عامر ہزاروی صاحب کچھ سنا آپ نے؟


برادرم عامز ہزاروی صاحب نے ’جناح کا دیس آزاد کے دیس سے کیوں بہتر ہے؟‘ اور’یہی فرق ہے مودی کے دیس اور نوازشریف کے دیس میں‘ میں جس قسم کی گفتگو کی اس کو پڑھ کر بہت سوچا کہ جواب میں کچھ لکھا جائے لیکن یہ سوچ کر ٹھہر گیا کہ میرا کوئی بھی استدلال یہ کہہ کر ٹال دیا جائے گا کہ ’آپ تو بھارتی مسلمان ہیں، آپ وطن پرستی کے پراپیگنڈے کا شکار ہیں یا پھر ممکن ہے آپ بھارت کا دفاع کرکے بھارت میں خود کو وطن پرست ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہوں۔’ دل میں کسک رہ جاتی لیکن حاشر ابن ارشاد صاحب نے ’شکر کے پیاز کی پرتیں اتارتا آدھا مسلمان‘ میں جس طرح منطقی انداز میں جذبات نگاری کے پرزے اڑائے اسے پڑھ کر اچھا لگا۔ عاصی کرنالی نے کہا تھا۔

قلم شاخ صداقت ہے، زباں برگ امانت ہے
جو دل میں ہے وہ کہتا ہوں، اداکاری نہیں کرتا

اب ذرا عامر صاحب کے مضمون پر آ جائیے، ویسے تو حاشر ابن ارشاد صاحب کے مضمون کے بعد کسی اور تحریر کی چنداں ضرورت نہیں ہے لیکن پھر بھی کچھ باتیں ہیں جو کہے بغیر نہیں رہ سکوں گا۔ حاشر ابن ارشاد صاحب کی وضع دار طبیعت ان کی تحریروں سے عیاں ہے اس لئے انہوں نے اپنے مضمون میں کسی کا نام لینے سے اجتناب فرمایا لیکن میں اس معاملے میں ذرا منہ پھٹ واقع ہوا ہوں سو کچھ باتیں کھل کر کہنا چاہوں گا۔ میرا مقصد کسی کی دل آزاری نہیں بلکہ اپنے موقف کا اظہار ہے۔

’جناح کا دیس آزاد کے دیس سے بہتر کیوں؟‘ کے جواب میں برادرم عبد العلیم صاحب نے ‘عامر ہزاروی صاحب کے موازنے کا موازنہ‘ کے موضوع پر اپنی تحریر میں ان کے الزامات یا یوں کہئے کہ ان کے طعنوں کا مدلل جواب دیا تھا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ عامر صاحب اس تحریر کے بعد بحث کو بلا وجہ نہ کھینچتے لیکن انہوں نے اس کے جواب میں ایک اور مضمون ’یہی فرق ہے مودی کے دیس اور نوازشریف کے دیس میں‘ لکھ ڈالا۔ اس مضمون کی زبان پہلے مضمون کے مقابلے میں کہیں زیادہ اشتعال انگیز تھی۔ اب اسے میری کم علمی مان لیجئے لیکن مجھے ایسا لگا کہ ان کا مقصد کوئی استدلال نہ ہوکر صرف بھارتی مسلمانوں کو اکسانے والی گفتگو کرنا تھا۔ اپنے مضمون کے آغاز میں عامر صاحب فرماتے ہیں کہ ’ٹھہرے پانی میں پتھر پھینکنے کا اپنا ہی لطف ہے۔ آپ پتھر پھینکیں اور پھر دریا کے کنارے بیٹھ کے لطف لیتے جائیں۔ ہم نے لطف لینے کے لیے ٹھہرے پانی میں کنکر پھینکا جس کا لطف لیے جا رہا ہوں۔‘

عامر صاحب جس بات پر پانی میں پتھر مارنے جیسے الفاظ کا کمبل ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں اس بات کو دراصل مزے لینا، چڑانا اور چھیڑنا کہا جاتا ہے۔ مجھے یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اشراف کو اس قسم کی حرکتیں زیب نہیں دیتیں۔ آپ صبح سے شام تک عقلی بحث کیجئے، دلائل پیش کیجئے، سامنے والے کو غلط ثابت کیجئے لیکن صرف جذباتی باتوں کے ذریعے سامنے والے میں کیڑے نکالنا اور دوسرے کو کوس کر اپنا کلیجہ ٹھنڈا کرنا یا پھر مزے لینے کے لئے کسی کو چھیڑنا ایک غریب ذوق کی علامت ہے۔

عامر صاحب سے جب کہا گیا کہ قتل و غارت گری تو پاکستان میں بھی ہے، پھر بھارت کو ہی کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے تو حضرت اپنے مضمون میں فرمانے لگے کہ قتل و غارت گری کہاں نہیں ہوتی۔ اب اس سے زیادہ مزے کی بات میں نے نہیں سنی کہ اگر پاکستان میں فرقہ واریت اور قتل و غارت گری ہے تو وہ شوقیہ ہے اور اگر بھارت میں ایسا ہو رہا ہے تو یہ بھارت کے زوال پر دلیل ہے۔

عامر صاحب کی پرابلم یہ ہے کہ ان کا پورا کا پورا استدلال بھارت سے متعلق کچھ منفی خبروں پر مبنی ہے۔ اب یہاں عامر صاحب دو جگہ غلطی کر رہے ہیں۔ ایک تو وہ بھارتی مسلمانوں کو ایک محلے کی آبادی سمجھ رہے ہیں اس لئے ان کا ماننا ہے کہ اگر بھارت کے کسی خطے میں کچھ مسلمان پریشان ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ بھارت کے تمام بیس کروڑ مسلمان زبو ں حالی کا شکار ہیں۔ عامر صاحب کو علم نہیں کہ بھارت میں مسلمانوں کی آبادی تقریبا بیس کروڑ ہے۔ آسام اور جموں و کشمیر جیسی ریاستوں میں مسلمان آبادی کا چالیس فیصد یا اس سے زیادہ ہیں۔ بہار، راجستھان، اترپردیش اور جنوبی بھارت میں مسلمانوں کے اضلاع کے اضلاع آباد ہیں اس لئے جو قوم بھارت میں اتنی پھیلی ہوئی ہو اس کے بارے میں بیک جنبش قلم کوئی حکم لگانے یا اس کے حال کا فیصلہ کرنے سے پہلے ذرا سا گوگل کر لیا جائے تو اچھا ہے۔ عامر صاحب کی دوسری غلطی یہ ہے کہ وہ محض منفی پہلوؤں کو اٹھا کر اسی پر اپنے پورے مقدمے کی عمارت کھڑی کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے سکھ مخالف فسادات کا ذکر کیا لیکن یہ نہیں بتایا کہ پارلیمان میں اس وقت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ نے ان فسادات کے لئے معافی مانگی، کانگریس کی پوری قیادت نے معافی مانگی۔ جن کانگریسی لیڈروں پر ان فسادات میں شامل ہونے کا شک تھا ان کے خلاف آج بھی مقدمے چل رہے ہیں۔ ان سب کا سیاسی کیریئر تباہ ہو گیا اور عدالتوں نے ان کے خلاف سماعت میں کوئی رعایت نہیں برتی۔ گجرات کا ذکر ہوا، لیکن عامر صاحب نے یہ نہیں بتایا کہ عدالتوں نے ان فسادات میں شامل ہونے کے الزام میں اب تک سیکڑوں افراد کو سخت سزائیں سنائیں ہیں یہاں تک کہ ریاستی وزیر مایا کوڈنانی جیسے لوگوں کو مرتے دم تک قید میں رکھنے کی سزائیں ملی ہیں۔ اور ہاں، گجرات کی ہی بی جے پی حکومت نے عدالتوں میں ان افراد کے خلاف استغاثہ کے طور پر مقدمے لڑے اور ان کو سخت سزائیں دیئے جانے کا مطالبہ کیا۔ بابری مسجد کے انہدام کا ذکر کیا لیکن عامر صاحب نے یہ بتانے کی ضرورت نہیں سمجھی کہ انہدام اور ملکیت دونوں کے مقدمات ابھی بھی عدالتوں میں چل رہے ہیں۔

عامر ہزاروی صاحب کے مضمون سے ایک بڑے کام کی چیز یہ پتہ چلی کہ پاکستان میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہو گیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ ’’اب سبھی لوگ سمجھ گئے ہیں۔ اب سبھی ملک کی بات کرتے ہیں اب وہ آوازیں کمزور ہو گئیں ہیں جو جبر کا سہارا لیتی تھیں۔ اب پاکستان کا وزیراعظم کہتا ہے کہ جنت جہنم کے فیصلے کرنا انسانوں کا حق نہیں۔ اب میرے ملک میں سلمان تاثیر کے قاتل کو بھی لٹکا دیا جاتا ہے اب ہندو اور عیسائی مذہبی جماعتوں کا رخ کر رہے ہیں اب میڈیا سیکھ چکا ہے مذہبی و سیاسی لوگ سیکھ چکے ہیں فوج اپنا کام کر رہی ہے عدالتیں مارشل لاءکا راستہ روک چکی ہیں۔‘ مجھے لگتا ہے کہ یہاں عامر صاحب نے ذرا بخل سے کام لیا۔ انہیں یہ بھی بتانا چاہئے تھا کہ اب پاکستان میں شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ پر پانی پینے لگے ہیں، مملکت خداداد کے دریاؤں میں اب پانی کی جگہ دودھ ، شہد اور روح افزا کا شربت بہنے لگا ہے۔ سکیورٹی اہلکاروں کو ڈیوٹی سے ہٹا کر بچے پڑھانے پر لگا دیا گیا ہے۔ لوگ گھروں میں نہ رات کو کنڈی لگاتے ہیں نہ دن میں کہیں جاتے وقت تالا۔ عامر صاحب کی اس عقدہ کشائی پر مجھے غش ہی آ جاتا اگر میں ہمسایہ ملک کے حالات سے ذرا بہت خود بھی واقف نہ ہوتا۔ اگر پاکستان میں سب کچھ ٹھیک ہو ہی چکا ہے تو بلاگروں کی جبری گمشدگی، داتا دربار سے لے کر لعل شہباز کے آستانے تک خون کا کھیل، شیعہ ہزارہ برادری کا قتل عام، کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کی وارداتیں، عیسائیوں کو گھیر کر مار ڈالنے کے واقعات، مختاراں مائی، ملالہ کے سر میں لگی گولی سب فرضی ہی ہوگا۔ میں کیا گنواؤں حاشر ابن ارشاد صاحب نے اپنے مضمون میں پورا چشم کشا دفتر ہی لکھ دیا ہے اس کو پڑھ کر بھی اگر عامر ہزاروی صاحب یہی کہنا چاہیں کہ پاکستان میں سب کچھ ٹھیک ہو چکا ہے تو یہ ان کی آزادی ہے۔

عامر صاحب اپنے مضامین میں بار بار اکساتے رہے کہ ’اگر بھارتی مسلمان نے فلاں فلاں بات سوچی بھی تو ان کے ملک میں ان پر زمین تنگ ہو جائے گی۔‘ مسئلہ یہ ہے کہ اکثر پاکستانی افراد کا یہ خیال ہوتا ہے کہ وہ وہاں بیٹھ کر بھارتی مسلمانوں کا حال خود بھارتی مسلمانوں سے بھی زیادہ جانتے ہیں۔ عامر صاحب کو سمجھنا چاہئے کہ بھارت ایک سو بیس کروڑ کی آبادی کا ایک ایسا ملک ہے جس میں درجنوں زبانیں، سیکڑوں بولیاں، درجنوں مذاہب، خطے اور ثقافتیں ہیں۔ پاکستان میں تو ایک ہی مذہب کا غلبہ ہے تب بھی آپس میں کتنی مار کاٹ ہے جبکہ بھارت میں اتنے مذاہب اتنی بڑی تعداد میں ہیں تب بھی فسادات یا قتل عام کی خبریں کبھی کبھار آتی ہیں۔ چند کالی بھیڑیں بہرحال ہیں لیکن ان کی گرفت بھی ہوتی ہے۔ آپ اگر یہ نہیں جانتے کہ بھارتی پارلیمان کے ایوان بالا کا قائد حزب اختلاف، بھارت کا نائب صدر، بھارت کی ذیلی اور اعلیٰ عدالتوں کے سیکڑوں جج، تقریباً ہر سیاسی جماعت کے متعدد سرکردہ لیڈر، سب سے بڑے صوبے یوپی،جس میں یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت ہے اس کا پولیس سربراہ یہ سب مسلمان ہیں تو پھر آپ بھارتی مسلمانوں کو ایسے ہی قابل رحم سمجھیں گے جیسے آپ سمجھ رہے ہیں۔ اگر آپ کو نہیں پتہ کہ تصوف کے عالمی اجتماع کا افتتاح وزیر اعظم مودی نے کیا تھا اور اس خطاب میں اسلام کی آفاقی تعلیمات پر طویل تقریر کی تھی، اگر آپ نہیں جانتے کہ یوگی آدتیہ ناتھ کابینہ میں مسلمان وزیر کو شامل کیا گیا جبکہ پارٹی کا کوئی رکن اسمبلی مسلمان نہیں تھا، اگر آپ نہیں جانتے کہ اس ملک کے وزیر اعظم سے لے کر وزیر داخلہ تک نے بار بار کہا ہے کہ دنیا کے کسی بھی ملک کا مسلمان بھلے ہی داعش کا حصہ بن جائے لیکن بھارت کا مسلمان داعش میں کبھی نہیں جا سکتا، اگر آپ نہیں جانتے کہ وزیر اعظم مودی کی حکومت کا نعرہ سب کا ساتھ سب کی ترقی ہے تو آپ ایسے ہی ہمارا مرثیہ لکھتے رہیں گے۔کوری جذباتیت اور سطحی گفتگو سے بھرے اخاری مراسلوں اور عامر ہزاروی صاحب کے بلاگ کے لہجے میں اگر کوئی فرق نہیں ہوگا تو ہم جیسوں کو افسوس ہوگا۔ امید ہے آئندہ ان کی گفتگو کی بنیاد دلائل پر ہوگی۔

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter