خوف کی کنجی


بیشتر لوگوں کو 3 مارچ 2009ء کی وہ بدقسمت صبح آج بھی یاد ہو گی۔ سری لنکا کی کرکٹ ٹیم کا قافلہ لبرٹی چوک پہنچا تو اچانک درجن بھر حملہ آور نمودار ہوئے۔ عوام نے ٹیلی ویژن اسکرین پر غارت گری کے روح فرسا مناظر براہ راست دیکھے۔ گولیاں برسنا بند ہوئیں تو پولیس کے چھ جوان اور دو شہری اپنی جان گنوا چکے تھے۔ خوش قسمتی تھی کہ دہشت گردوں کا اصل ہدف سری لنکا کی ٹیم اور غیر ملکی امپائر محفوظ رہے۔ ہر لب پر یہی سوال تھا کہ ان بیچاروں کا کیا قصور تھا مگر اس جنگ کے زیر و بم سمجھنے والے جانتے تھے کہ یہ حملہ دہشت گردوں کی حکمت عملی کے عین مطابق تھا۔

دہشت گرد جانتے تھے کہ پاکستان پر قبضہ کرنے کے لیے وہ نہ تو الیکشن لڑ سکتے ہیں نہ صف آرا ہو کر باقاعدہ جنگ کر سکتے ہیں۔ اُن کے پاس ایک ہی ہتھیار ہے‘ اور وہ ہے ”خوف‘‘۔ اس ہتھیار کے بارے میں سوچتے ہوئے مجھے ایلسٹر میکلین کے ناول پر بنائی گئی فلم Fear is the key ”خوف کی کنجی‘‘ یاد آ رہی ہے۔ اُن کی کئی دوسری کہانیوں پر بنائی گئی فلمیں پاکستان میں دکھائی جا چکی ہیں۔ ان میں Guns of Navarone, Where Eagles Dare, Puppet on a Chain, Ice Station Zebra شامل ہیں۔ جس فلم کا ذکر ہو رہا ہے اس کی کہانی کا مرکزی خیال تھا کہ اگر کسی کے ذہن میں خوف داخل کر دیا جائے تو پھر وہ اشاروں پر ناچتا ہے۔

دہشت گرد سمجھتے ہیں کہ اُن کے پاس بھی ”خوف کی کنجی‘‘ ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اس جنگ میں اُن کے تین حریف ہیں۔ عوام‘ سویلین حکومت اور عسکری ادارے۔ اگر وہ ان تینوں کو خوف زدہ کر دیں تو پاکستان ایک پکے ہوئے پھل کی طرح اُن کی جھولی میں آ گرے گا۔

ہمارے لئے فخر کی بات ہے کہ خوفزدہ کرنے کی ہر کوشش کو عوام نے مسترد کر دیا۔ پاکستان کے کسی بھی صوبے میں عوام نے نہ تو اُن کا فلسفہ حیات قبول کیا‘ نہ اُن کے خوف کو اپنے اوپر طاری ہونے دیا۔ دوسری طرف دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے میں عسکری اداروں اور سویلین حکومت نے خوف کو تو قبول نہیں کیا‘ مگر ان کے درمیان ذہنی ہم آہنگی ہمیشہ نظر نہیں آئی۔ اُس کی وجہ تاریخی طور پر جمہوری حکومتوں اور عسکری قیادت کے درمیان اعتماد کا فقدان ہے۔ سیاست دانوں کو جب کبھی مسندِ حکومت پر فائز ہونے کا موقع ملا‘ کان بھاری بوٹوں کی آہٹ پر لگے رہے۔ اگر دھیان اقتدار کی بقا پر مرکوز ہو تو خطرات سے مقابلہ کرنے کی بجائے کترا کر گزر جانا ایک وتیرہ بن جاتا ہے۔

جن دنوں سری لنکا کی ٹیم پر حملہ ہوا‘ اسلام آباد افواہوں کی زد میں تھا۔ بتایا گیا کہ دہشت گردی مرگلہ کی پہاڑیوں پر قابض ہو جائیں گے۔ کرکٹ ٹیم پر حملے کے بعد حالات مزید بدتر ہو گئے۔ سوات ہاتھ سے نکلا جا رہا تھا۔ حکومت پسپائی کی طرف مائل تھی۔ مذاکرات اور مصالحت کے نام پر مطالبات تسلیم ہو رہے تھے۔ عوام پریشان حال ایک دوسرے کا منہ تکتے تھے۔ تاریخ گواہ ہے کہ تادیبی کارروائی میں تامل اور تذبذب شامل ہو تو کامیابی کا امکان معدوم ہو جاتا ہے۔ عوام اپنی بے بسی کی آگ میں جل رہے تھے۔ خوف کی زنجیریں کاٹنے کے لئے جس ذوقِ یقین کی ضرورت تھی وہ مفقود۔ اُن دنوں عبدالحمید عدم کا ایک شعر یاد آتا تھا۔؎

