ذکری نسل کشی: تاریخ کا سیاہ باب
ہوت قبیلے سے تعلق رکھنے والے مکران کے آخری حاکم ملک مرزا نے جب ذکری بلوچوں پر ظلم و ستم کا آغاز کیا تو ذکریوں نے ابو سعید بلیدی کی قیادت میں ملک مرزا کے خلاف بغاوت کر دی۔ بلیدی اور گچکی مکران میں ذکری بلوچوں کے سب سے بڑے قبائل میں شمار ہوتے تھے۔ ابو سعید بلیدی نے گچکیوں کے ساتھ اتحاد کر کے ان کی مدد سے ملک مرزا کو شکست دی۔ نتیجتاً 1613 میں مکران میں بلیدیوں کی قیادت میں پہلی ذکری ریاست قائم ہوئی۔ ابو سعید بلیدی نے کیچ کو اپنا مرکز بنایا اور پنجگور گچکیوں کے حوالے کر دیا۔
1733 میں مکران کے آخری بلیدی ذکری حکمران شہ قاسم کے دور میں خان قلات میر عبداللہ خان (نصیر خان نوری کے دادا) نے اپنی سلطنت کے توسیع کے لیے مکران پر پہلا حملہ کیا۔
میر عبداللہ خان نے مکران پر حملہ کرتے ہوئے پنجگور میں وحشیانہ لوٹ مار کی اور اسے مکمل طور پر تباہ و برباد کر دیا۔ خان کی فوج نے نہ صرف قتل و غارت گری کی بلکہ پنجگور کی ہر چیز کو نیست و نابود کر دیا۔ جب کیچ کے ذکریوں کو پنجگور کی تباہی، بے گناہوں کے خون کی ندیاں اور خان کی بربریت کی خبر ملی تو وہ خوف و دہشت کے مارے کیچ کو چھوڑ کر کلانچ (موجودہ ضلع گوادر) کے پہاڑی علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔ میر عبداللہ خان کی اس حملے نے مکران کے ذکریوں کی زندگی اجیرن کر دی اور اپنی بقا کے لیے انہیں دربدر ہونا پڑا۔ تاہم خان نے ذکریوں کا پیچھا کرتے ہوئے کلانچ پر بھی حملہ کر دیا۔ کلانچ میں ذکریوں نے خان کی افواج کے خلاف زبردست مزاحمت کی۔ چھ ماہ تک یہ مزاحمت جاری رہی۔ ذکریوں کی شدید ترین مزاحمت کی وجہ سے خان مکران پر اپنا قبضہ برقرار نہ رکھ سکے اور لوٹ مار کر کے واپس قلات روانہ ہو گئے۔
1740 تک گچکیوں نے مکران میں کافی طاقت حاصل کر لی تھی۔ سیاسی طور پر بلیدیوں اور گچکیوں کے درمیان مختلف تنازعات نے سر اٹھانا شروع کر دیا تھا۔ اسی دوران گچکی سردار ملک دینار گچکی نے آخری بلیدی حکمران شہ قاسم کے چچا شہ بلار کو قتل کروا دیا۔ اس طرح 1740 میں مکران ( کیچ، پنجگور، گوادر) میں گچکی قبیلے کے تین مختلف خاندانوں کی حکمرانی کا دور شروع ہو گیا جسے گچکی دور کہا جاتا ہے۔ پنجگور کے گچکی خاندان میں حکمرانی کی خاطر آپس کی لڑائیوں کے باعث حاکم پنجگور میر گاجیان گچکی کے خلاف میر کرم شاہ گچکی نے خان قلات میر نصیر خان نوری کو پنجگور پر حملے کرنے کی دعوت دی۔ میر نصیر خان نوری کا مکران پر یہ پہلا حملہ تھا۔ (جبکہ اس سے قبل ان کے والد اور دادا کے دور میں مکران پر حملے ہوتے رہے ہیں ) ۔ نصیر خان نوری پنجگور پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے لیکن جلد ہی انہیں پنجگور کا قبضہ چھوڑنا پڑا۔
1756 میں، میر نصیر خان نوری نے مکران پر دوسری مرتبہ حملہ کرنے کے لیے آخوند ملا محمد کی قیادت میں ایک طاقتور فوج روانہ کی اور کیچ کے مقام پر ناصر آباد کا محاصرہ کر لیا۔ خان قلات کی طاقتور فوج کے سامنے ملک دینار گچکی کی مزاحمت کا یک طرفہ خاتمہ ہوا اور ناصر آباد میں خونریز جنگ کے بعد ذکریوں کو عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ملک دینار گچکی نے افغانستان کے احمد شاہ ابدالی سے مدد کی درخواست کی تاکہ قتل عام کو روکا جا سکے۔ احمد شاہ ابدالی کی مداخلت نے نصیر خان نوری کو بے بس کر دیا اور وہ اپنے تیزی سے بڑھتے ہوئے حملے کو روکنے پر مجبور ہو گیا۔ دو سال بعد 1758 میں نصیر خان نوری نے مکران پر تیسری مرتبہ حملہ کیا۔ اس بار ذکریوں نے بے جگری سے مکران کا دفاع کیا لیکن خان قلات کے بے پناہ لشکر کے سامنے ان کی مزاحمت کسی کام نہ آئی۔ ایک بے رحم اور خونریز جنگ کے بعد ملک دینار گچکی کو گرفتار کر لیا گیا۔ ذکریوں کے حوصلوں کو پاش پاش کرنے اور ان کی عزت نفس کو مجروح کرنے کے لیے ملک دینار گچکی سے ذکری عقیدہ ترک کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ ملک دینار کے انکار اور اپنے عقیدے پر قائم رہنے کی پاداش میں ان کا قتل کر دیا گیا۔ ملک دینار کا قتل ذکریوں کے لیے ایک سنگین اور مہلک دھچکا ثابت ہوا۔ اس جبر و استبداد کے بعد ذکریوں کی زندگی اجیرن ہو گئی ان کے مذہبی عقائد پر بھی شدید حملے شروع ہو گئے۔ ذکریوں نے اپنی جان بچانے کے لیے اپنے گھروں کو چھوڑا اور پہاڑوں میں پناہ لے لی۔ ان کی مذہبی کتابیں جلا دی گئیں، ان کے عبادت خانوں (ذکرخانوں ) کو تباہ و برباد کر دیا گیا۔ اس دوران ان کے مقدس ترین مقام کوہ مراد جانے پر سخت پابندی لگا دی گئی تاکہ ذکریوں کی روحانیت اور عقیدے کو ختم کیا جا سکے۔ یہ تمام مظالم صرف جسمانی نہیں تھے بلکہ ایک مذہبی جبر کا بھی حصہ تھے جس نے ذکری کمیونٹی کو ذہنی اور روحانی طور پر بھی مفلوج کر دیا۔ خان قلات کی جانب سے یہ اقدامات ایک واضح مذہبی جبر کی صورت میں سامنے آئے جہاں ذکریوں کو ان کی بنیادی آزادیوں سے محروم کر دیا گیا تھا۔ ملک دینار کے قتل کے بعد ان کے بیٹے شہ عمر نے ذکری عقیدہ ترک کر دیا۔ خان آف قلات نے شہ عمر کو مکران کا حاکم بنا دیا۔ شہ عمر نے حاکم بننے کے بعد کیچ میں قتل و غارت گری کا دور شروع کیا۔ جو بھی ذکری عقیدہ ترک کرنے سے انکار کرتا اسے بے رحمی سے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا اور قتل کر دیا جاتا۔ اس صورتحال میں ذکریوں نے شہ عمر کے خلاف بغاوت کی اور شہ عمر کو اقتدار سے بے دخل کر دیا۔ میر نصیر خان نے دوبارہ کیچ پر حملہ کیا اور شہ عمر کو دوبارہ حاکم بنایا۔ شہ عمر نے خان قلات کے ساتھ توہین آمیز معاہدے کیے جس کے تحت مکران کی آدھی آمدنی ہر سال قلات کو جائے گی اور اس کے بدلے حکومت شہ عمر کے ہاتھ میں رہے گی۔ شہ عمر کو جلد ہی بلیدیوں نے قتل کر دیا۔ مکران میں ذکر بغاوت کو کچلنے کے لیے مزید حملے کیے گئے۔ ان حملوں نے ذکریوں کو مزید تباہی بربادی کا شکار بنایا۔ ان کے خاندان تباہ ہوئے ان کے گھروں کو خان کی فوج نے تباہ کر دیا۔ خان قلات میر نصیر خان نوری نے نے بڑی تعداد میں ذکریوں کو گرفتار اور قتل کیا اور ان کے بزرگوں کی قبروں کی بے حرمتی کی گئی۔ میر نصیر خان کے مسلسل حملوں نے نہ صرف ذکریوں کے بیشتر ریکارڈ اور متون کو تباہ کر دیا بلکہ ان کی سیاسی طاقت کو بھی مکمل طور پر ختم کر دیا۔ ان مسلسل حملوں کے بعد ، ذکریوں نے دوبارہ کبھی مکران میں طاقت حاصل نہیں کی۔
یہ تمام واقعات نہ صرف خان قلات کی غاصب حکمرانی کی نشاندہی کرتے ہے بلکہ یہ بھی ظاہر کرتے ہے کہ نصیر خان نوری نے طاقت کے زور پر مکران کی سرزمین کو ہڑپنے کی کوشش کی۔ نصیر خان نوری کیچ اور پنجگور کی زرخیز زمینوں پر قبضہ کرنے اور گوادر کی طویل ساحلی پٹی کو اپنے زیرِ تسلط لانے کا خواہشمند تھا۔ نصیر خان نوری کا مقصد صرف جغرافیائی علاقے پر قبضہ کرنا نہیں تھا بلکہ وہ مکران کی بے حد آمدنی کو اپنی خانیت کے فائدے کے لیے استعمال کرنا چاہتا تھا جو کہ قلات، خاران اور لسبیلہ کی ریاستوں سے کئی گنا زیادہ تھی۔ اس حملے کا پس منظر محض سیاسی مفادات کے لیے طاقت کا حصول اور معاشی مفادات تھے۔
ذکری نسل کشی ایک ایسا سنگین واقعہ ہے جس کی گونج آج بھی مکران کی سر زمین پر سنائی دیتی ہے۔ اس تاریخ کو جاننا اور اس پر غور کرنا نہ صرف ذکری کمیونٹی کے لیے اہم ہے بلکہ یہ عالمی سطح پر بھی مذہبی آزادی، انسانی حقوق اور انصاف کے حوالے سے ایک اہم سبق ہے۔ خان قلات کے حملوں نے مکران کی جغرافیائی، سیاسی، تہذیبی، سماجی اور معاشی صورت حال کو طویل عرصے تک تباہ و برباد اور مشکلات کا شکار بنائے رکھا۔ ان حملوں نے مکران کو ایک طویل عرصے تک پسماندگی اور تاریکی میں رکھا اور اس کی تعمیر و ترقی میں رکاوٹ پیدا کی۔ حملوں اور مقامی لوگوں کے قتل عام کے سبب مکران کو دوبارہ استحکام حاصل کرنے میں کئی دہائیاں لگیں۔ اور اس بربادی کے اثرات مکران کے لوگوں پر طویل عرصے تک برقرار رہے
- نہری نظام کی نو آبادیاتی جڑیں - 17/04/2025
- سچ کی عدالت میں دانشوروں کا مقدمہ - 12/04/2025
- ذکری نسل کشی: تاریخ کا سیاہ باب - 06/04/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).