ضعف میں طعنہ اغیار کا شکوہ کیا ہے


رمضان سے پہلے میں نے بھی بہت سے منصوبے بنائے تھے۔ مگر پہلے روزے کے بعد ہی شرارتی قسم کے فلو نے میرے ساتھ پہلے سلام سے راہ و رسم بڑھائی پھر قدم بوسی کا شرف حاصل کیا اور اُس کے بعد بغل گیر ہو کر ایسا گلو گیر ہوا کہ پورے نو دن مجھے گرد و پیش کا کچھ ہوش نہ رہا۔ آٹھ اکتوبر آیا اور چلا گیا مگر مجال ہے جو مجھے خبر ہوئی ہو۔ کچھ نہ لکھ سکی۔ حالانکہ ہمسائے میں ہی ایک عجیب و غریب واقعہ پیش آیا تھا جسے میں لکھنا چاہتی تھی۔ خیر یہ ذکر پھر سہی۔

ان دنوں میرے تو کان بند۔ کچھ بھی برا بھلا سنائی نہ دیا۔ آنکھوں کی دھندلاہٹ نے کتاب اور سوشل نیٹ ورک سے سلسلہ منقطع کر دیا۔ سر کے درد نے بلا وجہ کی گفت و شنید سے بچا لیا۔ بھوک ختم ہونے سے کھانے پینے کا پرہیز ہو گیا۔ بس یوں سمجھ لیجیے جنت چند قدموں کے فاصلے پر ہی رہ گئی تھی۔ آج کچھ افاقہ ہوا، تو سوچا اپنی کیفیت کو لکھنا چاہیے۔

بیماری میں گرد و پیش کی بہت سی پرتیں کھُلنے لگتی ہیں۔ اُن احباب کی سرد مہری جن پر آپ کو ناز ہوتا ہے کہ وہ مصیبت میں آپ کا حال پوچھ پوچھ کر بے چین ہو جائیں گے۔ وہ صرف آپ کی خام خیالی ہی کو دور نہیں کرتے بلکہ آپ کی خود اعتمادی کو بہت مضبوط بنا دیتے ہیں۔ آپ کو خود پر بھروسا کرنا سکھاتے ہیں۔
سب سے اچھا تو وہ آئینہ ہوتا ہے۔ جس میں اپنا عکس دھلا دھلا سا اور نکھرا نکھرا سا نظر آتا ہے۔ جب آپ خوداعتمادی سے جینے کی کوشش کرتے ہیں تو اپنا وجود بہت بامعنی سا لگنے لگتا ہے۔ یعنی میں بہت اچھی ہوں۔ ہر رشتے کو خوب نبھاتی ہوں، مجھ سے اگر کوئی غلطی سرزد ہوئی ہے تو کیا۔ ( کچھ تحریف کے ساتھ) ”یہ تو چلتی ہے تجھے رستہ سُجھانے کے لیے“

اور پھر میں تو پھول ہوں گرد و پیش اگر کانٹے بکھرے ہوئے ہیں تو کیا پھول کِھلنا چھوڑ دے، مہکنا چھوڑ دے یا پھر لہلہانا چھوڑ دے۔ ارے مجھے خود اعتمادی سے جینا چاہیے۔ لوگوں کا کیا ہے۔ لوگ تو اپنی نفرتوں کے ساتھ جیتے ہیں۔ انہیں اُن کے ڈھنگ سے جینے دو۔ آئینے کے ساتھ یہ روز کا مکالمہ زندگی کو اُمید اور یقین سے بھر دے گا۔ ارے بھئی یہ نرگسیت ہرگز نہیں۔ اپنی ذات کو اہمیت دینا، اپنی شخصیت کو نکھارنا، سنوارنا اور تندی باد مخالف کے مقابل کھڑا کرنے کے لیے اِسے پچکارنا تو پڑتا ہے نا! اگر انسان ہمت ہار دے، تو وہ کبھی بھی زندگی کی جنگ جیت نہیں سکتا۔ خود اعتمادی اور خود انحصاری بہت بڑا تحفہ ہے۔ خیر چھوڑیں یہ سب باتیں۔ آئیے کچھ اور باتیں کرتے ہیں۔

مجھے زہر لگتے ہیں وہ احباب جو حالت ضُعف میں آپ کو ایسے ایسے پیغامات بھیجتے ہیں جیسے زخموں پر نمک چھڑک کر مزے لے رہے ہوں، دنیا فانی ہے۔ موت برحق ہے، زیادہ سے زیادہ استغفار کرنا چاہیے، ڈپریشن کا وظیفہ، بیماری صدقہ جان ہے، گناہ جھڑتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔

ارے بھئی ہنسنے کھیلنے والے پیغامات، کچھ لطائف، اچھی موسیقی، کچھ دلچسپ قصے بھی تو بھیج سکتے ہیں۔ جس سے مریض ہنستے ہنستے بے حال ہو جائے اور پھر بے حال ہو کر بغل گیر ہونے والی اُس صدقہ جان سے خلاصی حاصل کر لے۔

پرانے وقتوں میں جب گاؤں میں کوئی پُرسا دینے جاتا تھا تو عورتیں طے کرتی تھیں کہ پہلی چیخ کس کی ہوگی اور اُس کے بعد منہ کو اوڑھنی سے چھپا کر چیخوں کا وہ سلسلہ شروع ہوتا تھا کہ خدا کی پناہ۔ رسم افسوس اُس وقت تک مکمل نہیں ہوتی تھی۔ جب تک غمزدہ خاندان سے گلے مل مل کر بین نہ ڈالے جائیں۔ اور گلے ملنے کی بھی اپنی روش تھی۔ گلے ملنے والی دو خواتین ایک دوسرے کو تب تک نہیں چھوڑتیں تھیں جب تک کوئی دوسرا دلاسا دیتے ہوئے چھڑوانے کی مخلصانہ کوشش نہ کرے۔

تو دوستو! آج کے دور میں یہ مخلصانہ کوشش بھی آپ کو خود سے ہی کرنی پڑتی ہے۔

بہرحال اس وقت سورج بادلوں کی اوٹ سے مسکراتا ہوا میری کھڑکی سے جھانک رہا ہے، میرے کمرے کے پچھلے حصے میں لوکاٹ کا پودا بھی ننھی ننھی کونپلیں نکال رہا ہے۔ گملوں میں نئے پھول لگ چکے ہیں۔ گیندے کے پھول بھی اپنی چمکتی دمکتی پیلاہٹ کے ساتھ تازہ دم ہیں۔ رمضان کی برکتوں کا نزول تو روزہ داروں کو اپنی رحمت سے نواز ہی رہا ہے۔ سب کا مشترکہ خیال ہے کہ نہ بھوک لگتی ہے نہ پیاس۔ قرآن کی تلاوت بھی ہو رہی ہے، صدقہ خیرات بھی تقسیم ہو رہا ہے، جو صرف ایک مہینے ہی کے لیے ہوتا ہے۔ سارا سال تو غریب لوگ ”خسماں نوں کھان“ والا رویہ ہوتا ہے۔

ساری قوم بھکاری بن چکی ہے۔ ہم نے اپنی زندگی میں کبھی اس طرح پاگلوں کی طرح لوگوں کو راشن مانگتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اپنی جان اور مال کے صدقے کے لیے، مال کو پاک کرنے کے لیے، اور اپنی بے لگام خواہشوں کو جواز مہیا کرنے کے لیے رمضان میں پیسے نکالنے ہوتے ہیں۔ مثبت پہلو یہ ہے کہ چلیں اس بہانے پیسے امیر کی جیب سے نکل کر غریب کی جیب میں چلے جاتے ہیں۔

مگر یہ بھی تو سوچیئے! کیا انسان کو صرف ایک مہینے کے لیے ہی تو پیٹ پوجا نہیں کرنی ہوتی ہے۔ زندہ انسان کو تن ڈھانپنے کے لیے سارا سال کپڑا، بیماری میں علاج معالجہ بھی تو چاہیے۔

خیراتی اداروں کی ذمہ داری بھی لوگوں نے اپنے ذمے لے رکھی ہے۔ مگر ہم نے ان ستر سالوں میں کبھی یہ نہیں سوچا کہ ہم قوم کی کیا تربیت کر رہے ہیں؟ اللہ کیا چاہتا ہے؟ اپنی مرضی کا مذہب، اپنی مرضی کی من گھڑت توضیحات۔ اور اِن رسومات پر بے اعتنائی کا رویہ۔ رویوں میں سختی۔ سختی کے ساتھ ہٹ دھرمی۔ اور ہٹ دھرمی کی من گھڑت تشریح۔ تشریح میں فصاحت و بلاغت کے دریا۔ ان دریاؤں میں مگرمچھوں کا پہرہ۔ اور پھر مگرمچھوں کی اس دنیا میں انسان اور انسانیت کی شناخت۔ کون کرائے گا؟

اری او ریاست! تم کہاں ہو؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments