نہری نظام کی نو آبادیاتی جڑیں
پاکستان میں سندھو دریا پر کینالز کی تعمیر کا معاملہ، سیلاب سے گاؤں دیہات کا اجڑنا، سمندر کا زمین کو نگلنا، سطح سمندر کی بلندی، خشک سالی، انڈس ڈیلٹا کی تباہی، پانی پر ہونے والی سیاست اور دیگر ماحولیاتی تباہی و وہ بربادی کے نو آبادیاتی پس منظر اور منصوبوں کو سمجھنا اس لیے ضروری ہے کہ یہ منصوبے کس لیے تشکیل دیے جاتے ہیں اور یہ کن قوتوں کے مفادات کو پورا کرتے ہیں۔
پاکستان میں اکثر سیلاب گاؤں کے گاؤں تباہ و برباد کر دیتے ہیں جس سے مقامی آبادی اپنے گھروں سے بے دخل ہو کر شدید غربت، محتاجی اور مہاجرین کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ یہ تباہی محض قدرتی آفات کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے وہ سامراجی حکمت عملی بھی ہے جو برطانوی نو آبادیاتی دور میں اپنائی گئی تھی۔ عالمی ماحولیاتی بحران اور موسمیاتی تبدیلیوں کے علاوہ پاکستان میں آج جو تباہی اور بربادی سیلابِ کی صورت میں سامنے آتی ہے اس میں برطانوی نو آبادیاتی حکومت کی پالیسیوں کا ایک اہم کردار ہے۔
نو آبادیاتی حکومت نے مقامی جاگیرداروں اور قبائلی سرداروں کے ساتھ اتحاد قائم کرنے اور ان کی وفاداری حاصل کرنے کے بدلے میں نہری نظام، بیراجوں کی تعمیر اور آبی ڈھانچوں کے ذریعے قدرتی آبی وسائل کا استحصال کیا۔ ان آبی ڈھانچوں کا مقصد صرف انگریز سرکار کی زمینوں کی آبادکاری اور جاگیرداروں کے مفادات کو تقویت دینا تھا نہ کہ عوام کو فائدہ پہنچانا تھا۔ دریاؤں کے قدرتی بہاؤ کو روک کر اور ان کے راستوں کو بدل کر برطانوی سامراج نے مقامی عوام کو ان کے ہی قدرتی وسائل سے محروم کیا اور ان زمینوں کو وفادار جاگیرداروں اور سرداروں کے درمیان تقسیم کر کے عوام کو تباہی و بربادی کے دہانے پر پہنچا دیا۔
برطانوی سامراج نے اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے دریاؤں اور ان کے ارد گرد کی زمینوں کو وفادار جاگیرداروں میں تقسیم کیا اور مقامی عوام کو سیلاب جیسی قدرتی آفات کا شکار بنایا۔
پاکستان میں انگریزوں کے جس نہری نظام کی تعریف کی جاتی ہے تو اس حوالے سے یہ بات واضح رہے کہ انگریزوں نے پنجاب میں اس وقت تک کوئی نہر نہیں کھودی جب تک کہ اس کا منافع بخش ہونا پہلے سے ثابت نہ ہو چکا ہو۔ نہری نظام کے بعض منصوبے شروع کے ہی سال میں 40 فیصد منافع دینے لگے اور صرف دو تین سال کے اندر ہی اپنی لاگت پوری کر لی۔ یہ تمام منافع مقامی کسانوں سے مالیہ اور آبیانہ کے ذریعے وصول کیا جاتا تھا، جو برطانوی سامراجی لالچ کا واضح مظہر تھا۔
آج تک پاکستان کے غریب عوام ان نو آبادیاتی سامراجی پالیسیوں اور وراثتوں کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ شوزیب رضا اپنے مضمون The Colonial Origins of Pakistan ’s Floods (Red Pepper) میں نشاندہی کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے 1849 میں پنجاب پر قبضہ کرنے کے بعد بلوچ ڈیرہ جات کے علاقے ڈیرہ غازی خان کو پنجاب میں ضم کر دیا اور اس رہن سہن، طرز زندگی، رہائش اور بود و باش کے قدرتی نظام کو مسمار کر دیا جو بلوچ اور دیگر خانہ بدوش قبائل نے صدیوں سے ڈیرہ غازی خان کی سیلابی زمینوں پر قائم کیا تھا۔ ان قبائل کی موسمی نقل مکانی، عارضی رہائش اور خود انحصاریت ایسٹ انڈیا کمپنی کے سامراجی مفادات کے لیے ایک بڑا چیلنج بن گئی تھی کیونکہ یہ نظام ان کے منافع کی راہ میں رکاوٹ تھا۔ اسی لیے کمپنی نے مقامی سرداروں (جنہیں بعد میں زرعی زمینوں کے ذریعے جاگیردار بنایا گیا ) کے ساتھ مل کر سندھ طاس میں مستقل آبادکاری (لوگوں کی مستقل رہائش) کا نظام مسلط کیا تاکہ زمین کی آمدنی اور نقد فصلوں سے منافع کمایا جا سکے۔ اس نظام نے سیلاب کو صرف ایک قدرتی آفت نہیں بلکہ ان لوگوں کے لیے ایک مستقل عذاب بنا دیا جنہیں زمینوں پر کھیت مزدوری اور مستقل رہائش پر مجبور کیا گیا حالانکہ ان کے پاس سیلاب سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ 1857 میں ڈیرہ غازی خان میں سیلاب نے پورے گاؤں، مویشیوں اور فصلوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ یہ تباہی دراصل کمپنی کی نو آبادیاتی پالیسیوں کا نتیجہ تھی جنہوں نے مقامی عوام کو اپنی سرزمین سے بے دخل کیا اور آج تک ان پر تباہی کے یہ اثرات جاری ہیں۔ بعد میں آنے والے سالوں میں جب یہ بند ٹوٹے تو اس کے نتیجے میں نہ صرف مقامی افراد سیلاب کی زد میں آئے بلکہ ڈیرہ غازی خان شہر مکمل تباہ و برباد ہو گیا۔
جب سیلاب نے مستقل آبادیوں کو خطرے سے دوچار کیا تو نو آبادیاتی منافع بھی داؤ پر لگ گیا۔ اس بحران کے پیش نظر برطانوی حکومت نے ڈیرہ غازی خان کے علاقے میں دریائے سندھ پر بند باندھنے کا فیصلہ کیا۔ یہ اقدام اس لیے اٹھایا گیا تاکہ نہ صرف سیلاب کے اثرات کو کم کیا جا سکے، بلکہ مقامی زمینوں سے حاصل ہونے والی آمدنی اور نقد فصلوں کے ذریعے ہونے والے منافع کو بھی محفوظ رکھا جا سکے۔
برطانوی سامراجی مفادات کے تحت بنائے گئے ان بندوں کی تعمیر کے دوران مقامی علم و دانش کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا۔ ان بندوں نے نہ صرف مقامی زمینوں کی قدرتی آبی ضروریات کو نظرانداز کیا بلکہ سیلاب کے اثرات اور تباہ کاریوں کو مزید بڑھا دیا۔ ان بندوں کی تعمیر نے دریائے سندھ کی قدرتی صلاحیت کو برباد کر دیا جو قدرتی طور پر اپنی سطح بلند کر کے سیلاب کو روکنے کا کام کرتا تھا۔ بندوں کی تعمیر نے دریا کے قریب مٹی کو نیچے کی طرف دھکیل دیا جس سے مقامی لوگوں کی صدیوں پرانی زرعی زمین اور ان کی معیشت تباہ ہو گئی۔ یہ بند ایک سامراجی چال تھے جس کا مقصد مقامی عوام کے قدرتی طریقہ زندگی کو تباہ کرنا تھا تاکہ زمین کی آمدنی اور نقد فصلوں سے زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کیا جا سکے۔ جب آپ فطرت کے نظام سے چھیڑ چھاڑ کرتے ہیں تو پھر فطرت بھی اپنا حساب لیتی ہے۔
اپنے سامراجی مفادات کو تحفظ دینے اور ڈیرہ جات میں مقامی قبائل کی طرف سے کسی بغاوت یا شورش کو دبانے کے لیے نیز جاگیرداروں پر بھی دباؤ برقرار رکھنے کے لیے برطانوی حکومت نے 1904 میں بارڈر ملٹری پولیس کی تشکیل کی۔ یہ فورس برطانیہ کے نو آبادیاتی دور میں مقامی عوام کی مزاحمت کو کچلنے اور اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے بنائی گئی تھی۔ آج بھی یہ پولیس اپنی نو آبادیاتی ماضی کو دہراتی ہوئی انہی مقاصد کے لیے کام کر رہی ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ برطانوی سامراج کے بنائے گئے ادارے اور نظام آج تک مقامی عوام پر اپنے اثرات قائم رکھے ہوئے ہیں۔
