شیر دبلے پتلے کیوں ہوتے ہیں؟


جب آپ کسی لیڈر کے یا عالم کے اتنے زیادہ معتقد ہو جائیں کہ اس کی ہر بات آپ کو درست دکھائی دینے لگے، تو اس کا مطلب ہے کہ آپ اپنا ذاتی دماغ استعمال کرنا ترک کر چکے ہیں۔ یہ ایک اچھی بات ہے۔ جب ایک عظیم، دیانت دار، مخلص اور محب وطن نظریاتی لیڈر ہماری راہنمائی کے لئے موجود ہو تو ہمیں اپنی ذاتی عقل استعمال کرنے کی بھلا کیا ضرورت ہے؟ سائنس یہ راز کھول چکی ہے کہ انسانی جسم کی بیشتر توانائی دماغ ہی خرچ کرتا ہے۔ اگر ہم اپنے لیڈر پر یقین محکم رکھیں اور فالتو باتیں سوچنا چھوڑ دیں تو ہم دماغ میں خرچ ہونے والی اس بے پناہ انرجی کو بچا سکتے ہیں۔ اس انرجی سیونگ موڈ پر جا کر بندہ توانائی سے بھر جاتا ہے۔

اب سوال یہ ہوتا ہے کہ اس بے تحاشا انرجی کا کرنا کیا ہے؟ ایسے ہی فالتو انرجی جسم میں سٹور ہوتی رہے تو بندہ پل پل کر دریائی گھوڑے جتنا موٹا ہو جائے گا۔

ہماری خوش قسمتی ہے کہ خدا نے ہر شے کا بندوبست کر رکھا ہے۔ آپ غور کریں تو علم ہو گا کہ ایسے انرجی سے بھرپور افراد کو ساری دنیا اپنی دشمن دکھائی دینے لگتی ہے۔ ان کو لگتا ہے کہ وہ دشمنوں کے درمیان ایسے گھرے ہوئے ہیں جیسے چڑیا گھر کے پنجرے میں بند ایک شیر تماشائیوں میں گھرا ہوتا ہے جو اس کی شجاعت و خونخواری کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اس پر ایسے مونگ پھلیاں پھینک رہے ہوتے ہیں جیسے وہ کسی معمولی سے بندر کے پنجرے کے باہر کھڑے ہوں۔

نتیجہ یہ کہ ان شیروں کی ساری انرجی یہی تفکرات کھا جاتے ہیں کہ ان کی ہر ناکامی کا سبب یہی دشمن ہیں جو کہ ان کے بس اور پنجرے سے باہر ہیں۔  یوں کڑھ کڑھ کر یہ سارے شیر، لائن، ٹائیگر وغیرہ وغیرہ اپنا اتنا خون جلا ڈالتے ہیں کہ دماغ استعمال کرنے والوں سے بھی زیادہ دبلے پتلے ہو جاتے ہیں۔

ان شیروں کے یہ دشمن نہایت ہی خبیث ہوتے ہیں کیونکہ وہ انرجی سیونگ موڈ پر نہیں چل رہے ہوتے بلکہ اپنا دماغ استعمال کر رہے ہوتے ہیں۔ دماغ کے اس بے جا استعمال سے وہ ان شیروں کو ستا مارتے ہیں جن کی عظمت ضرب المثل بن چکی ہے۔ یہ دشمن الٹی سیدھی منطقیں جھاڑ کر اپنے تئیں شیروں کے عظیم لیڈروں کی حماقتیں بیان کرتے ہیں اور ان کے خوب ٹھٹھے اڑاتے ہیں۔ جبکہ حقیقت تو صرف شیر ہی جانتے ہیں کہ ان کا لیڈر کبھی غلط ہو ہی نہیں سکتا۔ شیروں کے ایسا سوچنے کی وجہ ہم پہلے ہی بیان کر چکے ہیں کہ وہ انرجی سیونگ موڈ پر ہوتے ہیں۔

یہ شیر دلیل دیتے ہوئے پوچھتے ہیں کہ عقل بڑی یا بھینس؟ پھر وضاحت کرتے ہیں کہ بھینس کیوں بڑی ہوتی ہے۔ کیونکہ ایک شیر بھینس سے کئی روز تک پیٹ بھر سکتا ہے، مگر عقل سے بھلا کون سا شیر پیٹ بھر سکتا ہے؟ شیروں کے لئے بھینس ہی بڑی ہوتی ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar