موسم بہار کی آخری مہم۔ مائی والی پہاڑی سے کنہٹی گارڈن


تلاجھا قلعہ، اکراند قلعہ، امب ٹیمپل، کوئی نہیں جانتا یہ کس نے بنائے یہ کیسے تباہ ہوئے، یہاں ہندو شاہی کے آثار بھی ملتے ہیں اور ان سے زیادہ قدیم بدھ مت کے نشان بھی موجود ہیں۔ اسراروں بھری اس وادی میں ایک اور ایسی ہی جگہ ہے جسے مائی والی ڈھیری کہتے ہیں جس کے بارے میں کوئی نہیں جانتا کہ اس کا یہ نام کیسے پڑا یہاں کون دفن ہے اسے کس نے دفن کیا یہ کس قبیلے سے تھی۔ اس کے بارے میں کئی روایات موجود ہیں لیکن حقیقت کسی میں بھی دکھائی نہیں دیتی۔

گول سر والی یہ پہاڑی وادی سون کے بیشتر علاقوں سے دکھائی دیتی ہے۔ کھبیکی جھیل سے مردوال کی جانب چلیں تو شمال کی جانب ٹوپی والے برقعے کی مانند یہ پہاڑی چوٹی مسلسل دکھائی دیتی ہے اور بالآخر دیکھنے والے یہ پوچھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ یہ کیا ہے اور کہاں پر ہے؟

اور اس بار ٹریکرز جا رہے تھے مائی والی ڈھیری، جہاں سے مشہور زمانہ کنہٹی گارڈن تک کا ٹریک ان کا منتظر تھا۔ بظاہر آسان اور قریب دکھائی دینے والا یہ ٹریک 17 کلومیٹر طویل تھا۔ ٹیم کا سات ماہ میں یہ آٹھواں ٹریک تھا۔

مردوال میں ملک عرفان اعوان، ملک فاروق، ملک اللہ بخش اور ماسٹر فرید صاحب نے ٹیم کا استقبال کیا۔ قریبی ڈیرے پر گاڑیاں پارک تھیں۔ نوجوان ٹریکر ایک دوسرے کو چھیڑ رہے تھے پچھلی مہمات کی دلچسپ باتیں یاد کی جا رہی تھیں۔ سبھی بہت پرجوش تھے۔ پرانے ساتھیوں محمد ارشد اعوان، ملک محمد علی اعوان، بلال مقصود، عدنان احسن ملک، محمد دانش بٹ، محمود ملک، احمد ملک ہائیک ٹرپ کے روح رواں سدا بہار مسکراہٹ لئے ملک عدنان عالم اعوان کو جپھیاں ڈال رہے تھے اور کوشش میں تھے کہ عدنان بھائی ان سے خوش ہو کر انہیں یہ اطلاع دیں کہ اس مہم میں پہاڑوں پر بہت زیادہ چڑھائی نہیں چڑھنا ہو گی، دھوپ بہت تیز نہیں ہو گی بلکہ موسم کافی خوشگوار ہو گا۔ اور عدنان بھائی سب سے بہت محبت سے مل رہے تھے۔ یہ سب جوان ان کی امیدوں پر پورا اترے تھے۔ وادی سون میں 8 مہمات کوئی آسان کام نہیں۔ اس بار دو نئے ساتھی بھی شامل تھے عابد اعجاز جو اسلام آباد سے تشریف لائے اور دوسرے قاضی اشفاق حسین جو نوشہرہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ٹیم ان ممبران کی مشکور ہے جنہوں نے ٹریکنگ کے لئے ہمارا ساتھ دیا۔

مردوال سے مائی والی ڈھیری تک لے جانے کا فریضہ عدنان بھائی کے ایک دوست سجاد حسین نے سرانجام دیا۔