انڈیا کی تقسیم کے بعد پاکستان میں بند، بیراج اور ڈیمز کی تعمیر کا نو آبادیاتی ورثہ نہ صرف جاری رہا بلکہ اس کا اثر مزید گہرا اور تباہ کن ہو گیا۔ 1950 کی دہائی سے پاکستان کے سیاسی رہنماؤں خاص طور پر جاگیرداروں اور سرداروں نے یورپی کمپنیوں کے ساتھ مل کر دریائے سندھ کے طاس کے آبی ذخائر کو اپنی مرضی کے مطابق قابو کرنے کی کوشش کی۔ یہ عمل نہ صرف قدرتی وسائل پر قبضے کا تھا بلکہ غریب کسانوں کو مزید مفلسی کی دلدل میں دھکیلنے کا منصوبہ تھا۔ ڈیموں، بیراجوں، نہروں اور لنک نہروں کا جو وسیع سلسلہ بنایا گیا وہ صرف اقتدار اور دولت کو چند ہاتھوں میں مرتکز کرنے کا ایک اور سیاسی حربہ تھا۔
1958 میں تونسہ بیراج کی تعمیر اور 1960 کی دہائی میں منگلا اور تربیلا ڈیمز کی تعمیر کا عمل مکمل طور پر بیرونی کمپنیوں کی مدد سے کیا گیا جن میں برطانوی، امریکی، فرانسیسی اور اطالوی انجینئرنگ اور تعمیراتی کمپنیاں شامل تھیں۔ یہ کمپنیاں صرف اپنے لیے منافع کمانے آئی تھیں اور انہوں نے پاکستان کی قدرتی دولت کا استحصال کیا۔ ان تمام تعمیرات میں جاگیرداروں کی زمینوں کا خاص خیال رکھا گیا تاکہ انہیں کوئی نقصان نہ ہو جبکہ چھوٹے کسانوں کو اس منصوبے کا بوجھ اٹھانے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ ان ڈیموں کی تعمیر کے ذریعے ایک طرف جہاں طاقتور طبقے کی زمینیں محفوظ کی گئیں وہاں دوسری طرف لاکھوں کسانوں کی زندگی اجیرن ہو گئی اور ایک بہت بڑی عوامی بے دخلی بھی نظر آئی جس کا سامنا غریب طبقے کو اپنے گھروں اور زمینوں سے بے دخل ہو کر کرنا پڑا۔ یہ بے دخلی ایک طرف تو زمین سے محرومی کا باعث بنی دوسری طرف ان لوگوں کو اپنی زندگی کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
اس انفراسٹرکچر کی تعمیر نے نہ صرف سیلاب کے خطرے کو بڑھا دیا بلکہ حکومت اور جاگیردار طبقے کے مفادات کی تکمیل کے لیے یہ منصوبے ظلم و زیادتی کا ایک اور حربہ بن گئے۔ مقامی جاگیرداروں نے اپنی زمینوں کو محفوظ رکھا یورپی کمپنیوں نے کھربوں روپے کا منافع کمایا اور امریکی حکومت نے ترقی کے نام پر پاکستان میں ایسے منصوبے شروع کروائے جس کا مقصد ملک کو قرضوں کے جال میں پھانس کر مغربی طاقتوں کا غلام بنانا تھا۔
نو آبادیاتی بیانیہ ہمیشہ سے نہری نظام اور بیراجوں کی تعمیر کو ایک کامیابی کے طور پر پیش کرتا آیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سب صرف ایک دھوکہ تھا۔ یہ آبی ڈھانچے نہ صرف قدرتی وسائل کا بے رحمی سے استحصال تھے بلکہ نو آبادیاتی حکومت کی سیاسی حکمت عملی کا حصہ تھے جس کا مقصد مقامی عوام کو محکوم اور بے بس بنانا تھا۔ بدقسمتی سے آج بھی پاکستانی عوام اس جھوٹے بیانیے کو سچ سمجھنے کی غلطی کر رہے ہیں۔
- انڈس واٹر ٹریٹی: ایوبی آمریت، آبی غلامی، انڈیا اور بین الاقوامی قانون - 09/05/2025
- سماجی جبر ریاستی جبر سے زیادہ خطرناک ہے - 08/05/2025
- اردو بولنے والوں کی گمشدہ آواز: شناخت کا بحران - 03/05/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).