچھ حیران کچھ پریشان سی رہتی ہوں۔
اب مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میرے سینے میں ایک دل نہیں ایک پارہ ہے جو ہیجانی کیفیت میں رہتا ہے۔ شاید اسی لیے میری طبیعت بھی سیمابی ہوتی جا رہی ہے۔
میں کہیں چین سے نہیں بیٹھ سکتی۔ بیٹھوں تو تھوڑی دیر کے بعد بغیر کسی مقصد کے چلنے لگتی ہوں۔ چلتے چلتے تھک جاؤں تو دوبارہ بیٹھ جاتی ہوں۔ کبھی بیٹھ بیٹھے آرام کرنے کو لیٹ جاتی ہوں لیکن پھر کروٹیں بدلنے لگتی ہوں۔ کسی کروٹ چین بھی تو نہیں آتا۔
خیالات ہیں کہ منتشر رہتے ہیں۔ انہیں کسی ایک موضوع پر مرکوز نہیں کر پاتی۔ اپنی پریشاں خیالی میں الجھی رہتی ہوں۔
دھیرے دھیرے اس حیرانی اس پریشانی میں ایک خوف کا عنصر بھی شامل ہو گیا ہے۔ میں زیادہ نہیں تھوڑی تھوڑی خوف زدہ سی رہتی ہوں۔
اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ کس بات کس چیز کا خوف ہے تو میں وہ بھی بتا نہیں سکتی۔
ایک انجانا سا خوف ہے جیسے کچھ ہونے والا ہے۔ اور وہ بھی کچھ غلط کچھ خراب ہونے والا ہے لیکن پتہ نہیں کہ وہ کیا ہے۔
اسی خوف کی وجہ سے اب میں گھر سے بھی نہیں نکلتی۔ مجبوری ہو تو قریبی سٹور تک جاتی ہوں اور کھانے پینے کی چیزیں لے آتی ہوں اور اس وقت تک انتظار کرتی ہوں جب تک کھانے پینے کی سب چیزیں ختم نہ ہو جائیں۔ جب گھر میں کھانے کو کچھ نہیں رہتا تو پھر بازار جاتی ہوں۔
میں نے محفلوں میں جانا بھی کم بہت ہی کم کر دیا ہے۔ دوست سہیلیاں بلاتے ہیں تو میں ٹال دیتی ہوں کوئی بہانہ بنا دیتی ہوں۔ میرے دوست بھی جانتے ہیں کہ یہ ایک بہانہ ہے لیکن خاموش رہتے ہیں۔
ایک شام میری ایک پرانی سہیلی مجھ سے ملنے میرے گھر آئی۔ وہ میرے بارے میں فکرمند تھی۔ کہنے لگی تمہیں کسی نفسیاتی معالج سے مشورہ کرنا چاہیے۔ میں نے کہا کیا تمہارا خیال ہے میں ذہنی مریضہ بنتی جا رہی ہوں۔ کہنے لگی میں ماہر نفسیات نہیں ہوں میں بس تمہاری ہمدرد ہوں۔ کسی ماہر سے مشورہ کرو گی تو وہ تمہیں بتائے گا کہ مسئلہ کیا ہے۔
میں کسی ماہر نفسیات سے ملنے سے بھی گھبراتی تھی۔ نجانے وہ کیا تشخیص کرے اور کیا علاج تجویز کرے۔
آخر میں نے ڈرتے ڈرتے ایک ماہر نفسیات سے اپائنٹمنٹ لی۔ دو دفعہ کینسل بھی کی۔ تیسری بار ملنے گئی تو اس نے کہا
تمہارے لاشعور میں کوئی تضاد ہے جو تمہیں پریشان رکھتا ہے اسی نے تمہارا دن کا چین اور راتوں کا سکون لوٹ لیا ہے۔
اس نے مشورہ دیا
تم تھراپی کرانے آتی رہو۔ آہستہ آہستہ تمہاری طبیعت بہتر ہو جائے گی۔
میرے تھراپسٹ نے مجھے ڈائری لکھنے کو کہا ہے۔ اس کا خیال ہے میری ڈائری کا آزاد تلازمہ خیال میرے تضادات کو لاشعور کی گہرائیوں سے شعور کی سطح پر لے آئے گا اور پھر میں اپنے مسئلے کا حل تلاش کر سکوں گی۔
میں ڈائری لکھنے سے بھی گھبراتی ہوں نجانے کب کس کے ہاتھ لگ جائے اور وہ اس کا کیا کرے۔ اگر میں نے عمر بھر ڈائری سنبھال کر بھی رکھی تو پھر بھی ڈر ہے کہ میرے مرنے کے بعد کوئی اسے پڑھ لے گا۔
وقت کے ساتھ ساتھ میری طبیعت بہتر ہونے کی بجائے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ ایک دفعہ میری طبیعت اتنی خراب ہوئی کہ میں نے خود کشی کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا۔ میں نے بہت سے منصوبے بنائے لیکن پھر سب کو رد کر دیا۔ مجھے ہر منصوبے کے ناکام ہونے کا خوف رہا۔
اگر میں نے بہت سی ادویہ کھا لیں تو عین ممکن ہے میں بے ہوش ہو جاؤں لیکن مر نہ پاؤں۔ ایسا ہوا تو مجھے محسوس ہو گا کہ زندگی کی دیگر ناکامیوں کے ساتھ میں خودکشی کرنے میں بھی ناکام رہی ہوں۔
پھر سوچا کہ میں ایک پل پر سے چھلانگ لگا دوں۔ پھر مجھے اس خوف نے آن گھیرا کہ کہیں چھلانگ لگانے سے ٹانگیں ٹوٹ جائیں اور میں زندہ رہوں اور بقیہ عمر کسی وھیل چیئر پر گزار دوں۔
پھر میں نے سوچا کہ ایک بندوق خریدوں اور اپنی کنپٹی پر رکھ کر لبلبی دبا دوں لیکن پھر یہ سوچ کر کہ میری سہیلی مجھ سے ملنے آئے گی اور میرا خون میرے کمرے کی دیواروں پر دیکھ کر بہت پریشان ہوگی میں نے ارادہ ملتوی کر دیا۔
مجھے دھیرے دھیرے احساس ہو رہا ہے کہ میں ایک دوراہے پر کھڑی ہوں نہ زندہ رہنا چاہتی ہوں اور نہ ہی مرنا چاہتی ہوں۔ میں ایک عجیب تضاد کا شکار ہوں جو شعوری بھی ہے لاشعوری بھی ارادی بھی ہے غیر ارادی بھی۔ خارجی بھی ہے داخلی بھی اور مجھے اس تضاد کا کوئی حل بھی نہیں سوجھ رہا۔
تھیرپسٹ کے کہنے پر میں نے اپنی ڈائری کا یہ پہلا ورق لکھ تو لیا ہے لیکن یہ سوچ کر گھبرا رہی ہوں کہ کہیں وہ اسے پڑھ کر مجھے کسی پاگل خانے میں نہ داخل کرا دے اور اس کی چابی کہیں دور پھینک دے۔
میں اپنی زندگی میں پیچھے مڑ کر دیکھتی ہوں تو اندازہ ہوتا ہے کہ میں نجانے کب سے ہر صبح اور ہر شام اپنے آپ کو ایک نئے دوراہے پر کھڑا پاتی ہوں۔
- دو خوش قسمت شاعر: یزدانی جالندھری اور حامد یزدانی - 20/03/2025
- کیا ایک مذہبی اور لامذہبی انسان کی دوستی ممکن ہے؟ - 17/03/2025
- کیا آپ مصنوعی ذہانت کے خلاف ہیں؟ - 12/03/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).