یہ عقل کے سہمے ہوئے بیمار ارادے

کیا چارہِ ناسازیِ حالات کریں گے

ہر شام ٹیلی ویژن پر اہلِ علم کی گفتگو سے محسوس ہوتا تھا کہ ”خوف کی کنجی‘‘ کارگر ثابت ہو رہی ہے۔ اہلِ علم کا بیانیہ تھا کہ ہمیں بھٹکے ہوئے ”بچوں‘‘ کو منا لینا چاہیے اور ڈرون حملے فوراً بند ہوں جو دہشت گردوں کی افزائش نسل کا باعث ہیں۔

ان حالات میں 16 مئی 2009ء کو آپریشن ”راہ راست‘‘ کا آغاز ہوا اور پھر چند دنوں میں حالات بدل گئے۔ عوام کے حوصلے بلند ہوئے۔ قبائلی علاقوں کے جو لیڈر ہر شام ٹیلی ویژن پر ڈرون حملوں کی مخالفت کرتے تھے‘ اہل اقتدار سے درخواست کرنے لگے کہ یہ حملے بند نہ ہوں۔ اُن کے نزدیک ڈرون ہی دہشت گردوں کے خلاف ایک واحد اور موثر ہتھیار تھا۔

آپریشن ”راہ راست‘‘ صرف چند ہفتے جاری رہا۔ اس دوران عوام نے جس طرح حکومت کی حمایت کی اس پر جتنا بھی لکھا جائے کم ہو گا۔ عوام نے اپنے گھروں کی بربادی کو بخوشی برداشت کیا۔ متاثرین نے جب ہجرت کی تو دوسرے شہروں میں انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا گیا۔ ان کی دلجوئی اس اپنائیت کے ساتھ ہوئی کہ وہ اپنا غم بھول گئے۔ راقم ان دنوں سیکرٹری کابینہ تھا۔ روزانہ حالات کی رپورٹ موصول ہوتی۔ آج بھی خیبر پختونخوا کے لوگوں کی قربانی یاد آئے تو بطور پاکستانی‘ میرا سینہ فخر سے پھول جاتا ہے۔ میری تجویز تھی‘ وزیر اعظم نے منظور فرمائی۔ پشاور‘ چارسدہ‘ نوشہرہ‘ مردان اور صوابی کے شہروں کو ہلال ایثار عطا ہوا۔ اس موقع پر ہر شہر کے لیے الگ یادگاری ٹکٹ بھی جاری ہوئے۔

اس آپریشن کے بعد بھی عوام کے ارادے تو مستحکم رہے مگر ایوان اقتدار کا عزم ایک بار پھر خوف اور خواہش کے درمیان جھولنے لگا۔ میڈیا کے اہلِ علم پر ایک بار پھر ”خوف کی کنجی‘‘ کارگر ہونے لگی۔ وہی پرانا بیانیہ دوبارہ گردش میں آیا۔ سویلین قیادت کے کان زمین سے لگے ہوں تو دھرتی کی دھڑکن سنائی دیتی ہے مگر اس دفعہ تو نہ صرف کان زمین سے جدا ہوئے بلکہ انگلیاں بھی عوام کی نبض سے اُٹھ گئیں۔ اس موقع پر عسکری قیادت نے ہمت دکھائی۔ ”ضرب عضب‘‘ شروع ہوا۔ اس آپریشن میں ایک خون آلود موڑ آیا جب دہشت گردوں نے اپنا خوف عسکری اداروں میں داخل کرنے کے لیے معصوم بچوں کو نشانہ بنایا۔ عوام کا غم و غصہ عروج پر پہنچ گیا۔ خوف کی کنجی کا استعمال ناکام ہوا۔ سویلین قیادت نے بھی ہوش کے ناخن لئے اور اس عفریت کا مستقل سدباب کرنے کے لیے نیشنل ایکشن پلان بنا۔

اس بات کو بھی دو سال ہونے کو آئے۔ دہشت گردی ختم نہیں ہوئی۔ جیسے ہی PSL کی انتظامیہ نے اس سال کا فائنل لاہور میں منعقد کروانے کا عندیہ دیا‘ دہشت گردوں نے ایک خودکش بمبار کے ذریعے 15 شہری جن میں پولیس کے اعلیٰ افسران بھی شامل تھے‘ شہید کر دیئے۔ 85 لوگ زخمی ہوئے۔ ایک ہفتہ گزرا‘ 22 فروری ڈیفنس لاہور کی مارکیٹ میں دھماکہ ہوا۔ اس حادثے میں بھی 10 لوگ شہید ہوئے اور 20 زخمی۔

ان واقعات کے باوجود پنجاب حکومت نے وفاقی حکومت سے منظوری کے بعد 5 مارچ کو PSL کا فائنل میچ لاہور میں کروانے کا فیصلہ کر دیا۔

ایک طرف کچھ سیاسی حلقے اس فیصلے کو احمقانہ قرار دے رہے تھے‘ دوسری طرف عوام کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ لاہور کے قلندر تو فائنل تک رسائی حاصل نہ کر سکے۔ میچ کوئٹہ اور پشاور کے درمیان تھا‘ مگر عوام کو مقامی ٹیم کی فکر نہ تھی۔ اُن کا مشن اور تھا۔ شائقین کو پتہ تھا کہ بہت سے اچھے کھلاڑی پاکستان نہیں آئیں گے مگر اس کی پروا بھی نہ تھی۔ انتظامیہ نے انہیں میچ کے شروع ہونے سے چار گھنٹے پہلے پہنچنے کا حکم دیا۔ یہ مشکل بھی بخوشی قبول کی۔ ٹکٹ کی قیمت دس گنا بڑھا دی گئی‘ شائقین نے یہ اضافہ بھی منظور کر لیا۔ دو سال پہلے زمبابوے کے ساتھ میچ میں بھی دہشت گردوں نے خودکش بمبار بھیجا تھا جسے پولیس اہلکار نے اپنی جان دے کر روکا۔ لوگوں کو ڈرایا گیا‘ اس دفعہ زیادہ خطرہ ہے‘ ضرور کوئی بڑا دھماکہ ہو گا۔ مگر عوام کا جوش و خروش کم نہ ہوا۔ عورتیں اور بچے بھی میچ دیکھنے آ رہے تھے۔ عوام کے نزدیک دہشت گردوں کو پیغام دینا زیادہ اہم تھا۔ وہ بتانا چاہتے تھے کہ مال روڈ پر کی گئی بزدلانہ کارروائی نے ان کے عزم کو مزید مضبوط کیا ہے اور انہیں اپنا طرز حیات‘ اپنی تہذیب‘ رہن سہن اور انداز بودوباش عزیز ہے۔ وہ دہشت گردی کے سامنے جھکنے سے انکاری ہیں۔

مجھے نہ دانش وری کا دعویٰ ہے اور نہ ہی میدان سیاست کا تجزیہ کار ہوں۔ میری اہلِ سیاست سے صرف ایک گزارش ہے کہ PSL کے فائنل میچ کو سیاسی فائدے یا نقصان کے حوالے سے نہ دیکھا جائے۔ یہ ایک عوامی ریفرنڈم تھا‘ اگر عوام کے جذبات کو سمجھ کر ان کا ساتھ دیا جاتا تو تمام سیاستدان پشاور یا کوئٹہ ٹیم کی شرٹ پہن کر اسٹیڈیم پہنچ جاتے۔ اس ریفرنڈم کے فیصلے کو ضائع نہیں ہونا چاہیے۔ اگر اہلِ سیاست ”خوف کی کنجی‘‘ کو دفن کرتے ہوئے اپنے عمل کو عوامی سوچ سے ہم آہنگ کر لیں تو عسکری اداروں کا کام آسان ہو جائے گا۔

ورنہ یاد رکھیے‘ عوام بہت باخبر ہیں۔ سیاسی پارٹی کو پتہ بھی نہیں چلے گا اور عوام اس کا الیکشن چوری کر لیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر محمود

بشکریہ: روز نامہ دنیا

zafar-mehmood has 80 posts and counting.See all posts by zafar-mehmood