پنجاب میں شادی میں نوٹ پھینکنے پر پابندی
شادی بیاہ اور ناچ گانے کے موقع پر نوٹ پھینکنے کی روایت جنوبی ایشیا کی مخصوص ثقافتی رنگینیوں میں سے ایک ہے۔ یہ عمل خاص طور پر پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور کشمیر کے مختلف علاقوں میں ایک ”رواج“ کی صورت اختیار کر چکا ہے، جس میں خوشی کے اظہار کے طور پر مہمان، دلہا یا دلہن پر کرنسی نوٹ، ڈالرز، حتیٰ کہ قیمتی اشیاء تک اچھالتے ہیں۔ اس کا تاریخی پس منظر دیہی معاشروں کی موسیقی، دھمال اور رسومات سے جڑا ہوا ہے، جہاں کسی کی خوشی میں شرکت کو مالی فراوانی سے منسوب کیا جاتا رہا ہے۔ تاہم یہ رواج وقت کے ساتھ ساتھ ایک رسمی ”اسرافی مظاہرہ“ بن گیا ہے جہاں خوشی سے زیادہ دکھاوا اور مقابلہ بازی حاوی ہو گئی ہے۔
دارالافتاء جامعہ بنوریہ عالمیہ کے مطابق شادی بیاہ میں نوٹ پھینکنے کا یہ عمل ”اسراف“ کے زمرے میں آتا ہے، جو قرآن و سنت کی روشنی میں ممنوع اور گناہ ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت خوشی کے اظہار کی اجازت تو دیتی ہے لیکن حدود سے تجاوز کرنے کو ناپسند کرتی ہے۔ یہاں دو اہم پہلو ابھرتے ہیں۔ نوٹ پھینکنے کا عمل بذاتِ خود ممنوع ہے، کیوں کہ یہ ضیاعِ مال اور غیر ضروری نمائشی عمل ہے۔ لیکن وہ اشیاء جو زمین پر گرنے کے بعد جمع کی جاتی ہیں، انہیں استعمال کرنا جائز قرار دیا گیا ہے، کیوں کہ دینے والے نے اسے ”عطیہ“ کی نیت سے ہی پھینکا تھا۔
اسراف کا یہ مظاہرہ ایک نفسیاتی علامت ہے۔ یہ ”خوشی“ کی بجائے ”دکھاوے“ کی علامت بنتی جا رہی ہے۔ معاشی تفاوت کے اس دور میں جب ایک طرف لوگ بھوک، قرض اور فاقے کا شکار ہیں، وہیں دوسری طرف شادی کی تقریب میں کرنسی نوٹ زمین پر پاؤں تلے روندے جا رہے ہیں۔ یہ عمل قوم کے اس اجتماعی مزاج کی نشاندہی کرتا ہے جو ”احساسِ زیاں“ سے محروم ہو چکا ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح کی تصویر والے نوٹوں کو زمین پر پھینکنا قومی وقار کی توہین بھی ہے جسے معاشرہ عام تفریح سمجھتا ہے۔
حالیہ دنوں میں حکومت پنجاب کی جانب سے اس رواج پر پابندی عائد کرنا ایک بروقت، سنجیدہ اور اخلاقی قدم ہے۔ اعلامیے کے مطابق: ”خلاف ورزی پر دلہا کو جیل کی ہوا کھانی پڑے گی، اور عوام نوٹوں کی بے حرمتی پر 15 پر اطلاع دے سکتے ہیں۔“ یہ اعلان نہ صرف قانونی اعتبار سے اہم ہے بلکہ معاشرتی سدھار کے لیے ایک ضروری مداخلت بھی ہے۔ تاہم صرف قانون بنانا کافی نہیں جب تک عوامی شعور میں تبدیلی نہ آئے، قانون پر عمل درآمد ایک چیلنج ہی رہے گا۔
نوٹ پھینکنے کا یہ عمل جہاں قومی تشخص اور شریعت سے متصادم ہے، وہیں یہ ”تہذیبی زوال“ کی بھی نشانی ہے۔ وہ جو شاعر مشرق علامہ اقبال نے بھی کہا تھا: ”تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی۔ ہماری ثقافت کا حسن تب ہی برقرار رہ سکتا ہے جب ہم روایات اور رواج کے نام پر اخلاقیات، مذہب اور تہذیب کی حدیں پامال نہ کریں۔ دلہن کی رخصتی پر اگر نوٹ فضا میں اچھالے جا رہے ہوں، تو وہ لمحہ خوشی کا کم اور اخلاقی دکھ کا زیادہ ہوتا ہے۔
راہِ اعتدال ہی نجات ہے، شادی ایک بابرکت اور سنجیدہ موقع ہے۔ اس میں خوشی کا اظہار ضرور ہونا چاہیے، مگر ایسے انداز میں جو شریعت، عقل، تہذیب اور قومی وقار سے ہم آہنگ ہو۔ نوٹ پھینکنے کی یہ روش نہ صرف غیر اخلاقی، غیر شرعی اور غیر مہذب ہے بلکہ قومی شناخت اور فردی عزت نفس کے بھی خلاف ہے۔
حکومت پنجاب کا اقدام قابلِ تعریف ہے، مگر اس کے ساتھ علماء، اساتذہ، والدین اور دانشوروں کو بھی معاشرتی اصلاح کے لیے متحرک ہونا ہو گا۔ تب ہی ہم اپنی نسلوں کو ”فرسودہ دکھاوے“ سے نکال کر ”معنی خیز خوشی“ کی طرف گامزن کر سکتے ہیں۔ اب آخری سوال یہ ہے کہ کیا ہم وہ قوم ہیں جو قائداعظم کے چہرے والے نوٹ پاؤں تلے روندتے ہوئے فخر محسوس کرتی ہے؟ یا وہ جو تہذیب و شریعت کے دائرے میں رہ کر مسرتوں کو وقار بخشتی ہے؟ فیصلہ ہمیں خود کرنا ہے۔ ذرا نہیں پورا سوچئیے۔
- ریکوڈک کو ریلوے نیٹ ورک سے منسلک کرنے کی ہدایت - 22/06/2025
- بھارت کی آبی دہشت گردی: دریائے چناب کا پانی روکنے کی کوشش - 09/05/2025
- پنجاب میں شادی میں نوٹ پھینکنے پر پابندی - 19/04/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).