سیاست، مذہب اور انسانی قربانیوں کی جدید شکل
ایران میں مذہب اور سیاست کا امتزاج ایک ایسا منظر پیش کرتا ہے جہاں حکومتی نظام مذہبی عقیدے کی سخت تشریحات کے تابع ہے۔ انقلاب کے بعد ولایت فقیہ کا تصور رائج ہوا، جس نے مذہب کو ریاستی اختیار کے تابع کر دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ریاست نے مذہب کو عوام کے ایمان کا معاملہ نہیں رہنے دیا بلکہ اسے ایک سیاسی آلہ بنا کر نظریاتی یگانگت پیدا کرنے کی کوشش کی۔ جو بھی اس ہم آہنگی میں رکاوٹ بنا، وہ یا تو باغی قرار پایا، یا مرتد۔ یوں، اختلافی آوازیں دبتی گئیں، اور ریاست نے اپنی پاکیزگی برقرار رکھنے کے لیے مسلسل نئی قربانیاں دینا شروع کر دیں۔ یہ وہی عمل ہے جو قدیم معاشروں میں انسانی قربانیوں کے ذریعے کیا جاتا تھا۔ اجتماعی، مفاد کے لیے مسلسل نئے ناپسندیدہ افراد کو قربان کرنا۔
سعودی عرب، جو سخت مذہبی قوانین کے لیے جانا جاتا ہے، ایک مختلف ماڈل پیش کرتا ہے۔ یہاں مذہب عوام کے بجائے براہ راست ریاست کے کنٹرول میں ہے، اور حکومت نے مذہبی تشریحات کو اپنے ہاتھ میں لے کر عوام کو ان معاملات میں مداخلت سے روک دیا ہے۔ اس سخت کنٹرول کا نتیجہ یہ نکلا کہ مذہب عوامی سطح پر سیاست کا ہتھیار نہ بن سکا اور مذہبی شدت پسندی کو ایک خاص حد کے اندر رکھا گیا۔ اس ماڈل میں بھی ریاست مذہب کو کنٹرول کر رہی ہے، مگر یہاں مذہب کو سیاسی مخالفت کچلنے یا عوامی سطح پر گروہی طاقت بڑھانے کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہاں مذہبی آزادی ہے، بلکہ یہ ہے کہ مذہب کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر عوام کے ہاتھوں میں نہیں دیا گیا، کیونکہ ریاست خود اس کی واحد متولی بن گئی ہے۔
بھارت میں ہندوتوا کے بڑھتے ہوئے سیاسی اثرات اس بات کی مثال ہیں کہ جب ریاست اکثریتی مذہب کو سیاسی قوت کے طور پر استعمال کرتی ہے تو اس کے نتائج کس قدر تباہ کن ہوتے ہیں۔ بی جے پی اور آر ایس ایس نے ہندو قوم پرستی کو قومی تشخص کا لازمی جزو بنا دیا ہے، اور جو بھی اس ”ہندو“ تشخص میں مکمل طور پر فٹ نہیں بیٹھتا، وہ رفتہ رفتہ غیر ملکی، غدار یا کم تر سمجھا جانے لگتا ہے۔ یہاں بھی مذہب کو عوام کے جذباتی استحصال کے لیے ایک آلے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، اور اقلیتوں کو ایک ایسے ماحول میں دھکیلا جا رہا ہے جہاں وہ یا تو اکثریتی عقیدے کی پیروی کریں، یا پھر خود کو غیر محفوظ محسوس کریں۔ جب مذہب کو سیاست میں مداخلت کا موقع دیا جاتا ہے، تو وہ اپنی اصل روح کھو بیٹھتا ہے اور ایک سیاسی ہتھیار میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
میانمار میں مذہب کو اکثریتی بدھ آبادی کے سیاسی تشخص کا مرکز بنا کر روہنگیا مسلمانوں کے خلاف بدترین مظالم کیے گئے۔ یہاں مذہب صرف ایک عقیدہ نہیں بلکہ ریاستی طاقت کے حصول کا ذریعہ بن گیا۔ حکومت نے بدھ مت کی شناخت کو قومی سطح پر اس قدر شدت سے جوڑ دیا کہ جو لوگ اس مذہبی تشخص میں فٹ نہیں آتے تھے، انہیں ریاستی پالیسی کے ذریعے خارج کر دیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ لاکھوں روہنگیا مسلمانوں کو یا تو قتل کر دیا گیا یا بے دخل کر دیا گیا، اور ریاست نے ”پاکیزگی“ کے نام پر ایک پورے انسانی گروہ کی قربانی دے دی۔ یہ وہی سلسلہ ہے جو دنیا میں بار بار دہرایا جاتا ہے۔ ریاست کو ”خالص“ رکھنے کے لیے ایک نئے گروہ کو قربانی کا بکرا بنایا جاتا ہے۔
اس سب کا حل مذہب کو دبانا نہیں، بلکہ اس کی سیاست کاری کو روکنا ہے۔ اصل مسئلہ مذہب نہیں، بلکہ اس کا سیاست میں استعمال ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جہاں جہاں مذہب کو سیاست میں داخل کیا گیا، وہاں اجتماعی تشخص کی ”پاکیزگی“ کے نام پر اقلیتوں کو قربان کیا گیا۔ ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ مذہب اور ریاست کی علیحدگی کا مطلب مذہب کی مخالفت نہیں، بلکہ اسے سیاست کے کھیل سے آزاد کرنا ہے۔ ریاست کا کام شہریوں کے حقوق کی حفاظت کرنا ہے، نہ کہ کسی ایک مذہبی اکثریت کو دوسروں پر فوقیت دینا۔ اگر ہم ایک پرامن سماج چاہتے ہیں، تو ہمیں مذہب کو ذاتی عقیدے تک محدود کرنا ہو گا اور سیاست کو قومی مفاد کی بنیاد پر استوار کرنا ہو گا، نہ کہ مذہبی شناخت کی بنیاد پر۔ یہی سیکولر طرزِ حکمرانی کا اصل مقصد ہے۔ رائے کے اختلاف کے باوجود امن، اور مختلف عقیدے کے باوجود برابری۔
- سیاست، مذہب اور انسانی قربانیوں کی جدید شکل - 17/02/2025
- سویلینز کا فوجی ٹرائل - 10/02/2025
- غیر عدالتی تجاوزات - 25/01/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).