ذہن کے پوشیدہ سمندر: شعور، تحت الشعور اور لاشعور کا ایک جذباتی سفر
انسان کیا ہے؟ محض گوشت پوست کا چلتا پھرتا وجود؟ یا سوچوں، خوابوں، خواہشوں اور انجانے خوفوں کا ایک پیچیدہ جال؟ ہمارا ذہن، یہ کائنات سے بھی وسیع، کیا صرف وہی ہے جو ہم جانتے ہیں، جو ہماری جاگتی آنکھوں کے سامنے ہے؟ یا اس ظاہری سطح کے نیچے گہرے، پراسرار سمندر موجزن ہیں جن کی لہریں ہماری زندگی کے ساحلوں سے ٹکراتی رہتی ہیں، چاہے ہمیں ان کا احساس ہو یا نہ ہو؟ قدیم فلسفیوں سے لے کر جدید نفسیات دانوں اور نیورو سائنسدانوں تک، انسانی ذہن کی پرتیں کھولنے کی کوشش ہمیشہ سے جاری رہی ہے۔ اس سفر میں تین اہم اصطلاحات بار بار سامنے آتی ہیں : شعور، تحت الشعور، اور لاشعور۔ یہ محض نفسیاتی لغت کے الفاظ نہیں، بلکہ ہماری ذات، ہماری شناخت اور ہماری تقدیر کے تعین میں کلیدی کردار ادا کرنے والے عناصر ہیں۔
ہماری روزمرہ کی زندگی کا بیشتر حصہ شعور کی سطح پر گزرتا ہے۔ شعور، یعنی آگاہی، بیداری۔ یہ ہمارے ذہن کا وہ روشن کمرہ ہے جہاں ہم سوچتے ہیں، محسوس کرتے ہیں، فیصلے کرتے ہیں، اور اپنے اردگرد کی دنیا کا ادراک حاصل کرتے ہیں۔ جب آپ یہ سطور پڑھ رہے ہیں، تو آپ کا شعور متحرک ہے۔ آپ الفاظ کو پہچان رہے ہیں، ان کے معنی سمجھ رہے ہیں، اور شاید اپنے خیالات اور جذبات کو بھی محسوس کر رہے ہیں۔ یہ وہ ’میں‘ ہوں جسے ہم عام طور پر اپنی ذات سمجھتے ہیں۔
رینے دیکارت جیسے فلسفی نے کہا تھا، ”میں سوچتا ہوں، اس لیے میں ہوں“ ۔ یہ شعور کی ہی طاقت کا اعتراف تھا۔ شعور ہمیں منطقی استدلال کرنے، منصوبہ بندی کرنے، اور ارادی طور پر عمل کرنے کی صلاحیت بخشتا ہے۔ یہ وہ ناخدا ہے جو بظاہر ہماری زندگی کے جہاز کو چلا رہا ہے۔ ہم کیا کھائیں گے، کس سے ملیں گے، کون سا راستہ اختیار کریں گے۔ یہ فیصلے شعوری سطح پر ہوتے ہیں۔ حیاتیاتی طور پر دیکھیں تو دماغ کے پیچیدہ نیورل نیٹ ورکس، خاص طور پر پری فرنٹل کورٹیکس، شعوری افعال جیسے توجہ، فیصلہ سازی اور کام کرنے والی یادداشت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ سماجی نقطہ نظر سے، ہمارا شعور ہی ہمیں معاشرتی اصولوں، اقدار اور دوسروں کے ساتھ تعلقات کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کے قابل بناتا ہے۔ ہم شعوری طور پر اپنی زبان، اپنے رویے اور اپنے تاثرات کو ماحول کے مطابق ڈھالتے ہیں۔
لیکن کیا یہی سب کچھ ہے؟ کیا ذہن کا روشن کمرہ ہی پوری عمارت ہے؟ نفسیات اور انسانی تجربہ ہمیں بتاتا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ شعور، ایک برفانی تودے کی طرح، صرف اوپر کا چھوٹا سا حصہ ہے جو نظر آتا ہے۔ اس سطح کے بالکل نیچے ایک وسیع اور زیادہ طاقتور دنیا آباد ہے، جسے تحت الشعور کہا جاتا ہے۔ یہ نیم آگاہی کی حالت ہے، ذہن کا وہ دھندلا دالان جہاں یادیں، سیکھی ہوئی مہارتیں، عادتیں، عقائد اور تجربات سے اخذ کردہ نتائج محفوظ ہوتے ہیں۔
جب آپ بغیر سوچے سمجھے گاڑی چلاتے ہیں، ٹائپ کرتے ہیں، یا کوئی مانوس دھن گنگناتے ہیں، تو یہ آپ کا تحت الشعور ہے جو کام کر رہا ہوتا ہے۔ یہ وہ خودکار نظام ہے جو ہماری روزمرہ کی مشینری کو چلاتا ہے تاکہ شعور زیادہ اہم اور نئے کاموں پر توجہ مرکوز کر سکے۔ بچپن کے تجربات، والدین کی نصیحتیں، معاشرے کے سکھائے ہوئے سبق۔ یہ سب تحت الشعور میں نقش ہو جاتے ہیں اور ہماری پسند ناپسند، ہمارے ردعمل اور ہمارے فیصلوں پر غیر محسوس طریقے سے اثر انداز ہوتے ہیں۔
انسانی نقطہ نظر سے، تحت الشعور ہماری شخصیت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ وہ زرخیز زمین ہے جہاں ہمارے عقائد جڑ پکڑتے ہیں اور ہماری اقدار پروان چڑھتی ہیں۔ کارل راجرز جیسے ماہرین نفسیات نے اس بات پر زور دیا کہ کس طرح ہمارے تجربات، خاص طور پر وہ جو قبولیت یا رد سے متعلق ہیں، ہمارے ’خود‘ کے تصور کو تشکیل دیتے ہیں جو بڑی حد تک تحت الشعور میں رہتا ہے۔ سماجی طور پر، معاشرتی تعصبات، دقیانوسی تصورات اور ثقافتی روایات اکثر تحت الشعور کا حصہ بن جاتی ہیں، اور ہم انجانے میں ان کے مطابق عمل کرنے لگتے ہیں۔
یہ وہ جگہ ہے جہاں ’دل کہتا ہے‘ یا ’بس یوں ہی محسوس ہوا‘ جیسے جملے معنی رکھتے ہیں۔ یہ اندر کی آواز اکثر تحت الشعور میں موجود معلومات اور تجربات کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ فلسفیانہ طور پر، تحت الشعور آزاد مرضی (Free Will) کے تصور پر سوال اٹھاتا ہے۔ اگر ہمارے بہت سے اعمال اور فیصلے تحت الشعوری پروگرامنگ کا نتیجہ ہیں، تو کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟
اور پھر آتا ہے ذہن کا سب سے گہرا، سب سے پراسرار اور شاید سب سے طاقتور حصہ۔ لاشعور۔ یہ ذہن کا وہ تاریک تہہ خانہ ہے، وہ سمندر کی اتھاہ گہرائی ہے جہاں وہ خواہشات، خوف، صدمات، جبلتیں اور خیالات پناہ لیتے ہیں جنہیں ہمارا شعور قبول کرنے یا ان کا سامنا کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔ سگمنڈ فرائیڈ، جس نے نفسیات میں انقلاب برپا کیا، لاشعور کے تصور کو مرکزی حیثیت دی۔ اس کے مطابق، لاشعور ہماری شخصیت کا وہ بنیادی حصہ ہے جو ہماری جبلتوں، خاص طور پر زندگی اور موت کی جبلتیں (Eros and Thanatos) ، اور ان سماجی طور پر ناقابل قبول خواہشات پر مشتمل ہوتا ہے جنہیں بچپن سے ہی دبا دیا جاتا ہے۔
یہ دبائی ہوئی توانائی ختم نہیں ہوتی، بلکہ خوابوں، زبان کی لغزشوں (Freudian slips) ، نیوروسس کی علامات اور تخلیقی کاموں کی صورت میں اپنا اظہار تلاش کرتی ہے۔ فرائیڈ نے ذہن کی ساخت کو Id یعنیٰ لاشعور کا جبلتی حصہ، Ego یعنیٰ شعور اور حقیقت سے مطابقت رکھنے والا حصہ اور Superego یعنیٰ سماجی اور اخلاقی اصولوں کا اندرونی نمائندہ، جو تحت الشعور اور لاشعور دونوں میں جڑیں رکھتا ہے، میں تقسیم کیا ہے۔
لاشعور کا تصور صرف فرائیڈ تک محدود نہیں۔ کارل یونگ، فرائیڈ کا شاگرد اور بعد میں ناقد، نے ’اجتماعی لاشعور‘ (Collective Unconscious) کا نظریہ پیش کیا۔ یونگ کے مطابق، انفرادی لاشعور کے علاوہ، ایک مشترکہ انسانی ورثہ بھی ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتا ہے۔ یہ اجتماعی لاشعور قدیم نمونوں یا ’آرکیٹائپس‘ (Archetypes) پر مشتمل ہوتا ہے۔ جیسے ماں، باپ، ہیرو۔ جو دنیا بھر کے افسانوں، داستانوں، مذہب اور خوابوں میں مشترکہ طور پر پائے جاتے ہیں۔ یہ نظریہ انسانیت کے نفسیاتی اتحاد اور مشترکہ تجربات کی طرف اشارہ کرتا ہے، جو تاریخ اور ثقافت سے ماورا ہیں۔
حیاتیاتی نقطہ نظر سے، لاشعور کو سمجھنا سب سے مشکل ہے۔ اگرچہ جدید نیورو سائنس دماغ میں ایسے مراکز یا نیٹ ورکس کی نشاندہی نہیں کر سکتی جنہیں براہ راست ’لاشعور‘ کہا جا سکے، لیکن یہ تسلیم کرتی ہے کہ دماغی افعال کی ایک بڑی اکثریت شعوری آگاہی کے بغیر ہوتی ہے۔ ہماری سانس، دل کی دھڑکن، جسم کا درجہ حرارت۔ یہ سب لاشعوری طور پر کنٹرول ہوتے ہیں۔ اسی طرح، جذباتی ردعمل، خاص طور پر خوف یا خطرے کے وقت (جو امیگڈالا جیسے دماغی حصوں سے جڑے ہیں ) ، اکثر شعوری سوچ سے پہلے ہی وقوع پذیر ہو جاتے ہیں۔ یہ غیر ارادی اور خودکار پروسیسنگ فرائیڈین لاشعور کے تصور سے مکمل طور پر مطابقت تو نہیں رکھتی، لیکن یہ ظاہر کرتی ہے کہ ہماری نفسیاتی زندگی کا ایک بڑا حصہ ہماری شعوری گرفت سے باہر ہے۔
فلسفیانہ طور پر، لاشعور کا وجود شعور کی نوعیت، ذات کی وحدت، اور ذاتی ذمہ داری کے بارے میں گہرے سوالات اٹھاتا ہے۔ اگر ہمارے اعمال کے پیچھے ایسی قوتیں کارفرما ہیں جن سے ہم واقف ہی نہیں، تو کیا ہم اپنے کیے کے مکمل طور پر ذمہ دار ہیں؟ کیا خود شناسی کا مطلب ان گہرائیوں میں اترنا اور ان پوشیدہ محرکات کو سمجھنا ہے؟ وجودیت پسند فلسفی شاید یہ کہیں کہ لاشعور کے تصور کو بہانہ بنا کر ہم اپنی ذمہ داری سے فرار حاصل نہیں کر سکتے ؛ ہمیں اپنی لاعلمی کے باوجود انتخاب کرنا اور اس کے نتائج کو قبول کرنا ہے۔
سماجی اور ثقافتی سطح پر، لاشعور اجتماعی رویوں اور تاریخی واقعات کی وضاحت میں مدد دے سکتا ہے۔ جنگیں، نسل کشی، یا بڑے پیمانے پر سماجی تحریکیں اکثر ان گہرے، لاشعوری خوف، خواہشات اور تعصبات کی عکاسی کرتی ہیں جو کسی گروہ یا قوم کے اجتماعی نفسیات میں پنپ رہے ہوتے ہیں۔ ثقافتی کہانیاں، رسومات اور علامات اکثر لاشعوری مواد کو محفوظ رکھنے اور منتقل کرنے کا ذریعہ بنتی ہیں۔
تو، شعور، تحت الشعور اور لاشعور۔ کیا یہ واقعی الگ الگ خانے ہیں؟ یا یہ ایک ہی دریا کے مختلف بہاؤ ہیں، ایک تسلسل جس کی حدود دھندلی ہیں؟ زیادہ تر جدید ماہرین نفسیات انہیں ایک تسلسل کے طور پر دیکھتے ہیں۔ تحت الشعور میں موجود یادیں اور عقائد کبھی کبھار شعور میں آ سکتے ہیں، اور لاشعور میں دبی خواہشات یا خوف، تھراپی یا خود شناسی کے ذریعے، کم از کم جزوی طور پر، شعوری آگاہی میں لائے جا سکتے ہیں۔ خواب وہ کھڑکی ہیں جہاں لاشعور اور تحت الشعور کی دنیا اکثر علامتی زبان میں شعور سے ہمکلام ہوتی ہے۔
ان تصورات پر بحث آج بھی جاری ہے۔ کچھ لوگ فرائیڈ کے نظریات کو غیر سائنسی اور قیاس آرائی پر مبنی سمجھتے ہیں، جبکہ دوسرے انہیں انسانی نفسیات کی گہرائیوں کو سمجھنے کے لیے ناگزیر قرار دیتے ہیں۔ نیورو سائنس کی ترقی کے ساتھ، ہم دماغی افعال اور ذہنی حالتوں کے درمیان تعلق کو بہتر طور پر سمجھ رہے ہیں، لیکن شعور کی مکمل نوعیت اور لاشعوری عمل کی حقیقت اب بھی بڑے اسرار ہیں۔
لیکن علمی بحث سے قطع نظر، یہ تصورات ہمیں اپنی ذات کو سمجھنے کا ایک طاقتور فریم ورک فراہم کرتے ہیں۔ یہ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ہم صرف وہ نہیں جو ہم سطح پر نظر آتے ہیں۔ ہمارے اندر پوری کائناتیں آباد ہیں۔ روشن بھی، دھندلی بھی، اور تاریک بھی۔ ہماری خوشیاں، ہمارے غم، ہماری کامیابیاں، ہماری ناکامیاں۔ ان سب کے دھاگے ان تینوں سطحوں سے جڑے ہیں۔ اپنی عادتوں کو بدلنے کے لیے تحت الشعور کو سمجھنا ضروری ہے۔ اپنے غیر منطقی خوف یا بار بار پیش آنے والے مسائل کی جڑ تک پہنچنے کے لیے لاشعور کی گہرائیوں میں جھانکنا پڑ سکتا ہے۔ اور شعور وہ روشنی ہے جس کی مدد سے ہم اس اندرونی سفر کو ممکن بنا سکتے ہیں۔
یہ سفر آسان نہیں ہے۔ اپنے اندر کے تاریک کونوں کا سامنا کرنا ہمت کا کام ہے۔ اپنی ان خواہشات کو قبول کرنا جنہیں معاشرہ یا ہم خود برا سمجھتے ہیں، تکلیف دہ ہو سکتا ہے۔ لیکن خود شناسی کا یہ سفر، اپنی ذات کی مکمل حقیقت کو جاننے کی یہ جستجو، ہی شاید انسانی زندگی کا سب سے بڑا ایڈونچر ہے۔ یہ ہمیں نہ صرف اپنے آپ کو، بلکہ دوسروں کو بھی زیادہ ہمدردی اور گہرائی سے سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ کیونکہ ہر انسان، باہر سے کتنا ہی مختلف کیوں نہ ہو، اندر سے انہی شعوری، تحت الشعوری اور لاشعوری قوتوں کے زیر اثر ایک پیچیدہ اور منفرد کہانی جی رہا ہے۔
آخر میں، ذہن کا یہ ماڈل، چاہے اسے فرائیڈ کی زبان میں سمجھا جائے، یونگ کی نظر سے دیکھا جائے، یا جدید سائنس کی روشنی میں پرکھا جائے، ہمیں اپنی محدودیت اور اپنی لامحدودیت، دونوں کا احساس دلاتا ہے۔ ہم شعور کی چھوٹی سی کشتی پر سوار ہیں، لیکن نیچے تحت الشعور اور لاشعور کے گہرے، طاقتور سمندر ہیں۔ ان سمندروں کو سمجھے بغیر، ہم نہ تو اپنی منزل کا تعین کر سکتے ہیں، اور نہ ہی ان طوفانوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں جو ہماری زندگی کے سفر میں لازمی طور پر آئیں گے۔ ذہن کی ان پرتوں کو جاننا خود کو جاننا ہے، اور خود کو جاننا کائنات کے سب سے بڑے راز کو جاننے کے مترادف ہے۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).