جس نے بھی ڈالی، بری نظر ڈالی


ملازمت پیشہ خواتین کے مسائل پر لکھتے ہوئے عمر گزر گئی، قوانین بھی بن گئے لیکن لگتا یہی ہے کہ پاکستانی معاشرے میں ابھی تک ملازمت پیشہ خاتون کے تصور کو قبول نہیں کیا گیا حالانکہ اسی ملک میں ایک خاتون دو مرتبہ وزیر اعظم بنی اور آج کل پنجاب کی وزیر اعلیٰ بھی ایک خاتون ہے۔ لیکن ملازمت پیشہ خواتین کو آج بھی مختلف طرح کی ہراسمنٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس میں جنسی ہراسانی، امتیازی رویہ، اور دیگر طرح کی زبانی، جسمانی یا نفسیاتی ہراسمنٹ شامل ہے۔ جو حالات کار کو عورت کے لئے مخاصمانہ اور معاندانہ بنا دیتے ہیں۔ ہراسمنٹ کا اظہار مختلف طرح کے غیر اخلاقی اور ناگوار رویوں کی شکل میں ہوتا ہے۔ جنسی ہراسانی کے حوالے سے ایک مشہور لڑائی ڈاکٹر فوزیہ سعید نے لڑی تھی۔ وہ دو عشروں سے بھی زیادہ عرصہ سے جنسی ہراسانی کے موضوع پر کام کر رہی ہیں۔ ہم خیال تنظیموں کے ایک نیٹ ورک ”آشا“ کے ساتھ مل کر وہ 2010 میں کام کی جگہ پر جنسی ہراسانی سے تحفظ کا قانون بنوانے میں کامیاب ہوئیں۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ہمیں ایک مرتبہ پھر یہ خیال کیوں آیا تو ہوا یہ کہ چند روز پہلے ہمیں پتہ چلا کہ کراچی کے ایک قدیم سرکاری اسپتال اور میڈیکل یونیورسٹی کی ایک نو عمر لیڈی ڈاکٹر یورولوجی ڈیپارٹمنٹ کے سابق سربراہ کی ”پیش دستی“ کے خلاف انصاف کی تلاش میں مختلف دروازے کھٹکھٹا رہی ہے اور نتیجہ یہ نکلا کہ وہ صاحب اسپتال کی چند لیڈی ڈاکٹرز اور نرسوں کو ہراساں کرنے کے بعد اب میڈیکل یونیورسٹی کے کم عمر طلبہ و طالبات کو پڑھانے بھیج دیے گئے، اگر یہ سزا ہے تو پھر جزا کسے کہتے ہیں۔

ایک اخباری رپورٹ کے مطابق جنوری 2025 میں سندھ ہیومن رائٹس کمیشن نے سندھ محکمہ صحت کے سیکریٹری اور جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سنٹر کی انتظامیہ سے اس تحقیقات کی تفصیل طلب کی تھی جو ایک سینئر ڈاکٹر کے خلاف ایک خاتون ریذیڈنٹ ڈاکٹر کی طرف سے جنسی ہراسانی کی شکایت کے خلاف کی گئی تھی۔ اس شکایت پر اسپتال کی انتظامیہ کی بنائی جانے والی چار رکنی کمیٹی نے تحقیق کی اور ڈاکٹر موصوف کو ہراسانی کا مرتکب پایا۔ اس پر وہ صاحب (ش) ہائی کورٹ چلے گئے اور ہائی کورٹ سندھ نے ری اسٹریننگ آرڈر جاری کر دیا یعنی عارضی عدالتی حکم جو کسی فرد کو کسی خاص کارروائی سے، خاص طور پر کسی مخصوص شخص کے پاس جانے یا رابطہ کرنے سے روکتا ہے۔ اور یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ ایک مرتبہ جب معاملہ عدالت میں چلا جاتا ہے تو ”تاریخ پر تاریخ“ ہمارے عدالتی نظام کا خاصہ ہے۔ بہر حال متاثرہ خاتون نے اپنے وکیل کے ذریعے عدالتی کارروائی کو تیز کرنے کی درخواست داخل کی ہے۔

اس وقت متاثرہ خاتون ( ڈاکٹر میم) جس ذہنی عذاب سے گزر رہی ہیں، اس کا اندازہ ہر حساس اور صاحب دل شخص خاص طور پر ہر ملازمت پیشہ خاتون کر سکتی ہے۔ کراچی کی سول سوسائٹی کو اس واقعے کا علم بہت دیر سے یعنی 2025 کے عالمی یوم خواتین سے کچھ پہلے ہوا، تو ہم نے ایچ آر سی پی کے دفتر میں ایک میٹنگ کی جس میں چار پانچ ڈاکٹرز نے ہمیں کیس کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ اس کے بعد ویمنز ایکشن فورم کراچی کی کچھ ارکان نے ڈاکٹر میم کے ساتھ آن لائن میٹنگ کی۔ ان دونوں میٹنگز کے نتیجے میں ہمیں پتہ چلا کہ ڈاکٹر میم نے ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ میں 2024 میں جنسی ہراسانی کے خلاف شکایت درج کرائی تھی اور محکمہ نے دسمبر میں تحقیقات کے لئے ایک کمیٹی بنائی تھی۔ اس وقت ینگ ڈاکٹرز کی تنظیم نے بھی یورولوجی ڈیپارٹمنٹ کے سامنے مظاہرہ کیا تھا۔ اور شفاف اور غیر جانبدارانہ انکوائری اور ملزم کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔ اسپتال اور یونیورسٹی میں بھی انکوائری کمیٹیاں بنیں اور سب نے متاثرہ خاتون کے حق میں فیصلہ دیا لیکن ملزم ڈاکٹر ہائی کورٹ میں چلا گیا اور ری اسٹریننگ آرڈر لے لیا۔ دیگر عوامل سے قطع نظر اس وقت جو سب سے تکلیف دہ بات ہو رہی ہے، وہ یہ ہے کہ ملزم کے دوست احباب سوشل میڈیا پر فیک آئی ڈی بنا کے متاثرہ لیڈی ڈاکٹر کی کردار کشی کر رہے ہیں۔ سائبر کرائم کے تحت ایف آئی اے میں شکایت درج کرائی جا سکتی ہے۔ لیکن سول سوسائٹی کا سابقہ تجربہ بتاتا ہے کہ ’ابھی تک یہ ادارہ متاثرہ خواتین کو انصاف دلانے میں ناکام رہا ہے۔ اس نے ہمیشہ طاقتور فریق کا ساتھ دیا اور متاثرہ خواتین کو سمجھوتہ کرنے کے لئے کہا۔

کام کی جگہ پر ہراسمنٹ سے تحفظ کے قانون کے تحت جنسی ہراسانی کے محتسب اعلیٰ کا ادارہ بھی بنایا گیا ہے مگر ملزم کے ہائی کورٹ میں جانے کے بعد محتسب اس وقت تک کوئی کارروائی نہیں کرتا جب تک ہائی کورٹ کا فیصلہ نہ آ جائے اور پھر متاثرہ خاتون اس فیصلے کے خلاف محتسب کے پاس اپیل کرے یعنی اگر ہائی کورٹ کی پیشیاں بھگتنے کے بعد اس میں اتنی ہمت باقی رہی ہو۔

ناطقہ سر بگریباں ہے، اسے کیا کہیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments