جو ورق پھاڑڈالا تھا بھٹو نے اس پر کیا لکھا تھا


ذوالفقارعلی بھٹو نے سلامتی کونسل میں کچھ اوراق پھاڑدیے تھے، دنیا نے دیکھا۔ مہینوں کو محیط رات کے آخری پہربھٹو نے ایک ورق پھاڑ دیا تھا، کسی نے نہیں دیکھا۔ سلامتی کونسل میں میں بکھرے کاغذ کے پرزوں پر پولینڈ کی قرارداد درج تھی یا بھٹو کی اپنی تقریر کے مندرجات، یہ سب جاننا چاہتے ہیں۔ رات کی تاریکی میں چمکتے پرزوں پہ کیا لکھا تھا، کوئی جاننا نہیں چاہتا۔ بھٹو کے نکل جانے کے بعد اقوام متحدہ ایسوسی ایٹڈ پریس کے نامہ نگار افتخارعلی ٹکڑے جوڑ کرمندرجات سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر کرنل رفیع الدین کال کوٹھڑی میں بکھرے اوراق کا نوشتہ جاننا نہیں چاہتے۔ وہ شاید عدم کی طرح فقط ان کی بدن بولی پہ دھیان دیے ہوئے تھے۔

کرنل رفیع الدین راولپنڈی کے سیکیورٹی انچارج تھے۔ یہیں ذولفقارعلی بھٹو پابند سلاسل تھے۔ بھٹو صاحب کے شب وروز کرنل رفیع نے بچشمِ خود دیکھے۔ شب و ورز کا جتنا کہا سنا دستیاب تھا، کرنل رفیع نے اپنی خود نوشت ”بھٹو کے آخری تین سو تئیس دن“ میں درج کردیے ہیں۔ بھٹو صاحب کی آخری رات اسی کتاب میں میں چپ چاپ ٹھہل رہی ہے۔ کرنل رفیع نے کیا دیکھا۔ آپ بھی دیکھیے
جیل سپرٹینڈنٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کے سیل میں شام ساڑھے چھ بجے ایک شخص کے ساتھ دورہ کیا، جیل عہدیدار نے پی پی پی کے بانی کو فرش پر لیٹے ہوئے پایا تو اس نے ذوالفقار علی بھٹو کی توجہ حاصل کرنے کے لیے پہلے ان کا نام پکارا اور پھر پھانسی کا حکم نامہ پڑھ کر سنایا۔

کرنل رفیع نے حکم نامے میں کیا سنا۔ آپ بھی سنیے

”عدالتی احکامات کے مطابق اٹھارہ مارچ 1978 کے لاہور ہائیکورٹ کے حکم کے مطابق آپ یعنی ذوالفقار علی بھٹو کو نواب محمد احمد خان کے قتل کے جرم میں پھانسی پر لٹکایا جائے گا، آپ کی سپریم کورٹ میں درخواست چھ فروری 1979 کو مسترد کردی گئی اور نظرثانی درخواست کو چوبیس مارچ 1979 کو رد کیا گیا۔ صدر پاکستان نے اس معاملے میں مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو اب آپ کو لٹکانے کا فیصلہ کیا گیا ہے‘

اس موقع پر کرنل رفیع الدین نے بھٹو کے چہرے پر کیا تاثرات دیکھے۔ آپ بھی دیکھیے

”سپرٹینڈنٹ جب حکم نامہ پڑھ رہے تھے تو میں نے بھٹو صاحب کے چہرے پر کسی قسم کی فکر کے آثار نہیں دیکھے بلکہ میں نے انہیں پرسکون اور چہرے پر مسکراہٹ سجائے دیکھا“۔

کچھ دیر کی خاموشی کے بعد بھٹو صاحب نے کیا کہا۔ سن لیجیے

”پھانسی کے احکامات سزا کے چوبیس گھنٹے پہلے سنائے جانے چاہیے تھے مگر ایسا نہیں ہوا۔ جب صبح ساڑھے گیارہ بجے میں اپنی اہلیہ اور بیٹی سے ملا تو مجھے سزا کے دن یا وقت کے بارے میں معلوم نہیں تھا“

سپریٹنڈنٹ نے پوچھا، سزا میں کچھ ہی گھنٹے رہتے ہیں۔ کیا آپ وصیت لکھنا چاہیں گے؟ بھٹو صاحب نے اثبات میں جواب دیا اور کاغذ قلم طلب کیا۔ کاغذ قلم مہیا کردیا گیا۔ رات آٹھ بجے بھٹو صاحب نے کافی پی۔ اپنے مشقتی عبدالرحمن کو پانی گرم کرنے کو کہا۔ شیو بنائی دانت مانجھے تازہ دم ہوگئے۔ بستر پر نیم دراز لیٹ کر کچھ لکھنے لگے۔ یکایک رکے، وارڈن کو آواز دے کر پوچھا پھانسی میں کتنا وقت رہ گیا ہے۔ جواب ملا، کچھ ہی گھنٹے رہتے ہوں گے۔ قلم بند کیا، ورق پھاڑ ڈاالا، یہ کہہ کر سوگئے کہ ایک بجے سے پہلے اٹھا دینا۔ اس کے بعد کی داستان وہی ہے، جس نے چار اپریل کو خلیفۃ المسلمین کی شکست کا دن بنا دیا۔ ایک سوال مگر پیچھے رہ گیا۔ جو ورق بھٹو صاحب نے پھاڑ دیا تھا، اس پر کیا لکھا تھا۔ مورخ ان اوراق کو مسل کے گذر جاتا ہے۔ نہیں بتانا چاہتا کہ کیا لکھا تھا۔ اب یہی سوال رہ جاتا ہے کہ ان اوراق پہ کیا لکھا ہوگا۔

مدتوں کی مسافت اب تک طے ہوچکی۔ پھانسی دینے والے مرگئے۔ سولی چڑھنے والا زندہ ہے۔ پلوں کے اوپر نیچے سے کئی پانی گذرگیا۔ چار اپریل آتا ہے، گذر جاتا ہے۔ آج چار اپریل ہے۔ بکھرے ہوئے ورق کے پرزے سامنے ہے۔ جوڑیے تو تصویر نہیں بن پاتی۔ جو لکھا ہے، بمشکل تمام یہی سمجھ آرہا ہے کہ

”زندگی دراصل جنم لینے کا عمل ہے۔ موت پیدائش کا اعلان ہوتی ہے۔ موت صرف اتنا بتاتی ہے کہ آپ زندہ حالت میں پیدا ہوئے کہ مردہ حالت میں۔ میں دو بج کر پانچ منٹ پرپیدا ہونے والا ہوں۔ ظلم کی تقدیر بتاتی ہے کہ میں زندہ حالت میں پیداہوں گا۔ جینے کے لیے پیدا ہوں گا۔ مجھے کوئی سولی نہیں چڑھا سکتا۔ یہ حق کسی جابر کا نہیں کہ مجھے مار ڈالے۔ یہ حق صرف اپنے ورثا کو دے سکتا ہوں، چاہیں تو زندہ رکھیں۔ چاہیں تو مارڈالیں“

چیخنے چلانے کا نہیں، پانچ جنوری غور وفکر کا دن ہے۔ یہ تو طے ہے کہ جنرل ضیا الحق کی سجائی ہوئی سولی سے بھٹو نے جنم لیا تھا۔ یہ دیکھنا رہتا ہے کہ بہت کم عمری میں بھٹو کہاں چلے گئے۔ جہاں کہیں بھی ہیں، کوئی معلوم کرکے بتائے کہ زندہ ہیں یا ماردیے گئے ہے۔ زندہ ہیں تو یقیناً ہر اس گھر میں ہوں گے جس کی چھت برسات میں ٹپکتی ہے۔ اگر وہاں بھی نہیں ہیں پھر یقینا مار دیے گئے ہوں گے۔ ایسا ہے تو پھر خنجرآزما کون ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).