وی سی آر کا زمانہ اور سوشل میڈیا


جب ہم چھوٹے تھے، یعنی سکول کے دنوں میں، ہماری سوسائٹی میں ایک خاص قسم کی شیطانی مشین کا تذکرہ عام تھا۔ اس مشین کا نام ’وی سی آر‘تھا۔ والدین، اساتذہ اور دیگر بڑے بوڑھوں کی طرف سے دی جاتی نصیحتوں کے پیکیج میں ’وی سی آر‘ سے نفرت کا ایک خصوصی باب ہواکرتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ہمارا اِنٹرسٹ بھی اِس باب میں اتنا ہی گہرا ہو کرتا تھا۔ ان دنوں میں بریکنگ نیوز کا فارمیٹ دریافت نہیں ہوا تھا، فلاں وی سی آر دیکھ رہا تھا کی بجائے ، دیکھتا پکڑا گیا جیسی اصطلاح استعمال ہوتی تھی۔ اور یہ کسی لونڈے کی آئڈنٹٹی تباہ کرنے کیلئے ایک جامع خبر ہوتی تھی۔ یہ نوے کے آخری برسوں کی داستان ہے، ’چھوٹے بڑے شہروں میں مِنی سینما گھروں کے خلاف پولیس کا آپریشن اور شہریوں کا اطمینان‘ جیسی خبریں بھی تب ہی چھپا کرتی تھیں۔

ابھی نہ جانے یہ داستان کیا کیا رخ اپناتی، کہ ون فائن مارننگ ملک خداداد میں ایک انٹرنیٹ نامی برائی نے جنم لے لیا۔ بس پھر کیا تھا کنسرنڈ والدین اور سماجی برائیوں کی روک تھام کی دیگر تنظیموں نے اپنے سامنے ملک کی گلی گلی میں انٹرنیٹ کلب اور کیفے کھلتے دیکھے۔ کچھ لوگ اسے یوں بھی لیتے ہیں کہ اگر میاں صاحب جدہ نہ جاتے تو شاید یہ برائی پاکستان میں دیر سے وارد ہوتی۔ ہماری کالونی کے ایک بزرگ تو ایک انٹرنیٹ کیفے پر باقاعدہ حملہ آور بھی ہوئے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ ایک ’مکروہ‘ کاروبار کا نام بسم اللہ نیٹ کیفے کیوں رکھا۔بہرحال بزرگ کی باتوں کا کاونٹر کے اس پار بیٹھے نوجوان پر کچھ خاص اثر نہ ہوا بزرگ کو کیا خبر کہ یہی وہ لمحہ معتبر تھا کہ جب وی سی آر ایج کااختتام اور نوجوان کی نیم جاگتی سوتی آنکھوں میں ایک نئے ڈیجیٹل دور کا آغاز ہورہا تھا۔

یوں وی سی آر سمٹ کر (ایک خاص دانست میں) ایک لمبے سے پلاسٹک کے ڈبے اور سکرین کی شکل اختیار کرگیا اور انٹرنیٹ کلبوں کی بہتات شروع ہوئی۔ ناچیز کو ایسے انٹرنیٹ کیفے میں جانے کا شرف بھی حاصل رہا ہے جہاں انٹرنیٹ کنکشن تو آف ہوا کرتا تھا لیکن کیبن خالی نہیں ملتا تھا، اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا تھا۔ اینی وے

بات وی سی آر ایج کی ہور ہی تھی، اس ایج میں ردعمل کا سامنا کرنے والی نسل آج تیس کے عشرے میں داخل ہوچکی ہے اور قدرے یہی نسل آج کل سوشل میڈیا کی ایکٹو یوزر ہے۔ اگر بغور دیکھا جائے تو ایک صورتحال یقینا حوصلہ افزا ہے کہ جن مسائل کا سامنا وی سی آر ایج کو تھا وہ دقت انٹرنیٹ کو نہیں اٹھانا پڑی۔ لیکن اب ایک مرحلہ مشکل آن پڑا وہ بھی تب جب سکولوں کالجوں کے طلبا کو لیپ ٹاپ، یو ایس پیز، اور انٹرنیٹ کنکشن جیسی سہولیات بآسانی دستیاب ہیں تب عین اس وقت انہیں سوشل میڈیا بطور فتنہ اور برائی کے ظاہر ہونے لگا ہے۔ اب جبکہ اس نئے میڈیا سے سماجی رابطہ کاری میں باہمی علم و آگہی ، شعور اورمعلومات انوکھی اور نئی دنیاؤں میں داخل ہورہے ہیں، ہمارے ہاں بد قسمتی سے پہیہ الٹا چلنا شروع ہوگیا ہے۔ سوشل میڈیا پر مبینہ طور پر کچھ پیجز کی طرف سے مقدس ترین ہستیوں کے بارے میں ہرزہ سرائی یقینا قابل گرفت اور ناقابل برداشت عمل ہے۔ لیکن اس عمل کی مذمت اور بیخ کنی کے دوران حالات اس طرح کے بنتے یا بنائے جا رہے ہیں گویا سوشل میڈیا ہی ایک برائی یا فتنہ ہے۔ اس بیان میں میرا استدلال وہی ہے جیسا کہ ہم نے وی سی آر کو انٹرنیٹ کے دور میں داخل ہوتے دیکھا، اور اب انٹرنیٹ کے ساتھ جڑی ٹیکنالوجی، سمارٹ فونز، اپلیکشنز اور سوشل میڈیاکو ایک نئے دور میں داخل ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی اور سماجی علم ورابطہ کاری کا باہمی ارتقا ہے، جو سوشل میڈیا کی زبان اختیار کررہا ہے۔ اس کی واپسی یا جبری روک تھام محض وقت کا زیاں ہوگی۔ اٹھانوے فیصد مسلم آبادی کے حامل اس ملک میں، کہ جہاں گاہے گاہے یہ دہرایا اور اعادہ کیا جاتا ہے کہ یہ ایک اسلامی ریاست ہے اور عین اسلامی روایات کی امین ہے یہاں کیونکر یہ ہونے لگا کہ ان کی مقدس ہستیوں کے گستاخ ان کے اندر سے پیدا ہونے لگے۔ میری خوش گمانی میں یقینا ایسا نہیں ہے، یہ اندرونی نہیں بیرونی معاملہ ہوسکتا ہے۔

ایک ایسے وقت میں جب ہم نجی، ریاستی اور سرکای ہر سطح پرٹیکنالوجی کے استعمال اوراستعداد کو بڑھانے کے لیئے کوشاں ہیں، انٹرنیٹ کے فوائد کو سمیٹنے کی جستجو میں ہیں تو اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی اتنا ہی ضروری ہے کہ سوشل میڈیا کی وجہ سے پیدا ہونے والے ارتعاش اور چیلنج کا بھی علمی اور عمیق گہرائی سے سامنا کیا جائے۔

ایک تجربہ توبہرحال دونسلوں نے بیک وقت کیا ہے، وی سی آر کو برائی قرار دینے والوں نے خود اپنے ہاتھوں سے بچوں کو ٹیکنالوجی کے یہ نئے ’تحائف‘ لے کر دیئے ہیں اور یوں فحاشی اور عریانی کا سلیبس بھی بدل گیا۔ یہ وقت کا پہیہ ہے جو موجودہ دور میں ٹیکنالوجی کی سڑک پرتیزرفتاری سے دوڑ رہاہے، اس نے ہمارے دیکھتے دیکھتے بہت سے معیاربدل دیئے، بہت سے نصاب بدل دیئے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بحیثیت معاشرہ و قوم اس دور کی جدت کو نعمت سے تعبیر کیا جا ئے اور آگے بڑھا جائے۔ اکثریت جب اقلیت کی طرف سے اٹھائے ناجائز مطالبے، کلیم یا موضوع پر غیرضروری ردعمل دیناشروع کردے تو کچھ عرصہ بعد اس مطالبے کی شکلیں اور نوک پلک کثیرجہتی مسائل کی صورت میں سامنے آنا شروع ہوجاتی ہیں اور یوں سماج لاشعوری طور پر اپنے اندر ایک نئی برائی کو جنم دے بیٹھتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).