سقراط کی استاد ایسپاسیا


”ایسماشیا (Aeschines ’Aspasia)“ یا ”ایسپاسیا“ یا ”ہیس پیشیا،“ ایک خاتون فلسفی تھی جسے بعض ذرائع میں سقراط کی استاد یا کم از کم ایک فکری شخصیت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

ایسپاسیا ایک ذہین اور فصیح خاتون تھی جو ایتھنز میں پریکلس (Pericles) کی ساتھی تھی۔ وہ فلسفے، سیاست، اور بیان بازی میں مہارت رکھتی تھی اور کہا جاتا ہے کہ اس نے سقراط سمیت کئی دیگر مفکرین کو متاثر کیا لیکن وہ ایک ہیٹائرا بھی تھی۔ ”ہیٹائرا“ قدیم یونان میں ایسی خواتین کو کہا جاتا تھا جو عام عورتوں کے مقابلے میں زیادہ آزادی رکھتی تھیں، خاص طور پر فکری اور سماجی معاملات میں۔ وہ صرف جسم فروشی نہیں کرتیں تھیں بلکہ وہ اعلیٰ درجے کی تعلیم یافتہ، ذہین اور با اثر خواتین بھی ہوتی تھیں جو فلسفیوں، سیاست دانوں اور دانشوروں کے ساتھ فکری گفتگو کرتی تھیں۔ وہ ایک اعلیٰ درجے کی فصیح و بلیغ خاتون تھی اور کہا جاتا ہے کہ سقراط اور دیگر فلسفی ان سے متاثر تھے۔ ہیٹائرا کو عام خواتین کے مقابلے میں زیادہ فکری آزادی حاصل تھی، لیکن ان کا کردار تاریخ میں اکثر نظر انداز کر دیا گیا، خاص طور پر مسیحیت کے آنے کے بعد ۔ یہ ایک دلچسپ پہلو ہے کہ قدیم یونانی معاشرے میں جہاں عام عورتوں کو بہت کم حقوق حاصل تھے، وہیں کچھ مخصوص خواتین (ہیٹائرا) علمی اور فلسفیانہ مکالمے میں نمایاں تھیں۔

یہ دعویٰ مکمل طور پر ثابت نہیں ہو سکا کہ آیا وہ واقعی سقراط کی استاد تھی، کیونکہ سقراط کی زندگی کے بارے میں زیادہ تر معلومات افلاطون، زینوفون اور دیگر شاگردوں کی تحریروں سے آتی ہیں، اور ان میں کہیں بھی یہ ذکر نہیں کہ سقراط کی کوئی خاتون استاد تھی۔ البتہ، بعض ماخذوں کے مطابق سقراط نے ایسپاسیا اور دیگر خواتین دانشوروں سے فکری گفتگو کی اور ان کے خیالات سے استفادہ کیا۔ ایسپاسیا کے بارے میں جو کچھ بھی کہا جاتا ہے، وہ زیادہ تر غیر مستند ذرائع پر مبنی ہے۔ تاہم، یہ ممکن ہے کہ سقراط نے اپنے عہد کی دانشور خواتین سے سیکھا ہو، چاہے وہ رسمی طور پر اس کی ”استاد“ نہ بھی رہی ہوں۔ سقراط کا مکالماتی انداز اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ کسی سے بھی علم حاصل کرنے کو تیار تھا، چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔

ایسپاسیا کے بارے میں زیادہ تر معلومات ثانوی ذرائع سے آتی ہیں، کیونکہ اس کے اصل خیالات یا تحریریں موجود نہیں ہیں۔ تاہم، کچھ مضبوط دلائل موجود ہیں :

افلاطون کے ”مینیک سینس“ (Menexenus) نامی مکالمے میں، سقراط یہ دعویٰ کرتا ہے کہ ایسپاسیا نے اسے خطابت (Rhetoric) سکھائی تھی۔ اگرچہ یہ طنزیہ انداز میں پیش کیا گیا ہے، لیکن یہ اس کے ذہانت اور خطیبانہ مہارت کو ظاہر کرتا ہے۔ سقراط کا مکالماتی انداز کسی حد تک ایسپاسیا جیسے ذہین مکالماتی ساتھیوں کے ساتھ مباحثوں کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ ایسپاسیا صرف ایک فلسفیانہ مکالمہ نگار نہیں تھی بلکہ ایتھنز کے سب سے طاقتور شخص، پریکلس (Pericles) کی ساتھی تھی۔ کچھ مؤرخین کا ماننا ہے کہ پریکلس کی مشہور جنازے کی تقریر (Funeral Oration) ایسپاسیا کے الفاظ سے متاثر ہو سکتی ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو، اس کا اثر ایتھنز کی جمہوری فکر اور جنگی نظریات پر بھی پڑا ہو گا۔ اگر ایسپاسیا جیسی خواتین فلسفیوں اور خطیبوں کو تسلیم کیا جائے تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایتھنز میں خواتین کی تعلیم اور مکالمے میں کچھ گنجائش موجود تھی۔ بعد میں، افلاطون اپنی تصنیفات میں خواتین کو فلسفی حکمرانوں کے طور پر پیش کرتا ہے (جمہوریہ میں ) ، تو کیا یہ ایسپاسیا جیسے تاریخی کرداروں سے متاثر ہو سکتا ہے؟ ارسطو نے ایسپاسیا کو سنجیدگی سے نہیں لیا، کیونکہ وہ خواتین کی فکری صلاحیتوں کو کم تر سمجھتا تھا۔ ایسپاسیا کے ناقدین (جیسے کومک ڈرامہ نگار آریسٹو فینس اور دیگر) نے اسے ایک ”ہیٹائرا“ کے طور پر پیش کیا، تاکہ اس کی دانشوری کو کم تر کیا جا سکے۔

اگرچہ ایسپاسیا نے کوئی کتاب نہیں لکھی، لیکن وہ قدیم یونانی دانشوروں کے درمیان مکالمے میں شامل تھی۔ اس نے خطابت، سیاست، اور شاید سقراط کے مکالماتی انداز پر اثر ڈالا۔ اس کا وجود خواتین کے فلسفیانہ کردار کو نمایاں کرتا ہے، جو عام طور پر نظر انداز کیا گیا۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ کیا ایسپاسیا کا اثر سقراط یا افلاطون کے برابر ہے، کیونکہ اس کا کوئی تحریری کام موجود نہیں، لیکن کہنا کہ وہ غیر اہم تھی، یہ بھی زیادتی ہوگی۔ وہ کم از کم سقراط، پریکلس اور افلاطون کے علمی و فکری حلقے میں ایک جانی پہچانی شخصیت تھی، جو خود ایک اہم حقیقت ہے۔

مسیحیت (خصوصاً جب یہ رومی سلطنت کے ساتھ جُڑ گئی) اور بعد میں کلیسا کی بالادستی نے بہت سی خواتین فلسفیوں، سائنس دانوں، اور دانشوروں کو تاریخ سے باہر کر دیا یا ان کے کام کو کم اہمیت دی۔ قبل از مسیح یونانی اور رومی ادوار میں، خواتین کو مکمل مساوات تو حاصل نہیں تھی، لیکن کچھ استثنائی طور پر فلسفہ، سائنس اور فنون میں نمایاں کردار ادا کر رہی تھیں۔ ایسپاسیا اور دیوتیما جیسی خواتین کا اثر سقراط، افلاطون اور ارسطو جیسے مفکرین پر بھی رہا۔ جب مسیحیت ایک مذہبی تحریک سے بڑھ کر ایک ریاستی نظریہ بنی، تو کلیسا نے عورتوں کو دبانے اور ان کے علمی کردار کو محدود کرنے میں بڑا کردار ادا کیا۔ مثال کے طور پر : ہائپیشیا کا قتل ( 415 عیسوی) ، جو ایک مشہور فلسفی اور ریاضی دان تھیں، جو افلاطونی فکر کی پیروکار تھیں۔ چرچ کے انتہا پسندوں نے اسے ”جادوگرنی“ قرار دے کر وحشیانہ طریقے سے قتل کر دیا۔ اس کے قتل کے بعد خواتین کی علمی سرگرمیوں کو مزید محدود کر دیا گیا۔ قرونِ وسطیٰ میں، کلیسا نے ”عورت کو گناہ کی جڑ“ قرار دیا (یہ سوچ حوا اور آدم کی کہانی سے جڑی ہوئی تھی) ۔ خواتین کو کلیسا میں قیادت کے عہدوں سے محروم رکھا جاتا تھا اور فلسفہ اور سائنس کی تعلیم مردوں کے لیے مخصوص ہو گئی۔ قرون وسطیٰ کے دوران، کلیسا نے ہزاروں خواتین کو ”جادوگرنی“ کہہ کر زندہ جلایا، جن میں کئی تعلیم یافتہ اور دانشور عورتیں تھیں۔ ”Malleus Maleficarum“ ( 1487 ) جیسی کلیسا کی دستاویزات نے خواتین کے خلاف نفرت کو مزید بڑھایا۔

کلیسا نے بہت کوشش کی کہ خواتین دانشوروں کو تاریخ سے مٹا دیا جائے، لیکن کچھ نام پھر بھی بچ گئے، جیسے : ہیلڈیگارڈ آف بینگن (Hildegard of Bingen) ۔ ایک فلسفی اور مصنفہ، لیکن چرچ کے اندر رہ کر کام کرتی رہی۔ دوسرا نام کرسٹین ڈی پیزان (Christine de Pizan) کا ہے جس نے عورتوں کی تعلیم پر لکھا، لیکن کلیسا کی مخالفت سے بچنے کے لیے محتاط رہی۔ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ مسیحیت کے ریاستی نظریہ بننے کے بعد عورتوں کو فلسفے، سائنس اور دیگر علمی شعبوں سے بڑی حد تک نکال دیا گیا۔ یہ صرف کلیسا تک محدود نہیں تھا بلکہ مسلمان، ہندو، اور دیگر تہذیبوں میں بھی پدرسری نظام نے خواتین کے علمی کردار کو محدود کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments