تاریخ ادب اردو از جمیل جالبی: تکنیک، معیار اور مسائل
18 اپریل ڈاکٹر جمیل جالبی کی چھٹی برسی ہے
اردو ادب کی مستند اور معیاری تاریخ کی بات چھڑ جائے تو زاویہ نظر تاریخ ادب اردو کی جانب مڑتا ہے اور تا دیر وہاں ٹکا رہتا ہے۔ ہم جمیل جالبی کی اس کتاب کی توصیف کے لیے سوداؔ کے اس شعر سے مدد لے سکیں تو مبالغہ نہ ہو گا
سودا تُو اس غزل میں غزل در غزل ہی لکھ
ہونا ہے تُجھ کو میرؔ سے استاد کی طرف
چار جلدوں میں منقسم تاریخ ادب اردو اپنے مشمولات کے حساب سے حوالے کی چیز ہے مگر اس کے فنی محاسن کو دیکھا جائے تو ادراک ہوتا ہے کہ چاروں جلدوں میں تکنیک کے مختلف ماڈلز پیش کیے گئے ہیں جو اپنے چند معائب اور جملہ محاسن کی بدولت راقم کے مقالے کا موضوع بن رہے ہیں۔ جالبی کی اِن کتب کے تکنیکی ماڈلز کا طالب علمانہ مگر محققانہ مطالعہ پیش خدمت ہے۔
گفتگو کے آغاز میں تاریخِ ادبِ اردو کے ہیئتی ڈھانچے کو دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ جالبی نے اردو ادب کی پانچ سو سالہ تاریخ اور آٹھ سو سالہ روایت کو بیان کرنے کے لیے پوری کتاب کو چار سے چھے فصلوں میں تقسیم کیا ہے جو اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ ایک ہی فصل میں مذکورہ عنوان کو اس کے عہد کی ممکنہ تمام جہات، اہم اصناف، ادبی شخصیات اور تہذیبی، سماجی اور تاریخی ڈھانچے کو باہم آمیخت کرتے ہوئے ایک وحدت بنانے کی سعی کی ہے۔ اس لیے جب جالبی مقدمے میں لکھتے ہیں کہ انہوں نے درج بالا عوامل کے منطقی انسلاک کو ایک وحدت بنا کے پیش کیا ہے تو راقم کے خیال میں یہ بات یہ دعویٰ ایک دو فصلوں کی حد تک درست ہے لیکن اس جلد کے تمام مشمولات پر یہ بات پوری طرح صادق نہیں آتی۔
اصل میں مربوط تاریخ کا تجربہ ابھی یعنی اسی کی دہائی میں بھی بہت حد ممکن اس طور نہ ہوا کہ ابھی یونیورسٹیز میں ابھی تحقیق کا عمل اتنا فراواں نہیں نہ تھا۔ محقق ایک صدی یا ربع کی مربوط نثری و شعری روایت سے فن پارے علیحدہ علیحدہ کر کر سمجھتا۔ دوسرا ابھی ادبی تاریخ نویسی کے اصول ضابطے بھی پوری طرح سماج میں مروج نہ تھے اسی لیے مذکورہ تاریخ میں نہ صرف نثر اور شعر پارے الگ الگ فصلوں میں منقسم نظر آتے ہیں بلکہ بعض جگہ کسی علاقے کی روایت کی تفصیل کے عمل میں ان کا اپنا تسلسل بھی دھندلا پڑتا دکھائی دیتا ہے جسے اس طور نظر انداز کرنا ضروری ہے کہ ابھی تک ادبی تاریخ نویسی کی تو شخصیت کی رو سے ادوار میں بٹی ہوئی تھی یا علاقائی جزوی تاریخوں کے نمونوں میں موجود تھی یا محض اردو سے قبل کی کھڑی بولی اور برج بھاشا بولیوں کو اردو ثابت کرنے کے نمونوں میں ملتی تھی یا ادیبوں کے تعارفی جائزوں تک محدود مختصر تاریخ منظر عام پر آتی تھی (ڈاکٹر اعجاز حسین کی تاریخ)
”آبِ حیات“ سے لے کر تاریخ ادب اردو تک قریب قریب ایک صدی کا ارتقائی سفر ہمارے مطالعے میں آتا ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ ان تمام ادبی شخصیات کی شخصی و علمی عظمت کے باوجود کوئی مورخ ہمیں تصویری مرقعے دکھانے میں مشغول نظر آتا ہے کوئی منشورات کے نمونے اکٹھے کر کے جزوی تاریخ سامنے لاتا ہے، کوئی مختصر ادبی تاریخ کا فریضہ نبھاتا ہے تو کوئی ہمیں نصابی ضروریات کے لیے طلبا اور طالبات کا نصاب نامہ بناتے ہوئے نظر آتا ہے اور احتشام حسین تک آتے آتے ایک نقاد ان تواریخ پر اور ان کی تصنیف، تالیف پر تنقیدی محاکمہ دیتے ہوئے کچھ اصول واضح کر تا ہے کہ اردو ادب کی تاریخ کسی بھی مکمل تو درکنار، پختہ نقش کرنے میں بھی بہت زیادہ کامیاب نہیں ہوتی۔ ایسے میں ضرورت پیش آتی ہے کسی ایسے مورخ کو جو اس ضمن میں روایت کا شعور بھی حاصل کرے اس کے معائب کو تاریخ نویسی سے صاف بھی کرے۔ تسامحات کی اصلاح کرتے ہوئے کوئی ایسا نقش پیش کرے تو تاریخ کے طالب علم کے لیے بھی معاون ہو۔ تاریخ کے سکالر کی بھی رہنمائی کرے لہٰذا ادبی تاریخ کا معتبر نمونہ بھی پیش کرے اور یہ کام کرتے ہیں ڈاکٹر جمیل جالبی، تاریخِ ادبِ اردو کی صورت میں وہ شاہکار پیش کرتے ہیں جو آج اپنی پہچان کے عروج پر ہے
پہلی جلد جو کہ 1975 میں شائع ہوئی اس کے دیباچے سے پتہ چلتا ہے کہ مصنف کی اس تاریخ سے کیا منشا ہے۔ چند نکات جو سامنے آتے ہیں وہ یہ ہیں :
واضح رہے کہ جدید انداز کی مربوط تاریخ ہے
قدیم ادب کا مطالعہ تہذیبی، معاشرتی، سیاسی اور لسانی عوامل کے تحت کیا گیا
ادب کی تاریخ ایک اکائی بنائی گئی جسے ایک ٹکڑے میں نہیں دیکھا جا سکتا
پہلی مرتبہ کسی مورخ نے مجرات دکن کے قدیم ادب کو ایک ایک دیکھنے کی بجائے ایک لڑی میں پروتے ہوئے اور دیکھا اور اس کو الگ کرنے کی بجائے اسی صورت میں دیکھنے کی کوشش کی۔
پاکستان کے چاروں صوبوں میں اردو کی قدیم روایت کو جانچنے کی کوشش کی۔
ایک ایسا علمی اسلوب بناتے ہیں جو ادب کی فکری تنقیدی اور تہذیبی تاریخ کے لیے نہایت موزوں ہے
ان تمام خصائص کے با وصف اس جلد کی تکنیکی بنت دیکھی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ساڑھے سات سو سال کی بالترتیب لسانی، ادبی، تہذیبی اور سماجی تاریک کی پیش کش سے قریب قریب آٹھ سو صفحات تحریر کیے۔ کُل فصلیں چھے ہیں اور واضح رہے کہ تمام کتب کے مشمولات چار سے چھے فصلوں میں یکجا کیے گئے ہیں۔ ہر فصل چونکہ ایک عہد، ایک تہذیب اور ایک مرکز کا بیانیہ ہے اس لیے اس فصل کے مختلف ابواب میں ہی تمام معلومات کو شامل کی گیا ہے اس لیے آگے بڑھنے سے قبل ایک اہم بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتاتا چلوں کہ جلد اول کے آخر میں پاکستان کے اردو کے عنوان کے پانچ ابواب ملتے ہیں جن کے نام یوں ہیں : پنجاب
میں اردو، سندھ میں اردو، لسانی اشتراک (اردو، پنجابی، سرائیکی، سندھی) ، سرحد میں اردو روایت، بلوچستان میں اردو روایت۔
راقم ان ضمیموں کی موجودگی کے بارے میں سوچتا سوچتا اس نتیجے پہ پہنچا ہے کہ جالبی نے اس سے دو کام لیے ہیں ایک تو یہ کہ پاکستان میں اردو زبان و ادب کی روایت سے قومی یکجہتی پہلو سامنے لا یا جائے دوسرا اس پانچویں جلد کا ایک اشاریہ سامنے لانا بھی مقصد ہو سکتا ہے جو ان کے ذہن میں تھا لیکن کاغذ پر منتقل نہ ہو پایا۔
اردو کی پہلی ادبی تاریخ ”آبِ حیات“ سے اردو زبان کی لسانی تشکیل کے مختلف عوامل اور مراحل کے موضوع پر کتاب کا حصہ بنا دیا گیا تھا۔ راقم کا خیال ہے کہ یہ باب ادبی تاریخ کا براہِ راست حصہ نہیں بنتا لیکن کسی مورخ کے لیے اس بات کی گنجائش ادبی تاریخ نویسی چھوڑتی ہے کہ اس کو ثابت کیا جا سکے۔ اس لیے میں تاریخ نویسی پڑھاتے ہوئے طالب علم کو اس کا جواز فراہم کرتا ہوں کہ مورخ سمجھتا ہے کہ اس کا قاری ادبی تاریخ کی قرات کے لیے تو تیار ہے لیکن شاید تاریخِ لسانیات کے جملہ مباحث اس کو پریشان کریں اس لیے زبان کا کسی ضمیمے میں ذکر کر دینا تکنیکی ہنر بنتا ہے عیب نہیں۔ جمیل جالبی کی تاریخ میں ہمیں اس بات کا تاریخی شعور سمجھ آتا ہے کہ ضمیمے میں ان مباحث کو شامل کی جن کی تفصیل آگے زیر ِ بحث لائی جائے گی۔ یہ بھی واضح ہے کہ مورخ کا لسانی معلومات بہم پہنچانا ایک مثبت عمل ہے لیکن ادبی تاریخ میں ماہرِ لسانیات بن کر محاکمہ سازی کرنا ادبی تاریخ کی کوئی خدمت نہیں اس لیے جمیل جالبی سے قبل کی اس روایت کو اس مقولے کی مدد سے سمجھا جا سکتا ہے۔
جلد دوم کی مشمولات کا اندازہ لگایا جائے تو اندازہ ہوتا ہے اس جلد کی اہمیت اس طور زیادہ ہے کہ اس میں کم و بیش پوری اٹھارہویں صدی کے ادبی روایات اور رجحانات کو سمیٹنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اگر ایک جملے میں اس کتاب کو سمیٹا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں ”سارے کلیات، ساری تصانیف، کم و بیش سارے اصل تاریخی، ادبی و غیر ادبی ماخذ سے براہِ راست استفادہ ر کے روحِ ادب تک پہنچنے کی کوشش کی ہے اور پوری ذمہ داری، شعور کے ساتھ کم سے کم لفظوں میں اسے بیان کر دیا ہے۔ اس کتاب میں یہ اہتمام نظر آتا کہ ثقافت، فکر اور تاریخ کے تخلیقی امتزاج سے تاریخ ادب کو ایک وحدت، ایک اکائی بنانے کی کوشش کی ہے۔
اس جلد کی فہرست مشمولات کا جائزہ لینے سے ایک اہم بات جو ہمیں نظر آتی ہے وہ اس کی تکنیک ہے جس کے بارے میں راقم کا یہ خیال سوال بن کے سامنے آتا ہے کہ اس اہم صدی میں شاعری کے ساتھ ساتھ نثری نمونے بھی سامنے رکھے ہیں لیکن یہ کہ تکنیک میں نمایاں تبدیلی بروئے کار نہ لا سکے اور روایتی ڈھانچے کو ہی پیشِ نظر رکھا وہ یوں کہ اس سے قبل شاعری اور نثر کی تواریخ کو الگ الگ رکھ کر حصے بنا دیے جاتے تھے، اسی طور پہ جلد دوم کے گیارہ سو صفحات میں ہمیں کتاب کے دو غیر متوازن حصے نظر آتے ہیں جن میں پانچ سو صفحات شمالی ہند کی ابتدائی شعری روایت سے لے کر ایہام گوئی کے رد عمل کی تحریک تک کے شعرا اور کلام کا احوال موجود ہے۔ اس حصے میں کتاب میں کُل چھے فصلوں میں سے چار فصلوں کا مواد تقسیم کر دیا گیا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اگلا حصہ جسے میں سہولت کے لیے دوسرا حصہ کہوں گا اس میں تقریباً پانچ سو صفحات پر صرف ایک فصل شامل کی گئی ہے جس میں رد عمل کی توسیع کے عنوان کے تحت میرؔ و سوداؔ سے لے کر جعفر علی حسرتؔ، ہیبت قلی خان، حسرتؔ وغیرہ شعرا کا ذکر کیا گیا ہے جو تکنیک کی خامی کہا جائے تو بے جا نہ لگے۔ اہم بات یہ ہے کہ فصل ششم کے ایک سو صفحات میں اس صدی کی اردو نثر کی تفصیل موجود ہے جس میں مذہبی نثر، قرآن کے تراجم، مستشرقین کی مشنری و سیاسی اہمیت کی نثری کتب کا ترجمہ، بھگوت گیتا اور آگے چل کر تھومر افروز و دہر، نو طرزِ مرصع، نو آئینِ ہندی، عجائب القصص وغیرہ کا مختصر ذکر موجود ہے جو اتنے کم صفحات میں پیش آیا تاریخ نویسی کے نقاد کو خوش نہیں آیا۔ اشاریہ کے الگ سے سو صفحات کتاب کا حصہ نہیں جو کم کیے جا سکتے تھے پر نہ ہوئے۔
جلد دوم کی ایک خصوصیت جو اس کو باقی تواریخ سے الگ کرتی ہے وہ ایک باب غیر ایہام گو شعرا کے تذکرے کا ہے جن کو ادب کے مورخ عام طور پر نظر انداز کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں، ان شعرا میں اشرف گجراتی، محمد رضی رضی، ثنا اللہ ثنا، سید محمود صابر، عبدالولی عزلت وغیرہ کے نام موجود ہیں۔ ادبی تحقیق کا شناور اگر اس باب کے مشمولات پر تجزیاتی مطالعہ کرے تو اندازہ ہو سکتا ہے کہ جس عہد میں ہم ہر طرف ایہام گو شعرا کی شوخی و شرارت بھری ادبی روایت سے بہرہ ور ہو رہے ہوتے ہیں اس عہد میں مرکز کے اندر اور ذرا دور شعرا کس طور اس کس انداز سے شعری ادب کی تخلیق میں کوشاں تھے۔ صرف ایک فصل پنجم کے پانچ سو صفحات میں میر تقی میرؔ کو دو ابواب کے ڈھائی سو صفحات میں پیش کرنا، رفیع سودا کو اسی صفحات اور میر دردؔ کو چالیس صفحات میں پیش کر کے لکھنو سمیت باقی شعرا کو ایک سو ستر صفحات میں نمٹا دینا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ جالبی لکھنے پر آئے تو لکھتے چلے گئے اور بنا کاٹ چھانٹ کے ہر معلوم معلومات کو صفحات کا حصہ بناتے چلے گئے۔
جلد سوم ( 2006 ) کے پیش لفظ کا مطالعہ کیجئے تو جمیل جالبی کا ایک اقتباس سامنے آتا ہے جس میں وہ اپنی چاروں جلدوں کی حد بندی کرتے ہوئے یوں تحریر فرماتے ہیں
”پندرہویں تا سترہویں صدی دکنی اردو ادب کی صدی ہے اور اٹھارہویں صدی مغلیہ سلطنت کے مرکز، دہلی کی صدی ہے۔ اسی طرح انیسویں صدی دہلی کے ساتھ بیشتر لکھنو کی صدی ہے۔ اس طرح بیسویں اردو زبان و ادب کے تعلق سے بیشتر پنجاب کی صدی ہے“ (جلد سوم صفحہ 15)
انیسویں صدی جو کہ حقیقتاَ اردو کے صحیح طور پر ترویج و اشاعت کی صدی بنی اس کے ادب کو دو حصوں جلد سوم اور چہارم کو شامل کیا گیا ہے۔ تکنیکی ڈھانچے کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ جلد سوم میں شامل 5 فصلوں کے ایک ہزار صفحات میں کچھ تبدیلی نظر آتی ہے جو خوش آئند ہے اور تکنیکی جمود کے خاتمے کا اشارہ ہے۔ جب حسبِ سابق پہلی فصل شعرا کے ذکر سے شروع ہوتی ہے اور مصحفیؔ، جراتؔ، انشاؔاللہ خاں اشکؔ، سعادت یار رنگینؔ، اور چند ایک غیر معروف ناموں ولی اللہ محبؔ، مرزا تقی خان ہوسؔ، جسونت سنگھ پروانہؔ، مہدی علی خاں، ذکی مراد آبادی وغیرہ سے ہوتی ہوئی چار سو صفحات کا احاطہ کرتی ہے۔ اس فصل میں مصحفیؔ وہ خوش نصیب شاعر قرار پاتے ہیں جن کا ذکر صفحہ نمبر 65 سے شروع ہوتا ہے اور باقی شعرا کے ابواب میں بھی تقابل ہوتے ہوئے 282 صفحات میں جزوی طور پر شامل ہو جاتے ہیں جو ایک غیر معمولی بات ہے۔ فصل دوم البتہ فورٹ ولیم کالج کے عنوان کے تحت نثری کتب کے احوال کی دنیا ہے جن میں جون گلکرسٹ، میر امن، بہادر علی حسینی، حیدر بخش حیدری، مظہر ولا وغیرہ کے کے تفصیلی ذکر کے ساتھ فورٹ ولیم کالج ہر حوالے کی چیز بنتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ راقم نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے کے دوران اس حصہ کو دیکھا تو اندازہ ہوا کہ شاید جالبی نے یہ حصہ دقتِ نظری سے نہیں دیکھا ہو گا کیوں کہ اس میں کئی مقامات پر مجھے کتب کی سطح کے تسامحات نظر آئے جن کی تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔ فصل سوم نثر کے تسلسل کا بیان ہے جس میں نو طرز مرصع اور فسانہ عجائب کے درمیان کی کڑیوں کو موضوع بحث بنا یا گیا ہے۔ مجموعی طور پر اس جلد میں دو سو ساٹھ صفحات کو نثری کتب کے لیے مختص کیا گیا ہے۔ فصل چہارم میں ناسخؔ، آتشؔ کے دور پر نظر کرتے ہوئے سادہ گوئی کے خلاف رد عمل محققانہ تبصرہ موجود ہے اور اس رد عمل کو جالبی نے طرزِ جدید و تازہ گوئی کا رواج کے عنوان سے موسوم کیا ہے فصل چہارم کا مطالعہ اس لئے بھی اہم ہے کہ اس میں لکھنوی شعر و سخن، ڈرامہ نگاری، واسوخت کے ساتھ ساتھ آتش روایت کی توسیع، تکرار اور امتزاج ملتا ہے جس کی مثالیں محمد خان رندؔ، میر وزیر علی صبا، آغا حجو شرف اور آگے چل کر پنڈت دیا شنکر نسیم اور نواب مرزا شوق کی مثنوی کے خصائص و فضائل میں ملتا ہے۔ مجموعی طور پر یہ حصہ لکھنو کے متعلق جاننے اور محقق کے لیے خاص اہمیت کا حامل ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس جلد کی سب سے عجیب بات فصل پنجم کے پچاس صفحات پر موجود دو ادیب ہستیاں ہیں جن میں سے ایک نام واجد علی شاہ کا ہے اور دوسرا نام جالبی کے لفظوں میں عوام کے اکلوتے فقیر نظیر اکبر آبادی کا ہے۔ اور یوں یہ فصل اپنے ساتھ موجود چالیس صفحات کے اشاریے سے مکمل ہوتی ہے۔
راقم کا خیال ہے کہ واجد علی شاہ کو بے شک مبتدی شخصیت قرار دیا جاتا لیکن اس کو لکھنو کے شعرا اور ادبا کے باب میں رکھا جاتا تو یہ فصل بنانے کی نوبت نہ آتی اور یوں ایک بادشاہ ادیب کے پچیس صفحات الگ نہ کرنے پڑتے کیوں کہ میں ٹھوس دلیل سے دعویٰ کرنے جا رہا ہوں کہ نظیر اکبر آبادی کا ذکر یہاں پر آنا از حد غیر ضروری تھا۔ استادِ محترم ڈاکٹر عبدالرؤف شیخ نے ایک دفعہ باتوں باتوں میں فرمایا تھا کہ تاریخِ ادب میں نظیر اکبر آبادی کو کوئی مورخ فِٹ نہیں کر پایا۔ اس پر مطالعہ کرو تو راقم نے اس پہلو کو بغور دیکھا کہ اندازہ ہوا کہ واقعی نظیر اکبر آبادی ایک عظیم لیکن بدقسمت شاعر ہے۔ جس کو کوئی مورخ اپنی تاریخ میں جائز مقام و مرتبہ نہیں دے سکا۔ اس کتاب نے مجھے حیران کر دیا کیونکہ جلد سوم میں نظیرؔ کا ذکر بالکل بھی جائز نہیں آتا کیونکہ 1735 میں پیدا ہونے والے نظیرؔ اٹھارہویں صدی کے ختم ہوتے ہوتے 65 سال کی عمر کو چھو رہے تھے (بے شک ان کی وفات 1830 میں ہوئی) ۔ اب ایک معتبر اور میچور شاعر کا تذکرہ جلد دوم کے صفحات پر نہ کرنا ایک مورخانہ غلطی نہ بھی کہی جا سکے تو جالبی جیسے بڑے مورخ کے تاریخی شعور اور تاریخیت کے عمل پر سوالیہ نشان بنتا ہے۔ راقم جلد دوم کی فصل پنجم کے آٹھویں باب میں دوسرے شعرا کے عنوان سے دیے گئے سو صفحات سے ان شعرا کی جگہ پر نظیر اکبر آبادی کے پچیس صفحات جوڑ دیے جانے کی صلاح دیتا ہے جن میں ہدایت اللہ ہدایت، میر محمدی بیدار، شیخ رکن الدین عشق، مرزا محمد علی فدوی، محمد روشن جوشش، شیر محمد خان ایمان اور محمد عابد دل جیسے غیر اہم شعرا کا ذکر موجود ہے۔ نیز ایک مورخ کو کیا امر مانع ہو سکتا ہے اگر جلد سوم میں بھی نظیر کے تذکرے سے کتاب شروع کی جاتی اور بے شک 1825 میں وفات پانے والے مصحفیؔ کا ذکر آخری فصل میں چلا جاتا۔ راقم کو یہ تسلیم ہے کہ مصحفی ؔ کا ذکر آخری فصل میں عیب بن جاتا تو اسی کلیے پر میرا ماننا ہے کہ نظیر اکبر آبادی کا تذکرہ آخر میں کرنا بھی جلد سوم کا تکنیکی عیب ہے جن کو درست کیا جانا ضروری ہے۔
- تاریخ ادب اردو از جمیل جالبی: تکنیک، معیار اور مسائل - 19/04/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).