بلوچ کیسے اپنے حق رائے دہی سے محروم ہے؟


Loading

جب بات بلوچ کے حق رائے دہی کی ہوتی ہے تو اکثر یہی سننے کو ملتا ہے کہ کب بلوچ کی بات نہیں سنی گئی، کب بلوچ کو فیصلہ کا حق نہیں ملا! بلوچ کو ووٹ کا حق حاصل ہے، بلوچ رہنما پارلیمنٹ کا حصہ بھی ہیں، لیکن کیا یہ سچ ہے کہ بلوچستان کے حقیقی عوامی نمائندوں کو پارلیمنٹ میں جگہ مل جاتی ہے؟ جن کو عوام ووٹ ڈالتے ہیں، کیا وہ پارلیمنٹ تک پہنچ پاتے ہیں؟ اور اگر نہیں، تو کیوں؟ وجہ صرف یہ نہیں کہ بلوچستان کی نشستیں کم ہیں یا ان کا سیاسی کردار محدود ہے، بلکہ اصل بات یہ ہے کہ مختلف حربوں سے عوامی نمائندوں کو روکا جاتا ہے۔ کیوں روکا جاتا ہے؟ ان کو روکنے میں کن لوگوں کے مفاد جڑے ہوئے ہیں؟

ہاں، یہ اگر مان بھی لیا جائے کہ بلوچستان کو بجٹ بھی ملتا ہے، رقبہ زیادہ ہے۔ انفراسٹرکچر میں خاطر خواہ بہتری نہیں ہو پا رہی ہے یہ سب باتیں ٹھیک ہیں۔ مگر بلوچستان کے حقیقی نمائندوں کو آگے کیوں نہیں آنے دیا جاتا۔ اس کی وجہ یہ ہے وہ آ کر اپنے صوبے کے لوگوں کے مفادات کی بات کرتے ہیں، ان کے حق میں فیصلے کرتے ہیں، اور جو فیصلہ ان کے عوام کے خلاف جاتا ہے، اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ سوئی گیس کی لیز کا معاملہ ہی دیکھ لیں۔ جو حال ہی میں حکومت بلوچستان نے وفاقی حکومت کے ساتھ ایک مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے ہیں، جس کے تحت پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ کو سوئی مائننگ لیز کی مدت 10 سال کے لیے ( 1 جون 2015 سے 31 مئی 2025 تک) توسیع دی گئی ہے۔ اس کے بدلے میں پی پی ایل نے 60 ارب روپے ادا کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔

2015 سے یہ معاملہ وفاق اور صوبے کے درمیان تنازع کا شکار تھا۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد آنے والی بلوچستان میں بننے والی تمام صوبائی حکومتوں نے اس معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کیا ہے۔ لیکن موجودہ حکومت بلوچستان جو (مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کی مشترکہ حکومت ہے ) اس نے وہی معاہدہ بغیر کسی ترمیم کے منظور کر لیا، اس کو لیڈ کوئی اور نہیں سوئی ڈیرہ بگٹی کا عوامی نمائندہ کر رہا تھا جو کہ وزیراعلیٰ بلوچستان ہے۔ نگران حکومت میں وزیر داخلہ داخلہ تھے۔ الیکشن سے نوے دن پہلے تک انہوں نے الیکشن کرانے تھے۔ اور موصوف کسی پارٹی کا حصہ بھی نہیں تھے۔ اچانک پیپلز پارٹی نے اپنے ساتھ ملا لیا۔ اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے الیکشن جیت کر صوبائی اسمبلی پہنچ گئے اور پھر پی پی پی نے اپنی تمام سینئر لیڈرشپ کو بائی پاس کر کے ان کو وزیراعلیٰ بنا دیا۔ جس سے یہی شک ظاہر ہو رہا تھا کہ ان سے کوئی کام لیا جائے گا۔ وہ کام جو سابقہ حکومتیں مسترد کر چکی تھیں۔

یہ ڈیڈلاک اس وقت ٹوٹا جب نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کی سربراہی میں قائم کونسل آف کامن انٹرسٹ (مشترکہ مفادات کی کونسل) نے 29 جنوری 2024 کے اجلاس میں پیٹرولیم ڈویژن کو سوئی لیز کی منظوری دینے کی ہدایت دی اور معاملہ ای سی سی کو بھیجنے کا کہا، تا کہ وفاق یک طرفہ طور پر اس کا حل نکالے۔

اور یہ وہی انوار الحق جس کو بلوچستان کا نمائندہ سمجھا جا رہا تھا۔ جنہوں نے آنکھیں بند کر کے حکم جاری کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ نگران حکومت کے پاس ایسا فیصلہ کرنے کا آئینی اختیار تھا ہی نہیں۔

ای سی سی کیونکہ نگران حکومت میں صوبوں کی نمائندہ نہیں ہوتی، لہٰذا اس کا فیصلہ آئینی نہیں تھا مگر کون پوچھے۔ موجودہ صوبائی حکومت نے اس غیرآئینی فیصلے کی منظوری دے ہے۔

آرٹیکل 172 ( 3 ) ، جو اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے آئین کا حصہ بننے کے بعد قدرتی گیس اور تیل پر وفاق اور صوبوں کی مشترکہ اور مساوی ملکیت بن گیا تھا۔

سوئی گیس کی لیز 1955 میں پی پی ایل کو 30 سال کے لیے دی گئی تھی، جسے بعد ازاں 1985 میں مزید 30 سال کے لیے بڑھا دیا گیا۔

یہ لیز 31 مئی 2015 کو ختم ہو چکی تھی۔

اس کے بعد ، وفاق نے یک طرفہ طور پر پرانی شرائط پر ایک سال کی غیرقانونی توسیع کردی، جس پر اس وقت کی بلوچستان حکومت نے شدید احتجاج کیا۔

2016 میں ایک عبوری معاہدہ ہوا، جس میں پی پی ایل کو 2012 کی پالیسی کے مطابق 55 % ویل ہیڈ قیمت پر رائلٹی اور بونس کی ادائیگی کے ساتھ کام جاری رکھنے کی اجازت دی گئی۔ جب تک کوئی حتمی معاہدہ نہ ہو جائے۔

بلوچستان حکومت نے 2017 میں ایک حتمی معاہدے کا مسودہ بھیجا جس میں درج ذیل نکات شامل تھے :
نئی کمپنی (SPV) میں 50 % انتظامی اور بورڈ کی شراکت، خالص منافع میں 50 % حصہ رائلٹی، کرایہ اور دیگر ادائیگیاں شامل تھیں لیکن وفاق نے اس معاہدے کو مسترد کر دیا۔ بعد ازاں، وفاقی حکومت نے SROs کے ذریعے غیرقانونی طور پر لیز کی توسیع جاری رکھی۔

صوبہ بلوچستان نے، دیگر چھوٹے صوبوں کے ساتھ مل کر عدالتی، قانون ساز اور انتظامی ذرائع سے رجوع کیا، لیکن خاطر خواہ نتائج نہ نکل سکے۔ اس وقت کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر مالک بلوچ نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی اور نئے منصوبوں پر پابندی عائد کی۔ سی سی آئی کے متعدد اجلاسوں میں یہ معاملہ اٹھایا گیا، مگر کوئی واضح فیصلہ نہ ہوا۔

2016 میں سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے ڈیولوشن نے اس پر غور کیا اور چیئرمین سینٹ کو تشریح کے لیے ریفر کیا، جس نے صوبوں کے حق میں فیصلہ دیا، لیکن اس فیصلے پر عملدرآمد آج تک نہیں ہو سکا۔ لیکن موجود حکومت بلوچستان نے سوئی گیس فیلڈ پر اپنی مشترکہ ملکیت کا حق ترک کر دیا ہے۔ خالص منافع میں اپنا جائز حصہ مانگنے کے بجائے صرف رائلٹی، لیز توسیع بونس اور پروڈکشن بونس پر اکتفا کیا ہے۔
ایک تخمینے کے مطابق، 2011 سے 2025 تک بلوچستان کا خالص منافع میں حصہ تقریباً 75 سے 80 ارب روپے بنتا ہے، جس سے صوبہ محروم کر دیا گیا۔

مزید بدتر بات یہ ہے کہ حکومت نے 2017 سے 2024 کے درمیان گیس کی غیرقانونی نکاسی کو قانونی حیثیت دے دی ہے۔ اس کے علاوہ وہاں کی مقامی آبادی کے ساتھ کیے گئے وعدے بھی پورے نہیں ہوئے۔ پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ اور نواب اکبر خان بگٹی کے درمیان ہونے والے معاہدے میں ایک ہزار پانچ سو ملازمتیں، تعلیمی اسکالرشپس، اور ترقیاتی منصوبوں کا وعدہ کیا گیا تھا، لیکن اب تک بیشتر وعدے پورے نہیں ہوئے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سوئی میں بنائی گئی لائبریری کا بجلی کا بل تک ادا نہیں کر رہی ہے۔ ریٹائر ملازمین کے بچوں کو دوبارہ اٹھانا تھا جو اب تک نہیں ہو سکا۔

جب تک صوبے کو اپنے وسائل پر اختیار نہیں ملتا اور عوامی نمائندوں کو فیصلہ سازی میں حقیقی طور پر شامل نہیں کیا جاتا، تب تک تنازعات کا خاتمہ ممکن نہیں۔ اگر وفاقی نظام میں صوبائی حقوق کا احترام نہیں کیا جاتا اور وسائل کی منصفانہ تقسیم نہیں ہوتی، تو پھر جمہوریت کا دعویٰ محض ایک دکھاوے سے زیادہ کچھ نہیں۔ بلوچستان کے عوام کو ان کے جائز حقوق دلانے کے لیے ضروری ہے کہ ان کی حقیقی نمائندگی کو تسلیم کیا جائے، وسائل پر ان کا کنٹرول ہو، اور مرکز یک طرفہ فیصلے کرنے کی بجائے مشاورت کو ترجیح دے۔ ورنہ، یہ نہ تو جمہوریت ہے اور نہ ہی انصاف، بلکہ ایک نئی شکل میں استحصال ہے۔

یہ معاہدہ نہ صرف آئینی اصولوں کی خلاف ورزی ہے بلکہ بلوچستان کے وسائل پر ایک منظم قبضے کی کوشش ہے۔

اگر صوبے اسی طرح اپنی مشترکہ ملکیت، انتظامی اختیارات اور مالی حقوق سے دستبردار ہوتے رہے تو یہ صرف بلوچستان کے لیے نہیں بلکہ وفاقی اتحاد کے لیے بھی ایک سنگین خطرہ ہے۔ تو اس سب کو دیکھ کر کوئی عام شخص بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ بلوچستان کا مسئلہ جمہوریت کے ساتھ وابستہ ہے۔ جب پاکستان میں جمہوری نظام بحال ہو گا تو بلوچستان کا مسئلہ بھی حل ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments