ایک اور قسم کی جبری گمشدگی


میرا اس طرف اس سے پہلے کبھی دھیان نہیں گیا تھا۔ کچھ ایسے پرانے اور گھنے درخت ہماری زندگیوں کا حصہ ہوتے ہیں جن کی طرف ہمارا دھیان ہی نہیں جاتا مگر جب وہ نہیں رہتے تو ہماری نظریں ان کا پیچھا کرتی ہیں۔ چند ہفتے پہلے، اس دن مجھے گلبرگ لاہور کی مین مارکیٹ کی اس مصروف پارکنگ والی جگہ پر کچھ کمی سی محسوس ہوئی۔ مجھے خیال گزرا کہ یہاں تو ایک درخت کا سایہ پڑتا تھا۔ سڑک کے پار ڈیپارٹمنٹل سٹور اور اس کی بالائی منزل والا بل بورڈ آج کچھ زیادہ ہی واضح نظر آ رہے تھے۔

“کیا واقعی یہاں کوئی درخت تھا یا میں غلطی کھا رہی ہوں؟” میں نے خود سے سوال کیا کیوںکہ کسی گمشدہ پیڑ کے آثار نظر نہیں آرہے تھے اور ویسے بھی میں جلدی میں تھی۔

اگلے دن میں پھل لینے کے لئے کونے میں کھڑے ریڑھی والے کے پاس جا کر رکی اور اس سے اس گمشدہ درخت کی بابت پوچھا۔

“جی، انہوں نے آدھی رات کو اسے کاٹ دیا تھا”۔

“کس نے کاٹا اور کیوں کاٹا؟” میں نے پوچھا۔

اس نے ڈیپارٹمنٹل سٹور کی طرف اشارہ کیا اور یوں بتانے لگا جیسے یہ معاملہ اس کے دل کے بہت قریب ہو۔

“میں یہاں رات بارہ بجے تک موجود تھا، وہ پیڑ یہی تھا۔ جب میں صبح آیا تو میں نے اسے یہاں موجود نہ پایا۔”

“مگر مجھے وہ جگہ کیوں نہیں مل رہی جہاں وہ درخت تھا؟” میں نے دوبارہ پوچھا۔

“اس لئے کہ انہوں نہ صرف یہ کہ وہ درخت کاٹ دیا بلکہ اس جگہ کو سیمنٹ سے بھر دیا تاکہ اس کی موجودگی کا کوئی نشان باقی نہ رہے۔”

اس نے اپنی ریڑھی اور اپنے گاہک وہیں چھوڑے اور مجھے اس جگہ لے گیا جہاں وہ درخت موجود ہوتا تھا۔ میں نے جلدی سے اس جگہ کی اپنے فون سے تصویر کھینچ لی۔ جب ہم ریڑھی تک واپس آئے تو ایک عمر رسیدہ پختون شخص ہمارے پاس آ کر کھڑا ہوگیا اور بتانے لگا کہ اس دن جب وہ صبح چار بجے نماز کے لئے نکلا “اور وہاں وہ درخت موجود نہ تھا”۔

“یہ سب بارہ اور چار بجے کے درمیان وقوع پذیر ہوا”، اس نے وثوق سے بتایا۔

پھل فروش افسوس کے ساتھ بتانے لگا کہ غریب ٹیکسی والے اور دوسرے لوگ اس درخت کی گھنی چھاؤں کے نیچے بیٹھا کرتے تھے۔ وہ برگد کا پیڑ تھا، بہت پرانا نہیں تھا مگر اتنا بڑا ضرور تھا کہ اچھی خاصی چھاؤں دیا کرتا تھا۔ اس راونڈ اباوٹ میں ایسے چند ہی اور درخت ہیں۔

میں اگلے روز دوبارہ مارکیٹ گئی تو سوچا اس درخت کے معاملے کی مزید چھان بین کرنی چاہئے۔ میں نے کار پارکنگ والے سے اس کے بارے میں پوچھنا شروع کر دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ ان دنوں اپنے گاؤں گیا ہوا تھا مگر جب وہ واپس آیا تو اس نے درخت کو یہاں نہ پایا۔ اس نے بھی ایک الزام بھری انگشت سپر مارکیٹ کی جانب اٹھائی مگر مزید معلومات ان کے چوکیدار سے لینے کا کہا۔

“میری ڈیوٹی تو جی صبح شروع ہوتی ہے، اس لئے مجھے تو کچھ علم نہیں ہے  کہ اسے کس نے کاٹا؛ ہوسکتا ہے کہ شہری انتظامیہ والوں کی کارستانی ہو جو سرویلنس والے کیمرے لگانا چاہتے ہوں!”

“مگر وہاں سارے لوگ ایسا کیوں سمجھتے ہیں کہ یہ تمھارے سٹور والوں کی کارروائی ہے؟” میں نے شکوک بھری نظروں سے اس سے جوابی سوال کیا۔

“میرا نہیں خیال جی۔ جب وہ چھوٹا سا ہوتا تھا تو میں تو اس درخت کو پانی دیا کرتا تھا۔ لوگوں کو تو بس عادت ہے جی جب بھی کوئی غیر قانونی سرگرمی ہو تو ہمارے سٹور کا نام لے دیتے ہیں۔ لہ! ادھر تو کوئی ڈکیتی بھی ہوجائے تو کہتے ہیں کہ اس سٹور کے سامنے ہوئی ہے۔”

میں پارکنگ والے کے پاس واپس آئی، “دیکھیں جی اگر کوئی درخت کمزور ہو تو اس کی تصویر لے کر آپ گورنمنٹ والوں کو دکھاتے ہیں پھر وہ آ کر اسے کاٹ جاتے ہیں۔” اس نے بتایا جب کہ میں اس دوران اس کے وسیع علم پر دل ہی دل میں داد دے رہی تھی۔

میں ڈیپارٹمنٹل سٹور میں داخل ہوئی، یہاں سے میں عام طور پر روزمرہ کا سامان لیتی ہوں، میری نظر سٹور کے ایک پرانے کارکن پر پڑی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا ان لوگوں نے سٹور کے باہر برگد کے درخت کے خفیہ طور پر گرائے جانے کی رپورٹ کی ہے۔ “کون سا درخت؟” اس نے چونک کر کہا، “ایک درخت تھا جو شاید شکستہ تھا!”

میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھا مگر اس نے میری آنکھوں میں واپس دیکھنے سے گریز کیا۔

“پھر کس نے درخت کاٹا؟ کیا آپ جاننا نہیں چاہیں گے؟” میں نے استفسار کیا۔

“میں نہیں جانتا،” اس نے کہا، اور دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہوگئے۔

مجھے اپنا جواب تقریباً مل ہی چکا تھا۔

ٹویٹر پر اس معاملے پر میں نے لکھا تو سرحد کے پار سے ایک شخص کا جواب آیا کہ “ہندو اعتقاد کے مطابق، برگد کا پیڑ دائمی خوش حالی کا نشان ہے۔ اس پیڑ کو فنا نہیں ہے۔”

کاش درختوں کو بچانے کے معاملے میں ہم بھی تھوڑا سا توہم پرست ہوتے۔ کاروبار پھلے پھولے تو کیا یہ خوش حالی نہیں ہے؟

____________________

یہ آرٹیکل دی نیوز آن سنڈے کے لئے فرح ضیا نے لکھا اور ‘ہم سب’ کے لئے عمید ملک نے ترجمہ کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).