یہی فرق ہے مودی کے دیس اور نوازشریف کے دیس میں


ٹھہرے پانی میں پتھر پھینکنے کا اپنا ہی لطف ہے۔ آپ پتھر پھینکیں اور پھر دریا کے کنارے بیٹھ کے لطف لیتے جائیں۔ ہم نے لطف لینے لیے ٹھہرے پانی میں کنکر پھینکا جس کا لطف لیے جا رہا ہوں۔ مختلف سمتوں سے پتھر آ رہے ہیں سوالات در سوالات کا سلسلہ جاری ہے ایسا لگتا ہے جیسے کوئی بڑی گستاخی کر بیٹھا ہوں۔

پہلے بھی کہا کہ امام الہند ابوالکلام آزاد کی جوتی میرے سر کا تاج ہے گاندھی جی کے فلسفہ عدم تشدد پہ ایمان ہے آزادی و خود مختاری پہ یقین رکھتا ہوں۔ یہ بزرگ لوگ تھے ان کا احترام اپنی جگہ مگر آزاد کے دیس اور جناح کے دیس کا موازنہ کرنے میں حرج ہی کیا ہے؟

بھارتی دوست مجھے مثالیں دے رہیں ہیں کہ آپ پاکستان بھارت کا موازنہ کیسے کر رہے ہیں؟ کیا پاکستان میں قتل نہیں ہوتے؟ کیا پاکستان میں نفرتیں نہیں ہیں؟ کیا یہاں لوگوں کو مذہب کی بنیاد پہ نہیں مارا جاتا؟ کیا یہاں کچھ لوگوں کا جینا حرام نہیں کیا گیا؟ کیا یہاں ڈکٹیٹر شپ نہیں آتی رہی؟ وغیرہ وغیرہ

چلیں دوستو جواب پڑھنے سے پہلے ایک وضاحت پڑھ لیں

میں پہلے بھی لکھ چکا کہ مجھے جزئیات سے یا واقعات سے دلچسپی نہیں ہے۔ واقعات و حادثات ہر ملک میں ہوتے ہیں میں بھارتی مظالم کے کئی واقعات لکھ سکتا ہوں میں بابری مسجد سے لے کر گجرات کے قتل عام تک لکھ سکتا ہوں۔ میں کشمیری مظالم پہ شائع رپورٹیں لکھ سکتا ہوں میں سکھوں کا قتل عام لکھ سکتا ہوں میں گاندھی جی اور اندرا گاندھی کے قتل کی مثالیں لکھ سکتا ہوں میں حال ہی میں اٹھارہ سو سے زائد عیسائیوں کو ہندو بنانے کا بھی لکھ سکتا ہوں مگر نہیں لکھتا کیوں؟ اس لیے کہ واقعات و حادثات ہر ملک میں ہوتے ہیں

میرا نقطہ نظر ذرا مختلف ہے

چلیں آسانی کے لیے ایک بات میں مانتا ہوں ایک آپ مان لیجیے

مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ میرے ماننے سے کچھ نہیں ہو گا آپ کے ماننے سے آپ پہ بھارتی سرزمین تنگ ہو جائے گی چلیں آپ دل میں ہی مان لینا

میرا ملک اسلامی نعرے کی بنیاد پہ معرض وجود میں آیا۔ پاکستان بن جانے کے بعد سبھی کو پاکستانی ہونا چاہیے تھا۔ یہاں سبھی مسالک و مذاہب کے لوگوں کو آزادی ہونی چاہیے تھی مگر انہیں یہ آزادی حاصل نہ ہوئی۔ یہاں مذہب کی بنیاد پہ نفرتوں کی فصیلیں کھڑی کی گئیں یہاں قومیت و لسانیت کے نعروں پہ جماعتیں کھڑی کی گئیں۔ پچھلے سالوں میں سب سے زیادہ خون مذہب کی بنیاد پہ بہایا گیا۔ کراچی میں لسانیت کی بنیاد پہ ہر روز کشت و خون ہوتا تھا مگر اب سبھی لوگ سمجھ گئے ہیں۔ اب سبھی ملک کی بات کرتے ہیں اب وہ آوازیں کمزور ہو گئیں ہیں جو جبر کا سہارا لیتی تھیں۔ اب پاکستان کا وزیراعظم کہتا ہے کہ جنت جہنم کے فیصلے کرنا انسانوں کا حق نہیں۔ اب میرے ملک میں سلمان تاثیر کے قاتل کو بھی لٹکا دیا جاتا ہے اب ہندو اور عیسائی مذہبی جماعتوں کا رخ کر رہے ہیں اب میڈیا سیکھ چکا ہے مذہبی و سیاسی لوگ سیکھ چکے ہیں فوج اپنا کام کر رہی ہے عدالتیں مارشل لاء کا راستہ روک چکی ہیں طویل جدوجہد اور مار کھانے کے بعد یہ سارے سبق یاد ہوئے۔

اب اس ملک کی مذہبی پارٹی کا سربراہ کہتا ہے کہ جنگیں نہیں ہونی چاہئیں۔ پڑوسیوں کے ساتھ بھی دوستی ہونی چاہیے۔ اور یوں بھی کہتا ہے کہ جنگ امریکہ کی ضرورت ہے ہر لڑنے والا اسلحہ رکھ دے۔ جی ہاں یہ ایک مذہبی جماعت کے سربراہ کے خیالات ہیں۔ میرے دیس کی مذہبی جماعت کا سربراہ ترقی پسند و لبرل ہو چکا ہے اس کے خیالات ڈیڈھ اینٹ کی مسجد کے امام یا مندروں کے شدت پسند یوگی جیسے نہیں رہے۔

اگر آپ برا نہ منائیں تو اب مان لیں ہم جس دلدل سے نکلے ہیں آپ اس دلدل کی طرف جا رہے ہیں۔ آپ کے ملک میں مذہب کی بنیاد پہ نفرتیں شروع ہو چکی ہیں۔ اب بھارت ہندتوا کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اب جو واقعات ہو رہے ہیں یہ حادثے نہیں بلکہ سوچ سمجھ کے ہو رہے ہیں۔ اگر ہندو طالبان کا سربراہ مودی وزیراعظم بنتا ہے تو پیچھے گجرات قتل اور بابری مسجد کے علاوہ کچھ نہیں۔ اگر یوگی وزیراعلی بنتا ہے تو پیچھے نفرت کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اگر بھارت میں کانگریس پارٹی سماج وادی پارٹی ہار رہی ہے تو اس کی وجہ کارکردگی نہیں بلکہ نظریہ ہے۔ اب گاندھی جی کا فلسفہ ہار گیا ہے۔ یہ ابوالکلام آزاد کی ہی شکست نہیں بلکہ مسلک عدم تشدد کی شکست ہے۔

چلتے چلتے یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ میں آج بھی ابوالکلام آزاد سے عقیدت رکھ سکتا ہوں۔ ان کی جوتیوں کو سر کا تاج کہہ سکتا ہوں۔ آپ حضرت قائد اعظم کی تعریف بھی نہیں کر سکتے۔ میں اپنی خامیاں لکھ سکتا ہوں مگر آپ مجبوراً اپنی برائیوں کا بھی دفاع کریں گے۔ بس یہی فرق ہے جناح کے دیس اور آزاد کے دیس میں۔

اگر آپ اس جملے سے خفا ہوتے ہیں تو میں یوں لکھ دیتا ہوں یہی فرق ہے مودی کے دیس اور نوازشریف کے دیس میں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).