یہ اتفاق ہے کہ آج کے ٹریک کی دونوں اہم جگہوں سے میری بہت بیش قیمت یادیں وابستہ ہیں۔ مائی والی ڈھیری کے پاس میری ننھیال کے مکانات ہیں۔ جب بھی گرمی کی چھٹیاں ہوتیں ہماری والدہ صاحبہ ہمیں یہاں لے آتیں اور ہم موسم گرما کے تین طویل مہینے اپنے بہت سے کزنز کے ہمراہ یہاں کے خوشگوار موسم میں گزارتے۔ بے شمار گرمیاں ہم نے یہاں ایک پہاڑ سے دوسرے پہاڑ پر چڑھتے گذار دیں۔ اب بھی میرے ماموں اور خالہ اپنے خاندان کے ساتھ یہیں آباد ہیں۔ مائی والی ڈھیری کے آس پاس سبھی زمینیں ان کی ہیں۔ اسی طرح کنہٹی گارڈ ن پچھلی صدی کی چوتھی دہائی میں آباد کیا گیا۔ میرے دادا میاں ہدایت اللہ خان ضلع شاہپور میں فاریسٹ آفیسر تھے۔ انگریز میجر کے ساتھ ملکر انہوں نے کنہٹی گارڈن کو آباد کیا۔

جب ٹیم مائی والی ڈھیری میں سٹارٹنگ ٹریک پر پہنچی تو مائی والی ڈھیری کو دیکھ کر ایک بار ٹیم حیران ہی رہ گئی۔ ایسی گول مخروطی پہاڑ کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ ٹیم نے بہتر آغاز کے لئے مائی والی ڈھیری کو سر کرنے کا فیصلہ کیا۔ بظاہر آسان دکھائی دینے والی چڑھائی نے سب کے سانس پھلا دیے لیکن ٹاپ پر پہنچ جانے کے بعد جو منظر سامنے آئے اس نے ٹیم کو ایک دم سے تازہ دم کر دیا۔ مائی والی ڈھیری ٹاپ سے نمل جھیل، اوچھالی جھیل اور کھبیکی جھیل بیک وقت دیکھی جا سکتی ہیں۔ شمالی جانب پوٹھوہار کا کٹا پھٹا مخصوص علاقہ بھی دکھائی دیتا ہے۔ سرسبز پہاڑیاں دلکش منظر پیش کرتی ہیں۔ یہاں سے ٹیم اندازے لگاتی رہی کہ اس مرتبہ ہمارا روٹ بہت عمدہ ہے۔ کچھ دیر تصویریں بنانے کے بعد یہاں سے نیچے اترے۔ اور یہیں سے مشرق کی جانب اپنا سفر شروع کیا۔ آس پاس گھنی جھاڑیاں تھیں اور مہم جو تھے۔ کچھ دیر یونہی چلے پھر کھلے میدان میں آ نکلے۔ عدنان بھائی نے کچھ ویو پوائنٹ مختص کیے تھے جہاں سے وادی کے دلکش مناظر دیکھے جا سکتے تھے لیکن یہاں جو ویو پوائنٹ سامنے آیا وہ ایک مخروطی چٹان تھی۔ ٹیم نے اس کے چاروں جانب گھوم کر دیکھا۔ علی بھائی جو بہت پھرتیلے ٹریکر ہیں انہوں نے اس پر چڑھنے کی کوشش بھی کی لیکن یہ ایک ایسی مخروطی چٹان تھی جس پر چڑھنا بھیڑ بکریوں کے لئے بھی مشکل تھا۔ دانش بٹ اور عدنان جونئیر نے ان کا انتظار کرنے کا مشورہ دیا۔ اور بالآخر فیصلہ یہی کیا گیا کہ یہاں خود کو تھکانا بے سود رہے گا۔ یہ مشقت آگے چل کر کی جائے گی یہاں ایک ڈیرہ بھی تھا جہاں پانی پیا گیا اور ڈیرے والوں کو دعا دی گئی۔ یہاں سے چلے تو پھر ایک گھنا جنگل تھا۔

موسم بہت خوشگوار تھا بادل چھائے ہوئے تھے اور ٹریکر خوش گپیوں میں مگن تھے۔ طویل ٹریکنگ میں یہ ہوتا ہے کہ آپ بہت سے لوگوں میں سے اپنی پسند کے ساتھی منتخب کر کے ان سے گپ شپ لگاتے ہیں۔ گپ شپ کا موڈ نہ ہو تو کسی بہانے پیچھے رہ جاتے ہیں اور تنہائی میں گردونواح کے حسن کو انجوائے کرتے ہیں۔ کچھ ہی دیر بعد دوسرا ویو پوائنٹ آ گیا۔ یہاں بھی ایک ڈیرہ تھا جس کے ساتھ ادھر اودھر کافی چھوٹے موٹے ڈیرے بکھرے ہوئے تھے۔ اور کاشت شدہ زمینیں دور تک دکھائی دے رہی تھیں۔ وادی سون میں ہموار زمین کم ہوتی ہے اور جہاں ہو وہ آباد ضرور کی جاتی ہے۔ وادی سون کے کسان زمین میں ہل چلا کر بیج ڈال دیتے ہیں اور پھر بارش کا انتظار کر تے رہتے ہیں بارش ہو جائے تو نہایت شاندار فصل اٹھاتے ہیں اور بارش نہ ہو تو نہایت صبر شکر کے ساتھ اگلے موسم کا انتظار کرتے ہیں۔ ویو پوائنٹ سے وہی منظر سامنے آئے جو پہلے دور سے دیکھے جا رہے تھے۔ یہاں نہایت چھوٹی چھوٹی ہموار پہاڑیاں تھیں جن کو مقامی زبان میں ڈھکی کہتے ہیں۔ سنتھے کی سرسبز جھاڑیوں سے ڈھکی ہوئی۔ ارشد بھائی تصویریں بنانے میں مگن تھے۔

یہاں سے چلے تو بیر کا ایک درخت دکھائی دیا۔ جنگل میں ہونے کی وجہ سے درخت بیروں سے بھرا ہوا تھا۔ یہاں سب کو اپنا بچپن یاد آیا۔ پتھر مار کر بیر گرانا یا د آیا۔ اور ہمیں مکیش کا یہ شاندار نغمہ یاد آیا کہ۔ آیا ہے مجھے پھر یاد وہ ظالم، وہ گذرا زمانہ بچپن کا، ہائے رے اکیلے چھوڑ کے جانا اور نہ آنا بچپن کا۔ اور پھر ٹیم یوں منظر پیش کرنے لگی کہ ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز۔ نہ کسی کو اپنے گریڈ یاد رہے اور نہ کسی کو اپنے زمینوں کے مربعے یاد رہے۔ چھوٹے چھوٹے پتھر مار کر بیر گرائے گئے زمین سے چُن کر بیرکھائے گئے۔ بیر سے جڑی داستانیں یاد کی گئیں۔ اور پھر سفر شروع ہوا۔ اب کے بار سب نہایت خوش تھے ۔ عدنان بھائی کا فوکس قدرتی مناظر تھے جو ابھی تک کسی کیمرے کی زد میں نہیں آسکے تھے۔

ٹیم نے ایک دلچسپ جگہ دیکھی اور اس کی جانب لپکی ۔ رستے سے قدرے بلندی پر مقامی چرواہوں نے بارش اور موسم کی سختیوں سے بچنے کے لئے چھوٹے چھوٹے پتھروں سے ایک ہٹ بنائی ہوئی تھی جس کی چھت پر سنتھے کی جھاڑیاں رکھی گئی تھیں۔ علی بھائی اور عدنان بھائی فوراً ہٹ میں گھس گئے اور۔ ہٹ میں بس اتنی ہی جگہ تھی۔ باقی ٹیم کی خوش قسمتی تھی کہ گھنے بادل چھا گئے، ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگیں۔

اور پھر یوں ہوا کہ ایک دوست نے وہ کارنامہ کر دکھایا کہ جس کے بارے میں سرور بارہ بنکوی نے کبھی ایک شعر کہا تھا

جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں

اور یہاں ہم نے ایسے ہی ایک دوست کو دیکھا۔ چیچہ وطنی سے بھی پرے، مشہور زمانہ ” تلمبہ ” سے بھی آگے ایک قصبہ ہے جس کا نام ہے میاں چنوں، ضلع ہے خانیوال۔ وہاں کی برفی بہت مشہور ہے۔ پیلے رنگ کی۔ نہایت لذیذ اور ذائقے دار، شوگر کا مریض کھائے تو صحت مند ہو جائے۔ اور ملک محمد علی نے اپنا بیک پیک کھولا اور برفی کا ڈبہ نکالا۔ اور سب ٹریکرز کو برفی پیش کی۔ وادی سون کے اس ویران پہاڑی ہٹ پر میاں چنوں کی یہ سوغات۔ خدا کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے۔ اور یہ تو محض ٹریلر تھا۔ برفی سے دو دو ہاتھ کرنے کے بعد علی بھائی نے بیگ سے ایک تھرمس نکالا۔ اور تھرمس میں کیا تھا۔ گرما گرم چائے۔ آج کل چائے کے بغیر گذارا نہیں۔ اور ٹریکرز جب پہاڑوں پر کافی گھوم چکے ہوں اور سچ مچ گھوم چکے ہوں اور ایسے میں چائے مل جائے تو یہی کہتے ہیں کہ تم جیو ہزاروں سال۔ شکریہ علی بھائی۔

چھاؤں جتنی بھی گھنی ہو مسافر کو وہاں سے جانا ضرور ہوتا ہے۔ ٹیم بھی یہاں سے روانہ ہوئی۔ دور تک کھیت ہی کھیت دکھائی دیتے تھے وہاں سے نکلے تو پھر ہلکا پھلکا جنگل تھا جس سے ٹیم گذر رہی تھی کافی دیر سے کوئی بندہ نہ بندے کی ذات ہمیں دکھائی دی تھی۔ یہاں قدرے بلندی پر ایک ڈیرہ تھا جہاں سے کچھ خواتین نے ہمیں دیکھا۔ نہ جانے انہوں نے کیا سمجھا۔ اور کچھ ہی دیر میں کتے بھونکتے ہوئے ہمارا راستہ روکنے لگے۔ ٹیم ایدھر اودھر بکھر سی گئی۔ ڈیرے سے کچھ جوان اترے۔ جھاڑیوں کے پیچھے اپنا آپ چھپاتے ہوئے ہم سے پوچھتے ہیں کہ ہم کون ہیں اور یہاں کیا کرنے آئے ہیں؟ جب ٹیم نے اپنا تعارف پیش کیا اور کچھ سوال و جواب ہوئے تو وہ مطمئن ہو کر سامنے آئے۔ ٹیم کو پانی و کھانے کی دعوت دی۔ اپنی کچھ مجبوریاں بتائیں۔ ٹیم نے ان کی گستاخیوں کو نہایت فراخدلی سے معاف کر دیا کہ اور کوئی چارہ نہ تھا۔ ان سے رستہ پوچھا گیا۔ ٹیم کا اندازہ تھا کہ یہ سامنے والی پہاڑی کے پیچھے کنہٹی گارڈن ہونا چاہیے۔ ان صاحب نے بتایا کہ اس پہاڑی کے پیچھے اس جیسی ایک اور پہاڑی ہے جس کے بعد دو پہاڑیاں اور ہیں اور پھر کنہٹی گارڈ ن ہے۔ ٹیم گننے لگی کہ یہ کُل کتنی پہاڑیاں ہو گئیں۔ کسی نے کہا کہ دو کسی نے کہا تین اور عدنان بھائی مسکراتے رہے۔ بالآخر فیصلہ کیا گیا کہ یہ مقامی ہمیں تنگ کرنے کی کوشش میں ہے اور ہم نے اتنا سفر طے کر لیا تو اب سامنے ہی کنہٹی گارڈن ہے۔

اب ایک ہموار میدان ہمارے سامنے تھا۔ ابھی تک سارا سفر نہایت آرام سے گذرا تھا۔ سامنے ایک پہاڑ تھا جس کے ایک طرف سے ہو کر ہم نے نیچے جانا تھا لیکن عدنان بھائی نے بروقت ہمیں اطلاع دی اور یہ اطلاع کچھ زیادہ اچھی نہ تھی۔ کہ وہ جو سامنے پہاڑ ہے اس کی بیس میں غور سے دیکھیں تو ایک رستہ دکھائی دے رہا ہے جو پہاڑ پر چڑھتا جا رہا ہے اور ہم نے اس رستے پر جانا ہے۔ سورج اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا عدنان بھائی کی بات سن کر گرمی کچھ زیادہ لگنے لگی۔ پہاڑ کے قریب پہنچے۔ رستہ کیا تھا ایک باریک سی پگڈنڈی تھی جو اوپر ہی اوپر جا رہی تھی اور اسی پر جانا تھا۔ خدا ہی جانتا ہے کہ ٹیم ممبران کس طرح گرتے پڑتے اس پہاڑ کے اوپر پہنچے۔ مقامی حضرات نے کہیں کہیں سہولت کے لئے سیڑھیاں سی بنا رکھی تھیں۔ اوپر پہنچے تو امید یہی تھی کہ نیچے کنہٹی گارڈن ہو گا لیکن نیچے کچھ نہ تھا۔ بس ایک دیوار سی تھی دوسری جانب بھی ایسی ہی اونچی نیچی پہاڑیاں تھیں ۔ اور بہت بلندی پر ٹیم تھی۔ یہاں پر ہمارے کچھ دوستوں نے تصویر یں بنوائیں جن کو اب دیکھیں تو وہ خود بھی ڈر جاتے ہیں کہ ہم نے کہاں بیٹھ کر یا کھڑے ہو کر تصویریں بنوائیں۔

یہاں پر کھبیکی سے کنہٹی جانے والا روڈ قریب تھا لیکن ٹریکنگ پارٹی کی دلچسپی اس میں تھی کہ دیکھا جائے کنہٹی گارڈن کے جو چشمے ہیں وہ یہیں نیچے سے نکلتے ہیں تو ان کو دیکھا جائے۔ اس لئے ٹیم نے اس پہاڑ سے اپنے اندازوں سے بنائے ہوئے رستے سے نیچے اترنے کا فیصلہ کیا۔ یہ رستہ ایک واہن میں اترتا تھا جیسے تیسے نیچے اترے۔ یہاں جوگر پہنے ایک چرواہے سے ملاقات ہو گئی۔ ہم سے ہماری منزل پوچھی اور آنکھوں ہی آنکھوں سے ہمیں شاباش دی۔ اشفاق حسین نے پوچھا کہ کنہٹی گارڈن کتنی دور ہے۔ اس نے جواب دیا کہ قریب ہی ہے۔ اشفاق نے پوچھا کہ رستہ آسان ہے یا مشکل ہے۔ چرواہے نے جواب دیا رستہ مشکل ہو یا آسان ہو گھر تو جانا ہی ہے نا آپ نے؟ وادی سون کے چرواہے بھی آدھے نہیں پورے فلسفی ہوتے ہیں۔

تو سجنو! ٹیم اس واہن سے گذرتی ہوئی، رستے میں پڑے پتھروں کو دھکے دیتی ہوئی، بالآخر کنہٹی گارڈن پہنچ گئی۔ یہاں کا سبزہ بھی ٹیم کو تروتازہ نہیں کر پایا۔ گھاس ملتے ہی ٹیم ممبران اس پر لیٹ گئے۔ کچھ دیر بعد اوسان بحال ہوئے تو وقت دیکھا گیا۔ چھ بج رہے تھے۔ ٹیم کو یاد آیا کہ علی بھائی کی پیش کی گئی چائے اتنی مزیدار تھی کہ کسی کو دوپہر کا کھانا بھی یاد نہ رہا تھا۔ سب نے اپنے اپنے بیگ کھولے صبح کا بنا کھانا نکالا گیا، اتنی دیر میں ٹیم کی ریسکیو 1122 پہنچ گئی یہ مظہر بھائی تھے۔ بھائی کو ٹیم ان کے نام سے زیادہ ریسکیو 1122 کے نام سے ہی یاد رکھتی ہے کہ جب بھی ٹیم پہاڑوں پر اچھی طرح تھک جانے کے بعد حال و بے حال ہو چکی ہوتی ہے تب مظہر بھائی خواجہ خضر کی مانند اپنے سنجیدہ مگر شگفتہ چہرے کے ساتھ گاڑی لئے پہنچ جاتے ہیں۔ وہ ٹیم کو لے کر مردوال پہنچے جہاں صبح گاڑیاں پارک کی گئی تھیں۔ ملک عرفان نے اپنے رشتہ داروں کے ہمراہ ٹیم کا استقبال کیا۔ گرما گرم چائے پیش کی گئی۔ چائے سے زیادہ ان کی مہمان نوازی اچھی لگی۔ وہاں سے نکلے تو شام رات میں بدل رہی تھی۔

عدنان بھائی نے بتایا کہ ان کے کزن کرنل عابد ملک نے نوشہرہ کے قریب شہر سے باہر ایک نہایت عمدہ فارم ہاؤس بنایا ہے جہاں چڑیا گھر بھی ہے، سرسبز لان بھی ہیں۔ رہنے کا عمدہ انتظام بھی ہے۔ اور وہ سب کچھ ہے جو ایک جدید فارم ہاؤس میں ہوتا ہے۔ تو ٹیم اب فارم ہاؤس جائے گی۔ پانچ منٹ میں ہی فارم ہاؤس پہنچ گئے۔ اور وہاں پہنچ کر دل خوش ہو گیا۔ جنگل میں منگل اسی کو کہتے ہیں۔ کرنل عابد صاحب نے آصف صاحب اور عامر صاحب کے ہمراہ ٹیم کو خوش آمدید کہا۔ کولڈ ڈرنکس سے تواضع کی گئی۔ اور پھر ایک شاندار ڈنر پیش کیا۔ ٹیم نے اگر دو ہی گھنٹے پہلے لنچ نہ کیا تھا تو پھر شاید ڈنر سے پوری طرح انصاف کرتی لیکن پھر بھی عابد صاحب کی مہمان نوازی اتنی پر لطف تھی کہ ٹیم نے ڈنر کو پوری طرح انجوائے کیا۔ کچھ دیر گپ شپ لگائی گئی۔

کرنل صاحب اسلام آباد میں رہتے ہیں ان سے اس ویرانے میں اتنا خوب صورت فارم ہاؤس بنانے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ جب وہ اوائل جوانی میں تھے تو ان کی سوچ یہ تھی کہ یہاں یہ زمین بیچ کر اسلام آباد میں کہیں ایک بڑا پلازہ بنا لیا جائے لیکن ان کے والد صاحب نے کہا کہ اہمیت زمین کی نہیں۔ اہمیت ہے تو اس بات کی کہ کل تک جب تمہارے بچے جوان ہوں گے تو وہ پوچھیں گے کہ ہمارا علاقہ کون سا ہے تو پھر تمہارے پاس انہیں اپنے علاقے میں دکھانے کے لئے کچھ ہونا چاہیے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے یہاں فارم ہاوس بنانے کا سوچا۔ اب ان کے بچے، بھتیجے سبھی ویک اینڈ آتے ہی وادی سون آنے کو بے چین ہو جاتے ہیں جس سے انہیں دلی خوشی ہوتی ہے وہ اپنے فیصلے پر بہت خوش اور مطمئن ہیں۔ ان کا نظریہ سو فیصد درست ہے، بچے اب اپنے دوستوں کو بہت فخر سے بتاتے ہیں کہ وہ ویک اینڈ گذارنے وادی سون جاتے ہیں جہاں ان کا ایک شاندار فارم ہاؤس ہے۔ اور الوداع کے وقت ایک اور حیرانی ٹیم کی منظر تھی۔ کرنل عابد نے ٹیم ممبران کو ایک ایک ٹی شرٹ پیش کی جس پر بہت خوب صعرت سٹائل میں “Aye o” لکھا ہوا تھا۔ وادی سون میں روایت ہے کہ کوئی مہمان آئے تو میزبان اسے خوش آمدید کرتے ہوئے کہتے ہیں ”آئے او“ تو کرنل صاحب نے ٹی شرٹس پر یہی لکھوا دیا۔ انہوں نے ٹیم کو کچھ عمدہ مشورے بھی دیے اور ٹیم نے ان سے اجازت لی۔ رات ہو چکی تھی ۔ کچھ ٹیم ممبران نے اسلام آباد جانا تھا ارشد بھائی نے جوہر آباد جا رہے تھے۔ ایک یادگار مہم اختتام پذیر ہوئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).