ایک بار یہ نسخہ آزما کے دیکھ لیں
1947 میں ہندوستان اور پاکستان آزاد ہوئے اور 1971 میں مشرقی پاکستان، بنگلہ دیش بن گیا۔ آزادی کے وقت ہندوستان کی آبادی 35 کروڑ، موجودہ پاکستان کی آبادی 3 کروڑ 33 لاکھ جبکہ مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش ) کی آبادی 4 کروڑ 20 لاکھ تھی۔ 1947 میں ہندوستان کی جی ڈی پی 20 ارب اور پاکستان کی 3 ارب ڈالر تھی۔ 1971 میں بنگلہ دیش کی جی ڈی پی 6 ارب ڈالر تھی۔ 1947 میں ہندوستان کی کس آمدنی 100 ڈالر پاکستان کی 80 ڈالر اور 1971 میں بنگلہ دیش کی فی کس آمدنی 100 ڈالر تھی۔ اب دیکھا جائے کہ 2024 میں کیا صورت حال تھی۔ اس سال ہندوستان کی جی ڈی پی 4.27 ٹریلین ڈالر، فی کس اوسط آمدنی 2940 ڈالر، پاکستان کی جی ڈی پی 374.6 ارب ڈالر، فی کس اوسط آمدنی 1588 ڈالر، بنگلہ دیش کی جی ڈی پی 481 ارب ڈالر اور فی کس اوسط آمدنی 2770 ڈالر ہے۔ اس دوران ہندوستان کی آبادی بڑھ کر، ایک ارب بیالیس کروڑ، پاکستان کی 25 کروڑ 44 لاکھ اور بنگلہ دیش کی 16 کروڑ 98 لاکھ ہو چکی ہے۔ اب ایک نظر شرح خواندگی اور اوسط عمر کے حوالے سے ڈال لی جائے۔ اس وقت ہندوستان میں خواندگی کی شرح 77 فیصد اوسط عمر 69.33 سال، پاکستان میں شرح خواندگی 62.68 فیصد اوسط عمر 66.43 سال اور بنگلہ دیش میں شرح خواندگی 76.36 فیصد اور اوسط عمر 75.20 سال ہے۔
مذکورہ بالا معاشی اور سماجی اشاریے ان تین ملکوں کے ہیں جو 78 سال پہلے برصغیر کا حصہ تھے اور بعد ازاں خود مختار ملک بن گئے۔ ذہن میں یہ سوال ضرور پیدا ہو گا ان اشاریوں کے ذکر کی منطق کیا ہے؟ مذکورہ اعداد و شمار یہ جاننے کے لیے بیان کیے گئے ہیں کہ کم و بیش ایک جیسے حالات میں آزادی ملنے کے بعد ان میں سے کس ملک کی کارکردگی زیادہ بہتر رہی اور جو ملک ان اشاریوں میں پیچھے رہ گیا اس کے کیا اسباب ہو سکتے ہیں۔ چوں کہ ناکامی اور غلطی کو خوش دلی سے قبول کرنا ہمارے قومی مزاج میں شامل نہیں لہٰذا اس تقابلی تجزیے کے دوران چند تلخ حقائق ہمارے تحمل کا امتحان لے سکتے ہیں۔ سب سے پہلے اپنے پڑوسی اور آبادی کے لحاظ سے دنیا کے دوسرے سب سے بڑے ملک ہندوستان کا جائزہ لیا جائے۔
برطانوی استعمار کے قبضے سے قبل ہندوستان دنیا کا خوش حال ترین ملک تھا، اس حوالے سے اسے سونے کی چڑیا کا نام دیا گیا تھا۔ 1700 ء میں عالمی جی ڈی پی میں اس کا حصہ 24.4 فیصد تھا جو استعماری لوٹ مار کے بعد 1950 میں گھٹ کر صرف 4.2 فیصد رہ گیا تھا، اس نوآزاد ملک میں غربت اپنی انتہا پر تھی اور وہ ملک جسے کبھی سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا اسے بھکاریوں کا ملک کہا جانے لگا تھا۔ یہ ہندوستان کی خوش بختی تھی کہ آزادی کے بعد وہاں انڈین نیشنل کانگریس کی حکومت قائم ہوئی۔ کانگریس میں سماج کے ہر طبقے کی نمائندگی موجود تھی۔ اس جماعت کی قیا دت اعلیٰ تعلیم یافتہ، روشن خیالُ اور قوم پرست سیاست دانوں پر مشتمل تھی۔ ملک کے پہلے وزیراعظم، پنڈت جواہر لعل نہرو سیکولر، جمہوریت پسند ہونے کے ساتھ سوشلسٹ نظریات کی جانب جھکاؤ رکھتے تھے۔ ُانہوں نے اپنے نظریات کی بنیاد پر سیاسی، معاشی اور زرعی پالیسیاں متعارف کرائیں اور غیر وابستہ تحریک میں شامل ہو کر ملک کو سرد جنگ کا نوالہ بننے سے محفوظ رکھا۔ کانگریس نے آزادی سے قبل ہی بڑی زمینداریوں کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا تھا جس سے ڈر کے مسلم اکثریتی صوبوں کے مسلمان جاگیردار مسلم لیگ میں شامل ہو کر جناح صاحب کے ہم نوا بن گئے۔ کانگریس حکومت نے 14 بینکوں، ائر لائنز سمیت درجنوں بڑی کمپنیوں کو قومی ملکیت میں لے لیا، ملک میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور بھاری صنعتوں کے قیام کو اولین ترجیح دی اور ملکی صنعت کو بیرونی مقابلے سے بچانے کے لیے درآمدات پر انتہائی سخت پابندیاں عائد کر دیں۔ ہندوستان کے عوام، دہائیوں تک مغرب کے مشہور ملبوسات، گاڑیوں اور بیرونی دنیا کیُ دیگر جدید اور پرکشش اشیاء کے لیے ترستے رہے، وزیراعظم سمیت تمام ہندوستانیوں نے سالہا سال تک پرانے ڈیزائن کی ماروتی کار اور بسوں میں سفر کیا۔ اچھی بات یہ تھی کہ اپنے ملک کی بنی اشیاء کے استعمال پر فخر کیا جاتا تھا۔ آج کی تاریخ تک ہندوستان کے کسی وزیراعظم نے سوٹ نہیں پہنا اور نہ انگریزی زبان میں تقریر کو باعث افتخار تصور کیا۔ ملی جلی معیشت کے تجربے سے ہندوستان میں بڑا صنعت کار طبقہ پیدا ہو گیا جس کی مصنوعات کی کھپت ملک کے اندر ہی ہوتی تھی جو ایک مضبوط معیشت کی علامت ہوتی ہے۔ زرعی ترقی، غربت میں کمی کے لیے بھاری امداد دی گئی، کمزور طبقات اور پس ماندہ ذاتوں کے لیے داخلوں اور سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ مختص کر کے بے پناہ سیاسی دباؤ برداشت کیا گیا۔ چالیس سال کے صبر آزما امتحان کا اصل ثمر اس وقت ملنا شروع ہوا جب دنیا کی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں میں سرمایہ کاری کے لیے نئی منڈیوں کی طلب شدت اختیار کرنے لگی۔ اس مرحلے پر نرسمہا راؤُ کی حکومت نے ہندوستان کو بتدریج دنیا کے لیے کھولنے کا فیصلہ کیا۔ ان کے بعد من موہن سنگھ، اٹل بہاری واجپائی نے اس عمل کو جاری رکھا اور موجودہ وزیراعظم نریندر مودی نے بھی ان پالیسیوں پر عمل کر کے معاشی کرشمہ کر دکھایا۔ 2014 سے 2024 کے دس سالوں میں ہندوستان کی جی ڈی پی میں دو گنا اضافہ ہوا جو 2.1 ٹریلین ڈالر سے بڑھ کر 4.2 ٹریلین ڈالر ہو گئی۔ ہندوستان نے اپنے سابق آقا برطانیہ سے دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت کا اعزاز چھین کر اپنے نام کر لیا۔ یہ وہ برطانیہ تھا جس نے دو سو سال تک بر صغیر کو لوٹ کر قلاش کر دیا تھا، جس کا حساب اس کی سابق نوآبادی نے 75 سال میں چکتا کر دیا۔
اب ہم آتے ہیں بنگلہ دیش کی طرف۔ اپنے قیام کی ابتدائی دہائیوں میں بنگلہ دیش، سنگین بحران کا شکار رہا۔ لیکن بعد ازاں، سیاسی استحکام، مارکیٹ دوست اصلاحات اور درست معاشی پالیسیوں سے وہ عالمی سرمایہ کاروں کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ اس نے اپنے انسانی وسائل کا بہترین استعمال کیا اور ٹیکسٹائل مصنوعات اور گارمنٹ انڈسٹری کو عروج پر پہنچا دیا اور دنیا میں ان مصنوعات کا دوسرا سب سے بڑا برآمد کنندگان بن گیا۔ بنگلہ دیش کی برآمدات 60 ارب یعنی پاکستان سے تقریباً دو گنی زیادہ ہیں۔ بنگلہ دیش میں تمام کاروبار کا 90 فیصد چھوٹی اور درمیانی درجے کی صنعتوں پر مشتمل ہے۔ اس وقت اس کے زرمبادلہ کے ذخائر 26 ارب ڈالر سے زیادہ ہیں۔ بنگلہ دیش نے زمین کی کمی اور موسمی تغیرات کے باوجود زراعت میں نمایاں ترقی کی ہے اور جی ڈی پی میں اس کا حصہ 11 فیصد سے زیادہُ ہے۔
سماجی اور معاشی ترقی مذکورہ بالا حقائق کے تناظر ہمیں اپنا موازنہ ان دو ملکوں سے ضرور کرنا چاہیے۔ ہندوستان نے چند بنیادی اصول طے کر کے اپنے سفر کا آغاز کیا۔ سب سے پہلی ترجیح وفاقی پارلیمانی جمہوریت کے قیام کو دی گئی اور وقت ضائع کیے بغیر دنیا کا سب سے بڑا تحریری آئین تیار کر لیا گیا۔ ہمارے لیے جمہوریت اہم نہیں تھی اس لیے ملک ٹوٹنے کے بعد بحالت مجبوری 1973 میں آئین بن کر نافذ ہوا جس کے بعد آئین اور اس کو بنانے والوں کا حشر ہمارے سامنے ہے۔ ہندوستان نے دوسرا اصول یہ طے کیا کہ حالات جو بھی ہوں جمہوری عمل میں کبھی کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی۔ اس کے برعکس ہم نے غیر علانیہ طور پر طے کیا کہ جمہوریت کو ہرگز مستحکم نہیں ہونے دیا جائے گا۔ 1999 تک 18 وزرائے اعظم آئے اور نکالے گئے اور کوئی بھی ڈھائی سال سے زیادہ نہیں رہ سکا۔ ہمارے پڑوسی نے بنیادی صنعتیں لگائیں، قومی صنعت کار کو تحفظ دیا، درآمدات پر کڑی پابندیاں عائد کیں۔ ہم نے اس کے برعکس پالیسی اپنائی۔ ملک کو مغرب کی منڈی بنا دیا، مغربی مصنوعات کے استعمال کو وجہ افتخار سمجھا۔ آج بھی ہمارے استعمال کی زیادہ اشیاء درآمد یا درآمدی خام مال سے تیار کی جاتی ہیں۔ ہندوستان نے غیر وابستہ خارجہ پالیسی اختیار کی، ہم سیٹو، سینٹو میں شامل ہو کر مغرب کی جھولی میں جا گرے۔ پڑوسی نے تجارت (Trade ) جب کہ ہم نے امداد (Aid ) کو ترجیح دی۔ اونٹوں پر امریکی گندم کی بوریاں اور گردن میں Thank You America کی خیر مقدمی تختیاں لٹکا کر سڑک پر مارچ کیا گیا۔ 77 سال بعد ہم آج بھی امداد (Aid) پر زندہ ہیں۔ تلخ حقائق کی فہرست طویل ہے جنہیں پڑھنا اور سننا ہمیں گوارا نہیں لہٰذا ہم اس موازنے کا اختتام دو اہم نکات پر کرتے ہیں۔ ہندوستان نے تعلیم اور اس کے معیار کو بہت اہمیت دی۔ آزادی کے فوراً بعد اگست 1951 میں وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد نے، امریکا کے میساچیوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف دی ٹیکنالوجی (MIT ) کی طرز پر قائم انڈین انسی ٹیوٹُ آف ٹیکنالوجی (IIT ) کا افتتاح کر دیا تھا اور 1956 میں وزیراعظم جواہر لعل نہرو اس کے پہلے کنووکیشن کے مہمان خصوصی تھے۔ اس وقت ہندوستان کے 23 شہروں میں اعلیٰ ترین معیار کی IITs موجود ہیں جن پر سالانہ ایک ارب ڈالر سے زیادہ خرچ کیا جاتا ہے۔ ان اداروں کے پروفیشنلز کی پوری دنیا میں زبردست طلب ہے۔ ہماری جامعات کے معیار اور مالی مسائل کا تذکرہ نہ کیا جائے تو بہتر ہو گا۔ اب دوسرے نکتے کا ذکر ہو جائے۔ ہندوستان میں بدترین سیاسی اختلافات کے باوجود معاشی پالیسی کو نہ صرف جاری رکھا گیا بلکہ اسے مزید بہتر بنایا گیا۔ کانگریس کے وزیراعظم نرسمہا راؤ نے اصلاحات کا جو سلسلہ شروع کیا تھا اسے آنے والی تمام حکومتوں نے جاری رکھا۔
بنگلہ دیش کی کارکردگی بھی ہم سے کافی بہتر ہے۔ اس کی وجہ کاروبار دوست معاشی اصلاحات اور ان پر پائیدار عمل درآمد ہے۔ خالدہ ضیاء سے لے کر حسینہ واجد اور محمد یونس کی موجودہ حکومت نے معاشی پالیسیوں کا تسلسل جاری رکھا، غیر پیداواری اخراجات کو زیادہ بڑھنے نہیں دیا، انسانی وسائل کا مناسب استعمال کیا، خواتین کو روزگار دے کر با اختیار بنایا، اور سب سے بڑھ کریہ کہ اپنی آبادی کو کنٹرول کیا۔ 1971 میں بنگلہ دیش کی آبادی ہم سے زیادہ تھی جس کے تناسب سے اس کی آبادی کو آج 16 کی بجائے 26 کروڑ سے زیادہ ہونی چاہیے تھی، ذرا سوچیں اگر ہم نے بھی اپنی آبادی کم رکھی ہوتی تو اشاریوں کی صورت حال کتنی مختلف ہوتی۔
مذکورہ بالا تقابلی تجزیے سے ہماری پس ماندگی کے جو اسباب عیاں ہوئے ہیں وہ درحقیقت ہمارے اندر موجود منفی سوچ اور اس پر عمل کا منطقی نتیجہ ہیں۔ یہ منفی سوچ ہماری ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ تعلیمی نصاب میں شامل تاریخ اور مطالعہ پاکستان کے مضامین نے ہماری منفی ذہن سازی میں بنیادی کردار ادا کیا ہے جس کے باعث ہم اپنی ناکامیوں کی ذمہ داری خود قبول نہیں کرتے بلکہ اسے غیروں کی سازش قرار دے کر مکالمہ ختم کر دیتے ہیں۔
دانش کا تقاضا ہے کہ اب ہم مزید ناکام تجربے نہ کریں بلکہ ان دونوں ملکوں کے کامیاب تجربوں سے فائدہ اٹھائیں۔ ایسا تب ممکن ہو گا جب ہم اپنے اندر ”ازلی دوست اور ازلی دشمن“ کے تنگ دائرے سے نکلنے کی ہمت پیدا کر لیں گے۔ ایک بار یہ نسخہ آزما کے کیوں نہ دیکھ لیا جائے؟
- امریکہ سے تجارتی جنگ میں چین کی پیش قدمیاں - 23/04/2025
- صدر ٹرمپ کا سوال؛ جواب کسی کے پاس نہیں - 13/04/2025
- ایک بار یہ نسخہ آزما کے دیکھ لیں - 06/04/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).