سترہ کلومیٹر سے جڑی یادیں


اسی کی دہائی تھی۔ ہم گاؤں کے پرائمری سکول میں پڑھتے تھے جب ایک دن گاؤں سے ملحقہ آبادی کی طرف سے آنے والے ہمارے کلاس فیلوز نے بتایا کہ شہر سے پتھروں سے لدے ٹرک آتے ہیں اور شہر جانے والے کچے راستے کے اطراف میں وقفے وقفے کے فاصلے پہ وہ پتھر اتار کر واپس چلے جاتے ہیں۔ یہ وہ وقت تھا جب تحصیل چوک چکوال سے ملہال مغلاں تک کچی پگڈنڈی تھی، کوئی باقاعدہ پکی سڑک نہ تھی۔ ذرائع آمد و رفت یوں تھے کہ چوہان سے ایک ویگن چلا کرتی تھی، جس کے ڈرائیور کا نام محمد سوار تھا، جو کبڈی کے معروف کھلاڑی کبریا کے والد محترم تھے اور چکوال میں کبریا ہوٹل بھی انہی کی ملکیت تھا۔

چوہان سے براستہ پادشہان بھیں سے ہوتی ہوئی یہ ویگن ہمارے گاؤں امیرپور منگن پہنچتی اور پھر وہاں سے چک ملوک پنوال اور آخری سٹاپ اس کا سرکاری بن چکوال ہوتا تھا۔ سواریاں اتر کر شہر اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہو جاتیں اور محمد سوار شام تک سب کی واپسی کا انتظار کرتے شام کو یہ اکلوتی ویگن اس کچی پگڈنڈی سے ہوتی ہوئی واپس اپنی منزل مقصود کو پہنچتی تھی۔ اس کچی سڑک سے ملحقہ سب گاؤں کے دکانداروں کی اشیائے خورد و نوش کی ترسیل کے لئے اونٹوں کا استعمال کیا جاتا تھا۔ دکاندار منڈی سے سامان لیتے اونٹوں پہ لادتے اور اپنے اپنے گاؤں کو روانہ ہو جاتے تھے۔

جب دوستوں کی بابت معلوم ہوا کہ اب چکوال سے ملہال مغلاں ہمارے گاؤں سے ہوتے ہوئے پکی سڑک بنے گی تو ہماری خوشی دیدنی تھی۔ چہ جا کہ اپنی ملکیت اک پرانی سائکل تک نہ تھی بلکہ ایک عدد گاڑی کا پرانا ٹائر کہیں سے ہاتھ لگ گیا تھا، وہی سکول کے بعد ہر جگہ اپنا ہمسفر ہوتا تھا اور یہی حال باقی دوستوں کا بھی تھا لیکن ان میں سے بھی چند صاحب ٹائر تھے۔

اس دن سب دوستوں نے سکول سے چھٹی کے بعد گھروں سے اپنے اپنے ٹائر نکالے اور ان کو دھکیلتے ہوئے گاؤں سے چکوال جانے والے کچے راستے پہ ہو لیے اور وہاں جا پہنچے جہاں پتھروں سے بھرے ٹرکوں کی آمدورفت جاری تھی۔ ہم نے دیکھا کہ کچے راستے کے اطراف میں پہاڑوں سے لائے گئے پتھر ڈھیروں کی صورت میں پڑے ہیں ہم پتھروں کو اتار کر واپس جانے والوں ٹرکوں کے ساتھ اپنے ٹائروں کی ریس لگاتے تھے اور جب تک ٹانگوں میں سکت ہوتی تھی ہم ٹرک کے ساتھ بھاگتے رہتے تھے۔

پھر ہم نے دیکھا کہ کچھ عرصے بعد پٹھان مزدور آ گئے جن کے ہاتھ میں پتھروں کو توڑنے والی ہتھوڑیاں ہوتی تھیں۔ وہ بڑے پتھروں کو دن بھر باریک ٹکڑوں میں توڑتے رہتے تھے۔ پھر بلیڈ والے ٹریکٹروں نے سڑک کا بیڈ بنانا شروع کر دیا رولر اور لیولر مشینیں اپنے اپنے کاموں میں جت گئیں باریک ٹکڑوں میں تقسیم پتھروں کو مرد و زن پہ مشتمل ایک ٹیم ٹوکریوں میں ڈالتی اور کچی سڑک پہ بچھاتی جاتی بھاری بھرکم رولر اس پہ دن بھر چلتے یوں گاؤں کی یہ کچی پگڈنڈی آہستہ آہستہ پکی سڑک کا روپ اختیار کرتی گئی۔ ہم سب دوست بلاناغہ سکول سے چھٹی کے بعد کام والی جگہ پر پہنچ جاتے اور یہی حال باقی لوگوں کا بھی تھا۔ ہم سب کے لیے پکی سڑک کے بنتے عمل کو دیکھنا ٹائیٹین میں بیٹھ کر زیر سمندر ٹائی ٹینک جہاز کی باقیات دیکھنے جتنا دلچسپ تھا۔

ملہال مغلاں سے چکوال پکی سڑک کا بننا تھا کہ جیسے اس علاقے نے نیا جنم لے لیا ہو ملہال مغلاں سے چکوال کے لیے براستہ بھبھڑ، کال کلیال، کھینگر امیرہورمنگن، چک ملوک اور پنوال ٹرانسپورٹ چل پڑی ادھر بھیں بادشاہان موہڑہ شریف اور ملحقہ گاؤں کو بھی نیا پکا راستہ میسر آ گیا جس سے شرح خواندگی میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا، کیونکہ سڑک سے پہلے ملحقہ گاؤں کے نوجوان میٹرک سے آگے اپنے نامساعد حالات کی وجہ سے تعلیم حاصل نہ کر پاتے تھے جس کی وجہ شہر تک رسائی ممکن نہ تھی۔ جب ہسولہ لنگاہ سے بھی دو بسیں اس سڑک پر چل پڑیں جو طالب علموں کو مفت گورنمنٹ کالج چکوال پہنچا دیا کرتی تھیں تو میٹرک کے بعد لڑکوں نے گورنمنٹ کالج میں داخلے لینے شروع کر دیے تھے۔

گورنمنٹ ہائی سکول بھیں سے میٹرک کرنے کے بعد ہم نے بھی گورنمنٹ کالج چکوال میں داخلہ لیا اور انہی بسوں کے مسافر ہو گئے۔ صبح آٹھ بجے چکوال جانے والی بس پہ ہم بھی دوستوں کے ساتھ بیٹھتے خوش گپیاں کرتے چکوال پہنچتے لالہ محمود کے گرم حمام پہ جا کر زلفیں سنوارتے، پنڈی روڈ کی طرف سے کالج کی دیوار پھلانگنے چھلانگیں لگاتے کالج پہنچ جاتے تھے۔ تب تک پروفیسر چوہدری ادریس برولا صاحب انگلش کا پہلا پیریڈ شروع کر چکے ہوتے تھے اور وہ بھی شاید ہماری بس کے اوقات سے آگاہ تھے، اس لیے کبھی دیر سے پہنچنے پہ ہماری سرزنش نہیں کرتے تھے۔ وہ ہر لحاظ سے زندگی کے خوبصورت ترین دن تھے۔ فرصتیں تھیں، دوست تھے، محبتیں تھیں، زندگی اپنی خوبصورت یادیں ذہن کے کینوس میں محفوظ کر رہی تھی۔

وقت پر لگا کر اڑا، سب دوست زندگی کی ڈگر پر اپنی اپنی راہ کے مسافر ہو گئے، سڑک کی رونقیں بحال رہیں۔ وہ راہیں جہاں سے ہم روز گزرا کرتے تھے، شہر سے دور ہوئے تو مہینوں بعد وہاں سے گزرنا نصیب ہوتا تھا لیکن ان راستوں کا رومانس اپنی تمام تر جزئیات سمیت ہمارے ذہنوں میں ہمارے ساتھ محو سفر رہا کرتا تھا، ہر موڑ پہ جیسے کوئی یاد ہماری منتظر رہتی تھی۔

وقت گزرنے کے ساتھ سڑک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگی ہسولہ لنگاہ سے آنے والی بسوں نے بھی روٹ تبدیل کر لیا۔ ایاز امیر جب ایم این اے بنے تو انہوں نے تحصیل چوک سے امیرپورمنگن تک سڑک کو ازسرنو تعمیر کرا دیا۔ اس منصوبے میں انتہا کی کرپشن اور ناقص میٹریل کے استعمال کی وجہ سے سڑک اپنی تکمیل کے پہلے سال ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگی۔ میجر ر طاہر اقبال نے نون لیگ کی حکومت میں ملہال مغلاں سے امیرپورمنگن تک کارپٹ روڈ بنوا کر ملحقہ آبادیوں کی دعائیں سمیٹیں لیکن امیرہورمنگن سے تحصیل چوک تک سترہ کلومیٹر سڑک کھنڈر ہی رہی۔

اسی حلقہ انتخاب سے جب 2018 میں ذوالفقار علی خان دلہہ ایم این اے منتخب ہوئے تو یہ سڑک ان کی اولین ترجیحات میں شامل تھی انہوں نے پچیس کروڑ روپے کی لاگت سے اس سڑک کو کارپٹ روڈ بنانے کے لیے چک ملوک کے مقام پر اس منصوبے کا افتتاح کیا، باقاعدہ ایک سیاسی جلسے کا انعقاد ہوا اور اگلے روز ہی سڑک پہ کام کا آغاز کر دیا گیا۔ ایک بار پھر اہالیان علاقہ کے چہرے خوشی سے دمک اٹھے کیونکہ اس وقت سڑک کا یہ حال ہو چکا تھا کہ گاڑی تو کجا موٹر سائیکل پہ اس راستے سے شہر جانا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ پی ٹی آئی حکومت کے خلاف اپوزیشن اتحاد کی عدم اعتماد تحریک کامیاب ہوئی پی ڈی ایم کی حکومت معرض وجود میں آئی تو ملک بھر میں امیرہورمنگن چکوال روڈ سمیت پی ٹی آئی کے جاری ترقیاتی منصوبے تعطل کا شکار ہو گئے۔

پی ڈی ایم کی حکومت کے بعد نگران حکومت بنی تو بھیں گاؤں کے ایک صاحب جو اس وقت کی نگران حکومت کے وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کے ذاتی ڈرائیور تھے ان کی درخواست پر دوبارہ فنڈنگ ہوئی اور روڈ پر دوبارہ کام کا آغاز ہوا۔ سترہ کلومیٹر روڈ کی لیولنگ ہوئی چک ملوک گاؤں میں کنکریٹ اور سیوریج کا کام مکمل ہوا۔ نگران حکومت کا جانا تھا کہ سڑک کا کام ادھورا چھوڑ کر ٹھیکیدار مشینری سمیت راتوں رات غائب ہو گیا۔ اس دوران مقامی ایم این اے اور ایم پی اے صاحبان کی سیاسی بیان بازیاں بھی جاری رہیں کبھی احسن اقبال کے ساتھ ملاقات کے فوٹو سیشن میں کام کے دوبارہ آغاز کا اعلان ہوتا تو کبھی موسمی ٹمپریچر کو کام میں رکاوٹ کا موجب بتایا جاتا لیکن اس پراجیکٹ پہ تادم تحریر کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔

خوبصورت ماضی کی شاندار عکاسی کرتی یہ سڑک جس کی آج یہ حالت ہے کہ اس پہ پیدل چلنا بھی دشوار ہو گیا ہے۔ لوگ کئی کلومیٹر کا اضافی سفر اور متبادل راستے استعمال کر کے شہر پہنچتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں ایسی سیاسی بے حسی کم ہی دیکھنے کو ملی ہے کہ گزشتہ دس سالوں سے بھی زائد مدت میں دو ایم این اے اور چار ایم پی ایز کے حامل ضلع میں ایک چھوٹا سا منصوبہ پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ پا رہا۔

خدارا چودہ گاؤں اور ان کی ملحقہ آبادیوں پہ رحم کیجیئے۔ ہمیں سترہ کلومیٹر پہ پھیلی وہ یادیں لوٹا دیجئیے کہ اب سوار خان کی وہ ویگن رہی ہے نہ ہی وہ اونٹ والے آج کے اس جدید آمدورفت والے دور میں ہمیں دوبارہ اونٹوں کے زمانے میں نہ دھکیلیں۔ اللہ نے اس بار اگر اقتدار کی لاٹری نکال کر موقع دے دیا ہے تو آئندہ کے لیے اپنا فارم 45 مضبوط بنا لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments