کلائمٹ چینج، کوئی ہمیں بھی سمجھائے


ہم پاکستانیوں کو ہر بات دیر سے پتہ چلتی ہے۔ کلائمٹ چینج پر دنیا میں ایک عرصہ سے کام ہو رہا ہے۔ ہماری آنکھ ہمیشہ کی طرح دیر سے کھلی ہے۔ ایک دو عشرے پہلے اوزون کی پرت میں سوراخ کا شور و غوغا مچا تھا۔ پھر پاکستانیوں کی حد تک بات آئی گئی ہو گئی۔ تو آئیے کلائمٹ چینج کا مطلب سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کا تعلق موسم سے ہے۔ بچپن سے ہم سال کے مختلف حصوں میں مختلف موسم آتے جاتے دیکھتے رہے ہیں۔ موسموں کے آنے جانے کے انداز میں اگر طویل المیعاد تبدیلی آ جائے جو کہ آ چکی ہے تو اسے کلائمٹ چینج کہتے ہیں۔

ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ اس کی ذمہ داری ہماری صنعتی و ترقیاتی سرگرمیوں پر عائد ہوتی ہے۔ جن کی خاطر گزشتہ دو سو سال میں ہم نے جنگلات کا صفایا کیا اور جی بھر کر زمین سے کوئلہ، گیس اور تیل نکالا اور استعمال کیا۔ لیکن جب آپ زمین سے ایندھن نکال کر استعمال کرتے ہیں تو اس کے نتیجے میں گرین ہاؤس گیسز میں اضافہ ہوتا ہے اور زمین گرم ہونے لگتی ہے۔ اب بندہ پوچھے کہ یہ گرین ہاؤس گیسز کیا ہوتی ہیں؟ ان سے مراد آبی بخارات، کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین اور نائٹرس آکسائیڈ اور دیگر صنعتی مقاصد مثال کے طور پر فریج اور اے سی میں استعمال ہونے والی گیسز ہیں۔ جو زمین کے گرد کمبل کی طرح لپٹ جاتی ہیں اور حرارت کو باہر نہیں جانے دیتیں چنانچہ زمین کا درجہ حرارت بڑھنے لگتا ہے۔ اسے گلوبل وارمنگ کہتے ہیں۔ گرین ہاؤس گیسز سورج کی حرارت کو زمین تک پہنچنے سے نہیں روکتیں لیکن پھر اس حرارت کو اپنے اندر جذب کر کے واپس نہیں جانے دیتیں۔

عام طور پر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ کلائمٹ چینج کا عورتوں پر کیا اثر پڑتا ہے۔ ڈاکٹر ویرا تریپودی اور دیگر ریسرچرز کا کہنا ہے کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں میں سب سے زیادہ جن سوشل گروپس کو کلائمٹ چینج سے خطرات لاحق ہیں، ان میں غریب عورتیں بھی شامل ہیں۔ ظاہر ہے غربت بجائے خود ایک مسئلہ ہے۔ غربت کے ساتھ پدرسری معاشرے میں عورتوں کے دوسرے مسائل بھی ہوتے ہیں۔
اچھا تو یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کلائمٹ چینج کے نتیجے میں ہوتا کیا ہے؟ اس کے نتیجے میں قحط پڑتے ہیں، خشک سالی آتی ہے، سیلاب اور سمندری طوفان آتے ہیں۔ عورتوں کے لئے غربت اور اس کے ساتھ ساتھ سماجی، اقتصادی اور سیاسی رکاوٹوں کی وجہ سے کلائمٹ چینج کے منفی اثرات سے نمٹنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن ہماری حکومتیں عام طور پر سماجی نا برابری کو نظر انداز کر دیتی ہیں۔

بات یہ ہے کہ اب تو کلائمٹ چینج کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ اب تو سمندری طوفان یا سائیکلون بھی آئیں گے۔ لمبے عرصے تک خشک سالی بھی رہے گی۔ شدید بارشیں بھی ہوں گی اور HEAT WAVES بھی آئیں گی۔ گرد و غبار کے طوفان بھی اٹھیں گے۔ سمندروں کی سطح بلند ہو گی۔ جنگلات ختم ہوں گے اور پانی کی آلودگی اور ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ ہو گا۔ ماحولیاتی آفات کے سنگین نتائج میں سے ایک بیماریوں کا پھیلنا ہے۔ کیونکہ آلودگی کی وجہ سے نت نئے جراثیم، بکٹیریا، وائرس، اور بیماریاں پھیلانے والے کیڑے پیدا ہوتے ہیں۔

قدرتی آفات کی وجہ سے فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں۔ لوگوں کو پیٹ بھر کر کھانا نہیں ملتا۔ وہ گھر بار چھوڑ کر اپنے مویشیوں کے ساتھ نقل مکانی پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یعنی کلائمٹ ریفیوجی بن جاتے ہیں۔ ان میں زیادہ تعداد عورتوں اور بچوں کی ہوتی ہے۔ کلائمٹ چینج کا آپ کی زندگی پر کیا اثر پڑتا ہے، اس کا انحصار آپ کے سوشل اسٹیٹس، صنف، غربت، اور اقتصادی وسائل تک رسائی اور کنٹرول پر ہے۔ اب ظاہر ہے، پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں میں عورتوں کے پاس کم اقتصادی، قانونی اور سیاسی طاقت ہوتی ہے۔ اس لئے ماحولیاتی آفات کے منفی اثرات سے نمٹنا ان کے لئے زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ دیہی علاقوں میں عورتیں زیادہ پریشانیوں کا سامنا کرتی ہیں۔ کیونکہ ان کی روزمرہ کی ضروریات مقامی وسائل سے پوری ہوتی ہیں جنہیں قدرتی آفات تباہ کر دیتی ہیں۔

اب آتے ہیں مسائل کے حل کی طرف۔ سب سے پہلے تو قدرتی آفات کی صورت میں عورتوں کے لیڈرشپ رول یعنی قائدانہ کردار کو مضبوط بنایا جائے۔ صنفی تشدد کی روک تھام کی جائے۔ قدرتی آفات کے لئے پہلے سے تیاری کی جائے اور EARLY WARNING SYSTEM کو فروغ دیا جائے۔

قومی اور بین الاقوامی سطح پر اس مسئلے کا سب سے اہم حل فوسل فیول یعنی زمین سے نکالے جانے والے ایندھن کے متبادلات ڈھونڈنا ہے۔ اس کے لئے ہمارے پاس شمسی توانائی موجود ہے۔ سولر پینل لگا کر بجلی پیدا کی جائے۔ ہوا کی طاقت، ونڈ پاور کو استعمال کیا جائے اور پون چکی سے بجلی پیدا کی جائے۔ آبی طاقت یعنی پانی سے بجلی پیدا کی جائے۔ جیو تھرمل انرجی یعنی زمین کی اندرونی حرارت سے بجلی پیدا کی جائے۔ بائیو انرجی سے بجلی پیدا کی جائے۔ دیگر متبادلات میں ایٹمی طاقت، ہائیڈروجن گیس سے بجلی پیدا کرنا، بائیو فیول یعنی پودوں اور الجی سے بجلی پیدا کرنا، تیزی سے اگنے والی گھاس کو بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اب دیکھئے ہم اور ہماری حکومت کیا کرتے ہیں۔

(ہماری مہناز آپا نہایت ذہین اور بہادر تو ہیں لیکن سادہ لوح بھی ہیں۔ ارے بھائی، موسمیاتی تبدیلی سے عورتوں پر کیا اضافی مصائب آئیں گے، اس کی فکر انہیں  ہو گی، جو عورتوں کو انسان سمجھتے ہوں۔ میں ابھی تک اصحاب زہد و اتقا کے ایک سنجیدہ بیان کے انتظار میں ہوں جو افغان بچیوں کو بالجبر تعلیم سے محروم رکھنے پر دیا گیا ہو۔ موسمیاتی تبدیلی پر کئی بیان آ چکے۔ وجہ یہ کہ بھک منگوں کو امید ہے کہ شاید اس قضیے میں انہیں کوئی چند ٹکڑے ڈال دے گا۔ و ۔ مسعود)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments