معصوم شاہ کا دربار؛ میرا پہلا سکول


عید کے روز میں اپنے آبائی محلے کو جا رہا تھا کہ راستہ میں ایک مانوس چہرہ گلی کے راستے میں موٹر سائیکل کھڑی کر کے ایک بچے کو گھر کا راستہ دکھا رہا تھا۔ میں قریب سے گزرا تو اس نے مجھے بانہوں میں بھر لیا اور میرا نام پکارا، غور سے دیکھا تو وہ ریاض تھا، میرا پہلا ہم جماعت۔ اس کے ساتھ ہی میں نے برسوں پہلے سکول اور سیپارہ پڑھنے کا سفر شروع کیا تھا۔ میں نے کہا ریاض آج برسوں بعد تو کہاں سے اور یہ اس بچے سے کیوں الجھ رہا ہے۔ کہنے لگا میرا لڑکا ہے اس کو گھر کی راہ دکھا رہا ہوں۔ کہنے لگا چل آ میرے گھر چلتے ہیں، سامنے ہی تو ہے۔ میں نے کہا چلنا ہے تو معصوم شاہ کے دربار کو چل، اپنا سکول دیکھتے ہیں وہ اڑتیس سال پرانے دن یاد کرتے ہیں۔ اس نے وہیں راستے میں کھڑی اپنی موٹر سائیکل کو دوہرا تالا لگایا اور ہم چل نکلے۔

شیر دین چائے والے کی دکان کے سامنے سے بازار ٹھٹھیاراں کو مڑے اور ڈاکٹر اصغر کی دکان کے سامنے سے معصوم شاہ والی گلی میں مڑ گئے۔ دربار پہنچنے سے پہلے وہ جو چھت والی گلی کے نیچے شاہوں کا گھر تھا، جن کا لڑکا ہمیشہ اونچی آواز میں نوحے سنا کرتا تھا، اب وہ گھر وہاں نہیں تھا۔ میں نے ریاض سے پوچھا کہ وہ کہاں گئے، کہنے لگا وہ یہ جگہ بیچ کر شہر سے باہر ایک نئی آبادی میں جا بسے ہیں۔ میں تیز دھڑکن کے ساتھ دربار والی گلی میں داخل ہوا، بائیں گھوما تو ہم دربار کے احاطے میں تھے، وہاں کچھ بھی نہیں بدلا تھا، بس لوگ بدل گئے تھے۔ وہ میں بچہ سا بھی تو اب نہیں رہا تھا ناں۔

صحن کے سامنے والا وہ کمرہ آج بھی ہمیشہ کی طرح بند تھا مگر اس کی کھڑکی میں میں آج بھی جھانک سکتا تھا۔ یہ میرا پہلا سکول تھا۔ اس سکول میں کل چار طلبہ پڑھتے تھے، میں اور ریاض کچی جماعت میں اور جبری اور اس کا چچا زاد صابری دوسری جماعت میں۔ جبری اور اس کا بھائی ماسٹر رفیق کے بھتیجے تھے۔ اس سکول میں ایک ہی ماسٹر تھا، اس کا نام بھی ریاض تھا۔ ہم چاروں سامنے ٹاٹوں پر بیٹھتے جبکہ ماسٹر صاحب کرسی پر۔ سکول اور دربار میں دو اور لوگ بھی تھے، تایا اور ملنگ۔ تایا اسکول کا نگہبان بھی تھا اور دربار کا گدی نشین بھی۔ جبکہ ملنگ بس ملنگ تھا۔ دن میں یہ سکول اور سپہر میں دربار تھا۔ ہم دن کو وہاں پڑھتے اور شام کو ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈالتے اور نیاز میں بانٹی جانے والی چیزیں کھاتے۔ ویسے تو نیاز کی چیزوں کا بڑا حصہ تایا مار جاتا پھر بھی ہمارے ہاتھ کچھ نا کچھ تو آ ہی جاتا۔ وہ بھی کیا دن تھے جب ہم تقریباً جن تھے۔

جمعرات کا دن وہاں خاص ہوتا تھا ایک میلہ سا لگ جاتا تھا۔ ریاض کہنے لگا ابھی بھی جمعرات کے دن یہاں میلے کا سماں ہوتا ہے۔ مجھے وہ دن یاد ہیں، دربار کا ہال کمرہ خواتین سے کھچا کھچ بھرا ہوتا تھا، وہ صحن میں چراغ روشن کر کے وہاں بیٹھ کر یٰسین پڑھا کرتیں اور دعا مانگتیں۔ ان میں سب سے زیادہ مرتبہ میں نے نانی فاطمہ کو دیکھا۔ وہ یقینی طور پر اپنے بچوں کے لیے آسانی مانگتی ہوں گی ۔ صاحب دربار کی قبر ایک بچے کی قبر ہے۔ یہ مشہور تھا کہ ایک بچہ زمین میں سما گیا اور اس جگہ یہ مزار بن گیا۔ جس روز ہم گھر سے روٹ، گڑ کے شیرے میں گوندھے ہوئے آٹے کی گھی میں بنی ہوئی روٹی جو ٹکڑوں میں بٹ جاتی تھی، بنوا کر بانٹنے کے لیے لے جاتے اس روز تایا ہمیں ہاتھوں ہاتھ لیتا۔ چنگیر میں آدھا روٹ ہمارے لیے چھوڑ کر باقی بانٹ دیتا۔ اس زمانے میں آئی مشکل کو ٹالنے کا پہلا نسخہ معصوم شاہ پر نیاز دینا تھا۔ وہ ڈھولچی کیا ڈھول بجاتا تھا کہ آج بھی ڈھول کی تھاپ پر ناچنے کو جی کرتا ہے۔

میں اس اسکول میں تو چند ماہ پڑھا لیکن دربار پر برسوں جاتا رہا۔ دربار میں جو برگد کا درخت تھا میں اس پر چڑھنا چاہتا تھا مگر کبھی بھی نہ چڑھ سکا، وہ پیڑ آج بھی وہیں موجود ہے۔ معلوم پڑا کہ وہ تایا اور ملنگ تو کب کے مر چکے اور اسکول بھی بند ہو چکا لیکن دربار کی رونق موجود ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments