غلامی انسانوں کی ہی نہیں سکرینز کی بھی بری ہے
ہمیں لگتا ہے کہ سکرینز نے ہمیں ارد گرد سے غافل کیا ہے، ہمیں ہمارے رشتوں سے دور کیا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ سکرینز نے ہمیں ہمارے اپنے آپ سے الگ کر لیا ہے۔
وہ وقت جو ہم نے اپنے آپ کو دینا تھا وہ بے حد خاموشی کے ساتھ سکرینز نگل گئیں۔
اس نے ہم سے ہماری ”سلا لیکوی“ چھین لی۔ ہم نے خود کلامیاں ترک کر دیں۔ ہمارا اپنے آپ سے مکالمہ ختم ہوا اور رابطہ کٹ گیا۔ ہم مصنوعی اور اختیاری قسم کی مصروفیات کے خول میں بند ہو گئے جو کسی طور چٹخنے کا نام نہیں لیتا۔
ایک مختصر دورانیے کے اندر ہم اتنی غیر ضروری معلومات، اتنا فالتو مواد ذہنوں میں ٹھونس لیتے ہیں کہ اصل مواد مل بھی جائے تو اس لمحے تک اعصاب اتنے غیر فعال اور بے لچک ہو چکے ہوتے ہیں کہ دماغ اس معلومات کو پراسیس کرنے، اس پر غور اور اس کا تجزیہ کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔ وہ بے حسی سے اسے دیکھتا ہے اور گزار دیتا ہے۔ (بالکل ویسے ہی جس طرح ایک ایسا بچہ جس نے ابھی تک پڑھنا نہیں سیکھا، کسی کتاب کے صفحے پلٹے۔ وہ تصویریں دیکھتا جائے، ان سے محظوظ ہو، لیکن جہاں تحریر آئے وہ بے تفہیمی کی نظر ڈال کر آگے بڑھ جائے۔ اس پر کسی قسم کے غور کرنے کی نوبت نہ آئے۔ غور کرے بھی تو حقائق تک پہنچ نہ پائے )
یہ بھی سننا، وہ بھی دیکھنا، آدھی پونی ہر پوسٹ پڑھنا، ادھر لاگ ان، وہاں چیک آؤٹ، یہ سرفنگ، وہ براؤزنگ۔ یہ سب وقفے وقفے سے بھی کیا جائے تو بھی رات تک دماغ کا کباڑا ہو چکا ہوتا ہے۔ اسے اصل میں کیا جاننا ہے وہ بھلا چکا ہوتا۔ دن بھر اسی سرگرمی میں مشغول رہنے والوں سے آپ ان کے سونے سے پہلے اتنا پوچھ لیں کہ آج دن بھر موبائل پر کیا کچھ دیکھا، آج اس سے کیا سیکھا، کیا پڑھا؟ اس کا ایک جامع خلاصہ بتائیں تو اول تو بتا نہیں سکیں گے، کیوں کہ کون سا دماغ نے اس پر ٹھہر کر دھیان دیا تھا۔ بتا بھی دیا تو اس میں کوئی معقول چیز نہیں ہو گی۔
ان کو لگتا ہے کہ وہ ہر فیصلہ اپنی مرضی سے لے رہے ہیں لیکن اصل میں پیچھے کوئی اور ہی قوت کارفرما ہوتی ہے۔ ان کی رائے، ان کے اپنے نظریات ناپختہ، کہیں سے مستعار یا متاثرہ ہوتے ہیں۔ ذہن کی شکل اور طرز فکر بدل چکا ہوتا ہے۔
وہ کچھ دیکھتے ہیں تو بلا توقف، بنا سوچے خرید ڈالتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے یہی ان کی پسند تھی۔ جب کہ ایسا نہیں تھا۔ سکرینوں پر چلتی تصاویر نے ان کا ذہن ایسا کر دیا کہ انہیں لگا ہمیں یہی چاہیے، یہی ہماری ضرورت ہے۔ مگر حقیقت میں وہ ان کی ضرورت نہیں تھی، پسند بھی نہیں تھی۔
افلاطون نے آئیڈیل ازم کی وضاحت کی تو اس میں ایک جملہ استعمال کیا:
”Imitation of imitation“
دوسرے الفاظ میں کاپی آف دا کاپی (نقل کی نقل) ، سیاق و سباق کو منہا کر کے اس جملے کو اپنی سکرین لائف پر منطبق کریں۔ کیا کہیں اصلیت، خالصیت، اوریجنیلٹی نام کی کوئی چیز ہے یا سارا جہانِ سکرین بس نقل در نقل کے بریک لیس سفر پر گام زن ہے؟ آپ کو نہیں لگتا کہ لفظ ٹرینڈ اسی بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے؟
اسی اندھا دھندی نے سچ اور جھوٹ کی اتنی نقلیں مرتب کر دی ہیں کہ سچائی تک پہنچنا ہی قریب بہ نا ممکن ہو چکا۔ اتنی آرا، اتنے ورژن، اتنا مواد۔ اگر ان کے درمیان سچ کا کہیں کوئی وجود ہے بھی تو تلاش کیسے ہو؟ کون چھانٹے اتنی کاپیاں، اتنی نقلیں؟ جھوٹے بیانیوں سے تقابل کرنے کا وقت کس کے پاس ہے؟
آپ مانیں بھلے نہیں مانیں مگر یہ جادوئی آئینہ یا جام جمشید جس کے سحر میں ہم گرفتار ہیں یہ ہمیں ہماری ہی زندگیوں میں ”ان اتھارائزڈ“ کر چکا ہے۔ یہ ہمارے لیے اخبوط (ہشت پا) بن چکا ہے۔
پہلے پہل سکرینز نے ہمارا وقت چرایا۔
پھر ذہنی سکون غارت کیا۔
اب ہمیں ہی ہم سے الگ اور بے تعلق بنا دیا ہے۔
تنہائی وہ واحد مقام تھا جہاں ہم ہمارے ساتھ ہوتے تھے۔ وہ ہماری پرسنل سپیس تھی۔ اب وہاں بھی سکرینز داخل ہو گئی ہیں اور ہم بے دخل۔ اور تو اور یہ بابرکت سکرینز وہاں تک آ گئی ہیں جہاں بس بندہ ہونا چاہیے اور بندے کا رب۔ یہ حرم کعبہ میں بھی ساتھ ہیں اور انسان کے خالص اور اہم ترین لمحات ضائع کروانے میں شریک ہیں۔
ہم کیا کر سکتے؟
ہم یہ کر سکتے ہیں کہ کسی بھی ایپ کو ایک دن میں طے شدہ وقت سے زیادہ استعمال نہ کریں۔ فضول ویب سائٹس کی سبسکرپشن ختم کر دیں۔ ای کامرس ویب سائٹس جو انٹرنیٹ پر خواتین کی پسندیدہ جگہ ہے، ان کے نوٹیفیکیشن بند رکھیں۔ فالتو میں سیل آن ہے کا پاپ اپ دیکھ کر وہاں لڑھکنے سے پرہیز کریں۔
ہم یہ کر سکتے ہیں کہ روزانہ کم سے کم دو سے اڑھائی گھنٹے اس سے معلوم اور طے شدہ دوری اختیار کریں۔ اس دوران ہم ہوں، ہمارا دل ہو، اس کی آواز اور ہمارے کان ہوں۔
ہم یہ بھی کر سکتے ہیں کہ جب بھی موبائل ہاتھ میں لیں شعوری طور پر خود سے چند سوالات کریں :
میں نے فون ہاتھ میں کیوں لیا؟ (اسے اَن لاک کس مقصد سے کر رہا ہوں؟ )
اور مجھے وہ کام (کال/ٹیکسٹ/سٹوری ویو) کرنے میں کتنی دیر لگے گی؟ اس مجوزہ وقت کو نوٹ کریں، ذہن کو الٹی گنتی پر لگائیں، کام مکمل کریں اور فون دوبارہ لاک کر دیں۔ تھوڑا سا اپنے آپ کو، اپنے ہونے کو سہنا سیکھیں۔ اپنے آپ کو برداشت کرنے، اپنا سامنا کرنے کا حوصلہ پیدا کریں۔
یہ آپ کا ذہن ہے، اور آپ کی زندگی ہے، اس میں اور کسی بے پتوار کی کشتی میں کوئی فرق ہونا چاہیے۔
- انقلاب کی بنیاد شعور ہے - 25/04/2025
- افلاطون کی غار کی کہانی- کیا ہم اسیرِ غار ہیں؟ - 21/04/2025
- آخر ہم کب تک عقل دشمنی کرتے رہیں گے؟ - 16/04/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).