ملتان، میلانو اور محبت کا عالمی دن


آج سے کوئی دس گیارہ سال پہلے ہماری سالانہ کانفرنس ملتان میں تھی اور وہ 14 فروری کو شروع ہو رہی تھی۔ ہم لوگ کانفرنس کے پہلے دن سائنٹفک سیشن کے بعد ملتان گھومنے کے لئے نکلے تو عجیب منظر دیکھا، موٹر سائیکلز پر بہت سارے جوڑے رنگ برنگ کپڑوں میں سڑک کے ہر طرف نظر آئے، راستہ میں باغوں میں نظر آئے۔ پہلے تو کچھ سمجھ نہیں آیا پھر یاد آیا کہ آج ویلنٹائن ڈے ہے اور ملتانی سینٹ ویلنٹائن کی یاد میں سانولی سلونی محبوباؤں کو اسکوٹر پر بٹھا کر سیر کرنے نکلے ہیں۔

ہمارے ٹی وی چینلز پر بھی اس دن پر بڑی سیلیبریشن ہونے لگی تھیں۔ لال محبت کا، گلابی دوستی کا وغیرہ کی اضافت کے ساتھ رنگ رنگیلے پروگرامز نشر ہونے لگے تھے اور کچھ تو مغرب کی تقلید میں اتنے آگے بڑھ گئے کہ لائیو ٹرانسمیشن شوز تک کرنے لگے۔ آخر یہ مغرب کی وبا ہی تو ہے جس نے پاکستانیوں کی مت ماری ہوئی ہے ورنہ ہمارا اس سے کیا لینا دینا، بس ایسے ہی خیالات آتے رہے اس دن۔

کچھ سال بعد فیلوشپ کے سلسلے میں اٹلی جانا ہوا اور اسی دوران 14 فروری کا دن بھی آیا۔ اب ویلنٹائن ڈے اور وہ بھی میلانو میں ہمارے تو ہوش ہی اڑ گئے کہ جب پاکستان میں اتنا کچھ ہوتا ہے تو یہاں کیا ہو گا۔ پہلے تو سوچا چھٹی کر لیتے ہیں لیکن اس دن اہم سرجری تھی تو چھٹی کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔ جانا تو تھا بہر حال، گھر سے نکلنے کے بعد تھوڑا آگے پاؤلا کا سب وے تھا۔ اور آگے جاکر راستے میں یونیورسٹی بھی آتی تھی۔ یہ سوچ کر ہی دل دہل رہا تھا کہ نہ جانے کیا ہو گا۔ لوگ لال ڈریسز پہن کر پھول ہاتھ میں لئے کھڑے ہوں گے اور جوڑے گھوم رہے ہوں گے۔ آنکھوں پہ پٹی باندھ کر گزرنا ہو گا۔ لیکن جب گھر سے نکلے تو ایسا کوئی منظر نظر نہیں آیا اور سب لوگ روٹین کے کالے اور نیلے لباس میں ہی نظر آئے۔ پھر یہ خیال آیا کہ ابھی تو صبح سویر ہے شاید بعد میں سیلیبریشن ہو۔ اسپتال تک تو خوشگوار مایوسی رہی اور اسپتال میں بھی کوئی پھول، گملے، اسٹالز نہیں ملے نہ نرسنگ اسٹیشن پر کیوپڈ کے اسٹیچو نظر آئے۔ دن بھر کام بھی روٹین سے ہوا۔ آپریشن تھیٹر میں سہمے سہمے داخل ہوئے کہ نہ جانے کون سی محفل سجی ہوگی سرجنز لاؤنج میں مگر وہاں بھی ہر کوئی کام میں مصروف نظر آیا۔ الغرض کسی کے منہ سے حضرت ویلنٹائن کا نام نہیں نکلا۔ چلو رات میں مناتے ہوں گے، واپسی پر بھی راستے بھر کچھ ایسا نہ نظر آنے پر سوچا۔

شام کو دیر سے کچھ شور سا سنائی دیا پڑوسی اپارٹمنٹ سے اور ہم نے کہا دیکھا یہی تو ہیں جنہوں نے پاکستانیوں کی مت ماری ہے لیکن غور سے سنا تو سالگرہ مبارک کی آواز تھی۔ رات میں ٹی وی آن کیا اور لوکل چینلز دیکھے، کئی چینلز گزرے مگر کہیں بھی ویلنٹائن انکل کا تذکرہ نہ ملا نہ کوئی اسٹیج نہ کوئی لائیو ٹرانسمشن یوں مایوس ہو کر ہم ٹی وی بند کرنے لگے تھے کہ ایک نیوز چینل کے بیک گراؤنڈ اسکرین بورڈ پر دوسری چیزوں کے ساتھ چھوٹے سے کیوپڈ انکل لٹکے ہوئے نظر آئے اور ہم نے چیخ مار کر کہا دیکھا ہم نہ کہتے تھے کہ یہ تو یورپ کی وبا ہے ورنہ ہمارا ویلنٹائن ڈے سے کیا لینا دینا۔

کچھ سالوں سے حالات بہتر ہو گئے ہیں اور اب پہلے جیسی رونق نہیں نظر آتی اور ویلنٹائن ڈے کا بخار قوم سے کسی حد تک اتر چکا ہے۔ اور ہماری سالانہ کانفرنس پھر 14 فروری سے شروع ہو رہی ہے اور اس بار میزبانی پشاور کی ہے۔ ہم لوگ قائداعظم کے نام پہ بنی ائر لائن فلائی جناح کی پرواز سے پشاور جا رہے ہیں۔ بغیر دوپٹہ کی ائر ہوسٹس نے اکوافینا کا پانی لا کر دیا، پاکستانی پانی مانگنے پر بڑے آرام سے انکار کر کے پانی واپس لے لیا اور کوئی معذرت بھی نہیں کی۔ اسی دوران ڈاکٹر فیصل نے سب کو چائے کی آفر دی جسے مجھ سمیت کچھ اور کولیگز نے قبول کیا۔ چائے کے ساتھ دودھ مانگنے پر ائر ہوسٹس نے نیسلے ایوری ڈے کا ساشے پیش کیا جس کے بغیر چائے پی کر پہلی بار احساس ہوا کہ سچ ہی کہتے ہیں چائے تو یہی ہوتی ہے اور دودھ تو اضافی ہوتا ہے۔ یوں ہماری پرواز پشاور کی طرف رواں دواں ہے اور کچھ دیر میں فلائی جناح کا جہاز سرحدی گاندھی کے نام سے مشہور، جنہوں نے پاکستان میں دفن ہونا بھی پسند نہ کیا، کے نام پر بنے باچا خان انٹرنیشنل ائر پورٹ پر اترنے والی ہے۔

امید ہے کہ یہاں کے حالات 2014 کے ملتان والے نہیں ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).