کوئی اور مرے تو اور اچھا۔ ۔ ۔


مسئلہ عقیدے، شکل، علاقے اور نسل کی بنیاد پر مارکٹائی، قتل و غارت یا املاک کے نقصان کا نہیں بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ برائی کو ہاتھ سے روکنے یا منہ سے برا کہنے والوں کی تعداد تیزی سے گھٹ رہی ہے اور برائی کو دل میں برا جاننے والوں کی تعداد بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔

آپ کوئی بھی واردات اٹھا لیں۔ آپ کو سب سے زیادہ تین طرح کے ردِ عمل دکھائی دیں گے۔ مذمت بذریعہ میڈیا، ڈرائنگ روم میں یا دکان پر بیٹھے ہم خیال لوگوں کی جانب سے ایک دوسرے کے ساتھ سرگوشی میں مذمت یا پھر ایسی خبر سن کر خودکلامی کے انداز میں ’’ دیکھو یار ان بچاروں کے ساتھ کتنی زیادتی ہو رہی ہے ’’ بڑبڑاتے ہوئے ’’ اور سناؤ کاروبار کا کیاحال ہے۔ ۔ ۔ ’’ انداز کی مذمت۔
مان لیا ریاست کمزور ہے لہذا جسے وہ برائی سمجھتی ہے، اسے ہاتھ سے نہیں روک پا رہی۔ یہ بھی قبول کہ ریاست کو چلانے والی حکومتوں کی مصلحتی کمزوریوں اور چھوٹی چھوٹی چالاکیوں کے سبب ریاست کی فوجی قیادت بھی یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ کسی واضح پالیسی اور احکامات کی عدم موجودگی میں بھلا فوجی مشینری کس طرح ہدف کو شناخت کرکے ختم کرنے کے لیے کوئی آپریشن کرسکتی ہے۔ ۔ ۔ چلیے یہ بھی تسلیم کہ عوام کا کچھ حصہ نظریاتی عینک سے انسانی مصائب کو خانوں میں بانٹ کر دیکھنے کا عادی ہو چکا ہے اور ایک بڑا حصہ چونکہ دشمن کی شناخت و عزائم کے بارے میں کلر بلائنڈ ہے یا کنفیوز کردیا گیا ہے اس لیے اسے نہیں معلوم کہ کس کے ساتھ جانا ہے اور کس کے ساتھ رکنا ہے۔

لیکن خود کو روشن خیال، حالاتِ حاضرہ سے باخبر، سیاہ و سفید کے تجزیے کی صلاحیتوں سے مالامال، انسانیت کا بلاامتیاز دردِ دل رکھنے کے دعویداروں کا اپنا حال کیا ہے؟ اگرچہ وہ بے موت و بے جرم مرنے والوں کی یاد میں شمعیں بھی جلاتے ہیں، پلے کارڈز بھی اٹھاتے ہیں، سوشل میڈیا پر مذمتی تاثرات کی کارپٹ بمباری بھی کرتے ہیں۔ عدم برداشت و بے حسی کے رویوں کے خلاف سیمیناروں میں بھی جاتے ہیں، علامتی دھرنے، واک آؤٹ، بازو پر سیاہ پٹیاں باندھ کر دھرنے سمیت ہر وہ کرتب بھی دکھاتے ہیں جو ایسے مواقع پر اپنے جذبات کے اظہار کے لیے ضروری ہو۔ لیکن نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ مزید قتل و غارت، مزید وارداتیں، مزید بے یقینی، مزید نفرتیں، مزید کنفیوژن؟

ایسا کیوں ہے؟ ایسا اس لیے ہے کہ براہِ راست متاثر ہونے والے کسی بھی گروہ، طبقے یا فرد سے کسی بھی مذمت میں مبتلا شخص، برادری یا تنظیم کا محض ایک رسمی سا تعلق تو ہے مگر شانہ بشانہ کھڑے رہنے والا تعلق نہیں۔ کچھ عرصے پہلے تک ظلم فلسطینی پر ہوتا تھا مگر جلوس لاہور میں نکلتا تھا۔ لڑائی ویتنام میں ہورہی ہوتی مگر کراچی میں ریلیف اشیا جمع ہوتی تھیں۔ پولیس فائرنگ سے آٹھ افراد گوجرانوالہ میں مرتے تھے اور ہڑتال کوئٹہ میں ہوتی تھی۔ زلزلہ کشمیر اور صوبہِ سرحد (دو ہزار پانچ میں خیبر پختون خوا نہیں تھا ) میں آتا تھا اور کھانا اور کمبل لے کر چکوال کا آدمی پہنچتا تھا۔

اب کیا ہو رہا ہے؟ جبری طور پر غائب کرنے کے عمل کو اگرچہ لاکھوں لوگ برا سمجھتے ہیں لیکن احتجاجی کیمپوں میں صرف وہی دس بیس لوگ ہی بیٹھے دکھائی دیتے ہیں جن کا کوئی عزیز غائب ہوا ہو۔ آج تک کم از کم میں نے تو نہیں دیکھا کہ کسی سیاسی جماعت یا مذہبی تنظیم یا سماجی انجمن کے لوگ ان کیمپوں میں بیٹھے لوگوں سے یہ کہہ رہے ہوں کہ آپ کچھ دیر آرام کرلیں، کچھ دنوں کے لیے گھر ہو آئیں تب تک ہم آپ کی جگہ بیٹھتے ہیں۔

ٹی وی چینلوں کی خبری پٹیوں اور اخباری بیانات کو اگر کسوٹی مان لیا جائے تو اس ملک کی لگ بھگ آدھی سیاسی و غیر سیاسی تنظیمیں فرقہ ورانہ و نسلی بنیاد پر ہورہے تشدد اور امتیازی مذہبی قوانین کے خلاف ہیں۔ مگر کوئٹہ کے علمدار روڈ پر صرف گول چہرے والے ہزارہ ہی لاشوں کے ساتھ بیٹھتے ہیں۔ کراچی کی نمائش چورنگی پر شیعہ عورتیں، مرد اور بچے ہی عباس ٹاؤن میں بم دھماکے کے خلاف دھرنا دیتے ہیں اور جنازے میں بھی صرف شیعہ چہرے ہی نمایاں نظر آتے ہیں۔ یہی منظر اس وقت بھی ہوتا ہے جب کوئی سرکردہ سنی ٹارگٹ کلنگ یا دھماکے کا نشانہ بن جائے۔ کوئی شیعہ چہرہ تعزیتی مجمع میں نظر نہیں آتا۔ عیسائیوں کی کسی بستی کو آگ لگ جائے تو کوئی شیعہ یا سنی ان سے یکجہتی کے اظہار کے لیے سڑک بند نہیں کرتا۔ ویسے سب الاپتے رہتے ہیں کہ یہ سب کچھ پاکستان اور پاکستانیوں کے خلاف بین الاقوامی سازش کے تحت ہورہا ہے۔

میں سیاسی و سماجی کارکنوں سے اکثر پوچھتا رہتا ہوں کہ آپ اس طرح کے واقعات کی برملا مذمت تو کرتے ہیں مگرمظلوم کے شانہ بشانہ احتجاج کا حصہ کیوں نہیں بنتے؟ انھیں دور سے دلاسہ دے کر کیوں دوبارہ اپنی اپنی دنیا میں مست ہوجاتے ہیں۔ ان میں سے اکثر کا جواب یہ ہوتا ہے کہ ہم متاثرین کے دھرنے، جلوس یا نمازِ جنازہ کا حصہ بننا تو چاہتے ہیں لیکن فرقہ وارانہ و نسلی تقسیم اتنی واضح اور پرتشدد ہوچکی ہے کہ ہمیں زیادتی کے شکار لوگوں کے اچانک ردِ عمل یا ان کے مخالف کی جانب سے کارروائی کا دھڑکا یکجہتی کی ایک خاص حد پار کرنے سے روکتا ہے۔

مگر جو سیاسی جماعتیں اور تنظیمیں اس پرتشدد ذہنیت کے خلاف ہیں، ان کے کارکن جب چیف جسٹس کی برطرفی کے خلاف تحریک میں اپنے جھنڈوں کے ساتھ جوق در جوق شرکت کرسکتے ہیں تو پھر زیادتی کے شکار لوگوں کے کیمپوں، ریلیوں اور جنازوں میں یہی سیاسی و سماجی جماعتیں جھنڈے اٹھائے ہوئے کارکنوں کو کیوں نہیں بھیج سکتیں؟

کہیں اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ ہونٹوں سے جو مذمتی جملے نکل رہے ہیں وہ دل کے بجائے صرف زبان سے نکل رہے ہوں؟ اور ہمارا لاشعور قاتل کا جب کہ شعور مقتول کا حامی بن چکا ہو۔
ہو سکتا ہے کہ کوئی اس لاتعلقی کے اسباب کسی نا کسی نظریاتی، سیاسی یا مذہبی مصلحت کے سبب کھل کر نا بتا سکے لیکن اندر کی بات شاید یہی ہے کہ

حق اچھا، پر اس کے لیے کوئی اور مرے تو اور اچھا۔ ۔ ۔

جس دن سے یہ رویہ بدلنا شروع ہوگا، اسی دن سے تشدد بھی سماج سے پسپا ہونا شروع ہو جائے گا۔ ۔ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).