چین اپنا یار ہے، اُس پہ جاں نثار ہے


پیارے مسلمان بھائیو بہنو! ہمالیہ سے اُونچی اور سمندروں سے گہری پاک چین دوستی آج پھرملک دشمن عناصرکی طرف سے چاند ماری کی زد میں ہے۔ ان میں سے اکثریت لبرل فاشسٹ اور بھارت نواز حلقوں پر مشتمل ہے جنھیں سی پیک جیسی تاریخ ساز پیش رفت اور چین کی پاکستان میں سرمایہ کاری ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ تاہم اس پر بات کرنے سے پہلے بارے کچھ پروفیسراحمد شاہ پطرس بخاری مرحوم کا ذکر ہوجائے۔

استثنائی طور پر باصلاحیت اور ماہر سفارت کار اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے سب سے پہلے مستقل مندوب پطرس بخاری صاحب سے ایک مرتبہ ممالک کے درمیان دوستیوں کے بارے میں سوال کیا کیا۔ بخاری مرحوم نے جواب دیا “بین الاقوامی اُمور میں کوئی دوستی نہیں ہوتی ، ہاں تعلقات ضرور ہوتے ہیں، وہ بھی اکثر حالات میں ناجائز”۔ اگر اس بات کو پلے باندھ لیا جائے تو شاید معاملات کی تفہیم میں کچھ آسانی ہوجائے گی۔

چین کے ایک مغربی صوبے سنکیانگ میں بسنے والے مٹھی بھرچینی مسلمانوں سے متعلق ایک قطعا غیر اہم سے معاملے پر بات کرنے کی اتنی ضرورت تو نہیں تھی لیکن ان لوگوں کی ہرزہ سرائی نے قلم اُٹھانے پر مجبور کردیا۔ پورے ایک ارب چھتیس کروڑ آبادی والے ملک میں اویغور نسل سے تعلق رکھنے والے ان مسلمانوں کی تعداد ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ نہیں اور جتنے اچھے مسلمان یہ ہوسکتے ہیں اس کا اندازہ کرنا بھی مشکل نہیں۔ ان کے اسلام پر چلنے سے نہ پاکستان کا کوئی فائدہ ہے نہ اسلام کو اس سے کوئی فرق پڑتا ہے۔ اب ہمارے دیرینہ دوست چین نے ‘اسلامی انتہا پسندی کے خلاف مہم’ کے طور پراپنے مغربی صوبے سنکیانگ میں چند چھوٹی موٹی پابندیوں کا اعلان کیا کردیا تو ان حلقوں کو اپنا غبار نکالنے کا موقع مل گیا ہے۔ بیواؤں کی طرح بین ڈالنے اورسینہ کوبی کا سلسلہ شروع کردینے والے یہ مذہب بیزار حلقے چینی مسلمانوں کی ہم دردی میں نہیں بلکہ پاک چین دوستی پر اپنے خبث باطن کے اظہار کی خاطر یہ سبھی کچھ کر رہے ہیں۔ حالانکہ دیکھا جائے توان پابنیدیاں کی حقیقت کچھ بھی نہیں۔ بس یہی تقاضا کیا گیا ہے کہ ‘غیر فطری طور پر لمبی ڈاڑھی’ نہیں رکھی جائے گی اورعوامی مقامات پر پردہ نہیں کیا جائےگا۔ سرکاری ٹی وی دیکھنےسے انکار بھی نہیں کیا جائے گا۔ باقی رہا سوال روزے رکھنے یا عوامی مقامات پر نماز پڑھنے پر پابندی کا توان کا حالیہ اعلانات سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ یہ پابندیاں تو پہلے ہی سے نافذ العمل ہیں۔

اب جبکہ ہمیں ‘نیل کے ساحل سے لے تابخاک کاشغر’ ہر جگہ کے معاملات دیکھنا ہوتے ہیں تو ہمیں بہتر پتا ہے کہ کس جگہ پر کیسی حکمت عملی سے کام لینا ہے۔ مگر یہ بات وہ لوگ کیسے سمجھ سکتے ہیں جو ایمانی غیرت سے بالکل تہی دامن ہوں اور بے حمیتی جن کے روگ و پے میں بسی ہو۔ یہ لوگ کان کھول کر سُن لیں کہ یہ فیصلہ کرنا ہمارا کام ہے کہ دیارمغرب میں مسلمانوں کے لیےاپنےعقیدے کے مطابق زندگی گزارنے کے سکڑتے ہوئےمواقع پرلوگوں کے ضمیر کو جھنجھوڑا جائے یا نہیں نیز کشمیر، برما اور فلسطین میں اُن پردِن رات توڑے جانے والے مظالم پر مسلمانوں کوخون کے آنسو رُلایا جائے اور چندہ جمع کرنے کے کیمپ لگائے جائیں یا نہیں۔ پھر یہ طے کرنے کا استحقاق بھی ہمارا ہے کہ حال ہی میں سیکولر بھارت میں گاؤ کُشی پر پابندی اورمسلمانوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات کو ایک نئی پاک بھارت جنگ کے پیش خیمے کے طور پر عوام کے سامنے رکھا جائے یا نہیں۔ اگر ہم بھارت کے مسلمانوں کو سیکولرازم کے ساتھ وفادار رہنے کی تلقین کرتے ہیں تو یہ بھی ہمارا اندرونی معاملہ ہے، اس پر لبرل حلقوں کے پیٹ میں کیوں مروڑ اُٹھتے ہیں؟

پیارے مسلمان بھائیو بہنو!حکمت کا تقاضا یہی ہے کہ دُنیا کے کسی بھی کونے میں مسلمانوں پر ظلم و زیادتی کی خبر ملے تو ایسے ہی مُنہ اُٹھا کر احتجاج کے لیے سڑکوں پر نہ نکلا جائے بلکہ پہلے یہ دیکھ لیا جائے کہ اس میں اُمہ کا (یعنی ہمارا) کوئی مفاد ہے یا نہیں۔ مثال کے طور پراب یہ ہمارے سعودی رب یا خلیجی ریاستوں کے دیگر زمینی خداؤں کا ذاتی مسئلہ ہے کہ وہ مسکین مسلمان ممالک سے آنے والے مزدوروں کے ساتھ جیسا بھی حُسن سلوک کریں۔

لیکن بدقسمتی سے چینی مسلمانوں کی مشکل کی اس گھڑی میں بھی چند مذہب بیزار قسم کے لبرل فاشسٹ لوگ سیاسی فائدہ آٹھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ان عناصر کو پاک چین تعلقات سے تکلیف ہے اور انھیں معلوم ہے کہ (پاکستان کے) مسلمانوں کے ساتھ واردات کرنے کا آسان ترین طریقہ یہ ہے کہ ان کے مذہبی جذبات کو آگ لگا دی جائے۔ یہ لوگ دراصل کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہمالیہ کی دوچوٹیوں میں دراڑیں ڈالنے کی بچگانہ کوشش کررہے ہیں اور مجھے آپ کے جذبات سمجھنے میں قطعا مشکل پیش نہیں آتی کہ اویغور چینی جو ویسے کچے پکے قسم کے مسلمان ہیں،اُن کی ظاہری وضع قطع اور عبادات پر پابندیوں سے کونسی قیامت ٹوٹ پڑے گی۔ فرزندان حق اپنے جذبات پر قابو رکھیں۔ ہمیں ان ناہنجار لوگوں کو یہ بات اچھی طرح باور کرانے کی ضرورت ہے کہ سودا بیچتے وقت اور سودا خریدتے وقت ایک جیسے باٹ استعمال نہیں کیے جاسکتے۔ اس وقت فائدہ چین اور روس کے ساتھ یاری نبھانے میں ہے لہذا امریکی سامراج کی ‘سمر قند و بخارا کی خونی سرگزشت’ جیسے ناولٹ شائع کروا کے تقسیم کرنے جیسی سازشیں ہمیں ہرگز یاد نہ دلائی جائیں۔ ویسے بھی آج سے پچاس ساٹھ برس پہلے کسی بھی ملک کے کوئی اندرونی معاملات کب ہوا کرتے تھے؟ مگر آج زمانہ بدل چکا ہے، اب ہر چھوٹے بڑے ملک کے ذاتی معاملات بھی ہوتے ہیں۔

یہ لبرل فاشسٹ عناصر، ذرا سوچیں کہ ایک طرف تو وہ مذہب کو ذاتی معاملہ قرار دیتے ہیں تو پھر کسی ملک کے ذاتی معاملات پر آواز اُٹھانا ان کو کیسے زیب دیتا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).