اہل غزہ کو اسرائیل کے علاوہ حماس سے بھی خطرہ ہے
ہیگ میں عالمی عدالت انصاف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی اس درخواست پر غور شروع کیا ہے کہ اسرائیل غزہ کے باشندوں کے لیے خوراک کی فراہمی روک کر اور فلسطینیوں کے لیے اقوام متحدہ کی امدادی ایجنسی انروا پر پابندی لگا کر بین الاقوامی قانون کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہا ہے۔ تاہم غزہ کے باشندوں کے لیے زندگی و موت کی صورت حال پیدا کرنے میں حماس بھی برابر کی ذمہ دار ہے۔
اس دوران اسرائیلی فوج مسلسل غزہ میں حملے کرنے اور مزید علاقوں پر قبضہ کرنے میں مصروف ہیں۔ الجزیرہ کی اطلاع کے مطابق گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران اسرائیلی حملوں میں 70 سے زائد لوگ جاں بحق ہوئے ہیں۔ اسرائیل پر 7 اکتوبر 2023 کے حملہ کے بعد سے غزہ میں اسرائیلی جنگ جوئی کے نتیجہ میں مرنے والوں کی تعداد 55 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔ جنوری میں یرغمالیوں کی واپسی اور غزہ سے اسرائیلی فوجوں کی واپسی کے لیے ہونے والا معاہدہ ایک دوسرے پر الزام تراشی کے ماحول میں 18 مارچ سے ختم ہو چکا ہے۔ اس کے بعد سے اسرائیل مسلسل غزہ میں حملے کر رہا ہے جس میں روزانہ ہلاکتوں کی رپورٹیں موصول ہو رہی ہیں۔ دنیا میں رونما ہونے والے نئے تنازعات و سانحات کی وجہ سے اس وقت غزہ کی صورت حال عالمی خبروں میں نمایاں نہیں ہو پاتی۔ حالانکہ اسرائیل نے 3 مارچ سے غزہ کے لیے ہر قسم کی امداد کی فراہمی بند کی ہوئی ہے۔ عالمی ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ اگر خوراک و پانی کی سپلائی اور طبی ساز و سامان کی فراہمی بحال نہ ہوئی تو غزہ کے 10 لاکھ سے زائد بچے شدید قحط کا سامنا کریں گے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے گزشتہ سال دسمبر میں بھاری اکثریت سے منظور کی گئی ایک قرار داد میں انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس سے غزہ کے محصور لوگوں کو امداد کی ترسیل کے حوالے سے قانونی پوزیشن واضح کرنے کی درخواست کی تھی۔ جنرل اسمبلی کا کہنا ہے کہ اسرائیل غزہ کے فلسطینیوں کی امداد روک کر اور فلسطینیوں کے لیے کام کرنے والی اقوام متحدہ کی ایجنسی انروا پر پابندی عائد کر کے بین الاقوامی قانون کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ناکام ہوا ہے۔ اسرائیل کا موقف ہے کہ اس نے یرغمالیوں کی رہائی کے لیے غزہ کا بلاکیڈ کیا ہوا ہے کیوں کہ حماس کے جنگجو اس امداد کو لوٹ لیتے ہیں اور اس سے اپنی مجرمانہ قوت میں اضافہ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ اور امداد فراہم کرنے والے دیگر ادارے اسرائیلی الزامات کی تردید کرتے ہیں۔ وہ اس اسرائیلی موقف سے بھی متفق نہیں ہیں کہ غزہ میں مناسب مقدار میں خوراک موجود ہے اور وہ مسلسل صورت حال کا جائزہ لے رہا ہے۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان قطر، مصر اور امریکہ کے تعاون سے جنوری میں جس جنگ بندی پر عمل شروع کرایا گیا تھا وہ بمشکل دو ماہ چل پائی۔ اس وقفے میں غزہ کے شہری ایک بار پھر اپنی زندگی از سر نو شروع کرنے کی تگ و دو کرنے لگے تھے لیکن 18 مارچ سے اسرائیلی حملوں کی وجہ سے وہ ایک بار پھر غزہ کے محدود علاقے میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے پر مجبور ہیں۔ گزشتہ 7 ہفتوں کے دوران غزہ میں کسی قسم کی امداد نہیں پہنچی۔ اقوام متحدہ کے زیر انتظام غزہ میں کام کرنے والی 25 بیکریاں آٹا اور ایندھن نہ ہونے کی وجہ سے مارچ کے آخر سے بند پڑی ہیں۔ اب عالمی عدالت انصاف کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کیا اس طریقے سے اسرائیل عالمی قانون کے تحت اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام ہو رہا ہے۔ عالمی عدالت انصاف یہ پورا ہفتہ 39 ممالک اور مختلف تنظیموں کے دلائل سنے گی البتہ آئی سی جے کی کوئی رولنگ آنے میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔ اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ اسرائیل عالمی عدالت انصاف کے کسی حکم کو مانے گا۔ اس سے پہلے بھی اس نے اس عدالت سے جاری ہونے والے تمام احکامات کو مسترد کیا ہے۔
موجودہ صورت حال، امریکہ میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے اور حماس کو مکمل طور سے ختم کرنے کے مقصد میں اسرائیل کا مکمل ساتھ دینے کے فیصلہ کے بعد سے دیکھنے میں آئی ہے۔ ایران جو 7 اکتوبر 2023 کو ہونے والے سانحہ کے بعد حماس اور لبنان کے عسکری گروہ حزب اللہ کو سیاسی و عسکری امداد فراہم کرتا رہا ہے، اب خود امریکی حملوں سے بچنے کے لیے ٹرمپ حکومت کے ساتھ کسی معاہدے کے لیے بات چیت کر رہا ہے۔ اس دوران صدر ٹرمپ نے عالمی تجارتی نظام کو تبدیل کرنے کے لیے جو ٹیرف وار شروع کی ہے، اس کے تناظر میں مغربی ممالک کے علاوہ دنیا بھر کے لیڈروں کی توجہ اس صورت حال سے پیدا ہونے والے مسائل پر مبذول ہے۔ اسرائیل اس صورت حال کو پوری طرح من مانی کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ ایک طرف ٹرمپ غزہ کے باشندوں کو وہاں سے نکال کر دوسرے ملکوں میں آباد کرنے کی تجویز دے کر غزہ پر امریکی قبضے اور اسے ’شاندار تجارتی و سیاحتی مرکز‘ بنانے کی تجویز پیش کر چکے ہیں۔ تو دوسری طرف عرب ممالک نے غزہ کی بحالی کے لیے ایک ایسا منصوبہ پیش کیا ہے جس میں غزہ کے باشندوں کو وہاں سے زبردستی نکالنے کا طریقہ مسترد کیا گیا ہے۔
تاہم ان دونوں منصوبوں میں حماس کا کوئی مستقبل نہیں۔ امریکہ اسرائیل کے ساتھ مل کر حماس کو مکمل طور سے تباہ کر دینا چاہتا ہے جبکہ عرب ممالک کے منصوبہ میں حماس کے جنگجوؤں کو غیر مسلح کر کے اس علاقے میں ماہرین پر مشتمل غیر جانبدار حکومت قائم کی جائے گی۔ البتہ یہ دونوں منصوبے محض کاغذی کارروائی یا بیان بازی کی حد تک سامنے آئے ہیں۔ ان میں غزہ کے شہریوں کو اسرائیل کے قہر سے بچانے اور انہیں زندگی کی امید دلانے کا کوئی طریقہ موجود نہیں۔
آج ہیگ میں انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کا اجلاس شروع ہوا تو سب سے پہلے فلسطینی سفیر عمار حجازی نے کہا کہ غزہ کے لیے خوراک کی فراہمی بند کر کے اسرائیل خوراک و پانی کو ’جنگی ہتھیار‘ کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ انتہائی جذباتی انداز میں عدالت کے ججوں کو مخاطب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ غزہ کے فلسطینیوں کی نسل کشی کے منصوبے پر عمل کیا جا رہا ہے۔ اسرائیلی اقدامات سے فلسطینیوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ اقوام متحدہ میں فلسطین کے سفیر ریاض منصور نے عدالت کو بتایا کہ اسرائیل ایسے حالات پیدا کر رہا ہے جن میں ان لوگوں کے لیے زندہ رہنے کا کوئی امکان نہیں ہو گا۔ ہیگ سے ہزاروں میل دور دوحہ میں ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے قطر کے وزیر اعظم نے بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا۔ وزیراعظم و وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمان بن جاسم الثانی نے غزہ کی صورت حال کو دنیا کے ضمیر پر بوجھ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ غزہ میں سردی اور بھوک سے بچے مر رہے ہیں اور ان ہتھکنڈوں کو معمولی سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
غزہ کی اس تکلیف دہ صورت حال کے جواب میں مسلمان ملکوں میں بیان بازی یا احتجاج کے سوا کوئی ٹھوس پالیسی یا اس مشکل سے نکلنے کا کو کوئی طریقہ ڈھونڈنے کا رویہ سامنے نہیں آیا۔ پاکستان کے مذہبی رہنماؤں نے اسلام آباد میں اس ماہ کے شروع میں ’قومی فلسطین کانفرنس‘ منعقد کی اور اسرائیل و امریکہ کے خلاف نفرت انگیز تقریریں کرنے اور امریکی مصنوعات کا بائیکاٹ کر کے ’غزہ آزاد‘ کرانے کا عزم کیا۔ اس کے بعد مذہبی جماعتوں کے بینر تلے ’اسرائیل مردہ باد‘ ریلیاں نکالی جا رہی ہیں۔ مسئلہ صرف اتنا ہے کہ مذمتی قرارداوں اور مردہ باد کے نعروں سے غزہ کے شہریوں کو کوئی ریلیف نہیں مل سکتا۔
غزہ کے شہریوں نے اپنی صعوبتوں سے تنگ آ کر حماس کے جنگجوؤں کے خلاف احتجاج و مظاہرے کرنے کی کوشش کی ہے لیکن حماس فی الحال ان مظاہروں کو دبانے میں کامیاب ہے۔ البتہ اس کی مسلسل کم ہوتی عسکری صلاحیت کے سبب، یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ کتنی دیر تک زبردستی غزہ کے لوگوں کی ’نمائندہ‘ ہونے کا دعویٰ کرتی رہے گی۔ حقیقت حال یہ ہے کہ غزہ کے شہری ایک طرف اسرائیلی جبر اور جنگ جوئی کا شکار ہیں تو دوسری طرف حماس غزہ کے 22 لاکھ باشندوں کو ’یرغمال‘ بنا کر کسی بھی طرح اپنا مستقبل محفوظ رکھنے کی تگ و دو کر رہی ہے۔
بدنصیبی سے مسلم ممالک کے نمائندے اسرائیل کے خلاف تو نعرہ زن ہوتے ہیں لیکن حماس کے جبر و ستم، ناقص حکمت عملی اور غزہ کو اس کے باشندوں کے لیے روئے زمین پر جہنم بنا دینے کے ہتھکنڈوں کے خلاف آواز اٹھانے پر آمادہ نہیں ہیں۔ پاکستان سمیت کسی بھی مسلمان ملک میں یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کی جا رہی کہ حماس فلسطینی کاز کی نمائندہ نہیں۔ اسے ایک خاص ماحول میں غزہ میں انتخابی کامیابی ضرور حاصل ہوئی تھی لیکن مغربی کنارے کے علاوہ لبنان و اردن میں پناہ گزینوں کی زندگی گزارنے والے فلسطینیوں کی تعداد 60 لاکھ سے زیادہ ہے۔ فلسطین کے مستقبل کا فیصلہ کرتے ہوئے ان لوگوں کی رائے بھی شامل کرنا پڑے گی۔ حماس اپنے انتہا پسند ہتھکنڈوں اور اپنے ہی لوگوں کو جنگ میں جھونکنے کی وجہ سے اب غزہ یا فلسطینیوں کی کسی قسم کی نمائندگی کے حق سے محروم ہو چکی ہے۔
عرب ممالک کے علاوہ پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک کو اسرائیل کی مذمت کے علاوہ حماس سے جان چھڑانے کے کسی منصوبہ پر کام کرنا چاہیے۔ یہ تمام ممالک اگر حماس کو غیر مسلح کرنے کا کوئی منصوبہ سامنے لائیں اور اسرائیل و امریکہ کے تعاون سے غزہ میں امن قائم کرانے کی کوشش کریں تو غزہ کے باشندوں کو موجودہ قحط اور نسل کشی کی صورت حال سے بچایا جاسکتا ہے۔ اس موقع پر اسرائیل کو برا بھلا کہنے کی بجائے ان عناصر سے نمٹنے کی ضرورت ہے جو موجودہ جنگ اور المناک صورت حال کے حقیقی ذمہ دار ہیں۔
- برصغیر میں جنگی نعروں سے امن قائم نہیں ہو گا! - 17/05/2025
- تحریک انصاف خوف کی کیفیت سے باہر نکلے - 16/05/2025
- طاقت کا توازن بدل گیا، بھارت پاکستان کو کم تر نہ سمجھے - 16/05/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).