جب کمیونسٹ ریاست کی زبان بولنے لگیں


Loading

Writing and Outlining

 

تاریخ کا سب سے تلخ ستم یہ ہوتا ہے کہ جو پارٹیاں مظلوموں کی آواز بن کر اُٹھتی ہیں، وقت کے ساتھ وہی طاقت کی آلہ کار بن جاتی ہیں۔ جب کمیونسٹ پارٹیاں بورژوا سیاست میں الجھتی ہیں، تو ان کے نعروں سے طبقاتی جدوجہد کی للکار مدھم ہو جاتی ہے، اور ان کے بیانات سے سامراج دشمنی کی خوشبو مٹنے لگتی ہے۔

7 مئی 2025 کو بھارت کی دو بڑی جماعتوں سی پی آئی اور سی پی آئی (ایم) نے بھارت کی جانب سے پاکستان اور آزاد کشمیر میں کی گئی فوجی کارروائیوں پر جو بیانات دیے، وہ نہ صرف مایوس کن تھے بلکہ نظریاتی انحطاط کی علامت بھی۔ ان کے الفاظ بے حس اور ریاستی اصطلاحات سے لبریز تھے : ”قومی اتفاق رائے“ ، ”غیر اشتعالی اقدام“ ، ”دہشت گردی کا ڈھانچہ“ ان بیانات میں ایک لفظ بھی عام شہریوں کی ممکنہ ہلاکت کے بارے میں نہ تھا۔

جب بائیں بازو کی جماعتیں ایسی زبان بولنے لگیں، جو فاشسٹ حکومتوں کی ترجمانی کرتی ہو، تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ ان کے نام کے ساتھ ”کمیونسٹ“ کا سابقہ کس بنیاد پر جڑا ہوا ہے؟ اگر یہ پارٹیاں کمیونزم کے بنیادی اصولوں بین الاقوامیت، سامراج دشمنی، طبقاتی یکجہتی کی پاسداری نہیں کر سکتیں، تو پھر بہتر ہے کہ یہ خود کو کسی اور نام سے پکاریں۔

سی پی آئی (ایم)  نے فخر سے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں نے اس کارروائی کی حمایت کی ہے۔ سی پی آئی نے اسے ”درست ردِعمل“ قرار دیا۔ کسی نے نہیں پوچھا کہ کیا ریاست، جو خود تشدد اور جبر کی پیداوار ہے، انصاف کی ٹھیکیدار بن سکتی ہے؟ کسی نے نہیں کہا کہ اس کارروائی کے نتیجے میں جو معصوم جانیں ضائع ہوں گی، ان کا حساب کون دے گا؟

یہ محض تضاد نہیں یہ نظریاتی دیوالیہ پن ہے۔ ایک وقت تھا جب بھارتی کمیونسٹ تحریک بھگت سنگھ جیسے انقلابیوں سے ناتا جوڑتی تھی، جو سرحد پار کے محنت کشوں کو اپنا بھائی سمجھتے تھے۔ آج وہی جماعتیں قوم پرستی کی لَہر میں بہہ کر اُن خوابوں کا خون کر رہی ہیں۔

لیکن یہ بھی سچ ہے کہ بھارت کا پورا بایاں بازو اس گراوٹ کا شکار نہیں ہوا۔ کئی چھوٹی مگر نظریاتی طور پر دیانت دار کمیونسٹ جماعتیں، طلبہ تنظیمیں اور آزاد مارکس وادی گروہ اس موقع پر ان دونوں پارٹیوں کے بیانات کی شدید مذمت کر رہے ہیں۔ وہ آج بھی جنگ، عسکریت، اور ریاستی تشدد کے خلاف کھڑے ہیں۔ اُن کی موجودگی اس بات کی دلیل ہے کہ سچّا کمیونزم ابھی مرا نہیں۔ وہ حاشیے پر سہی، مگر زندہ ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم خاموش نہ رہیں۔ کمیونزم کوئی قومی مفاد کا بیانیہ نہیں، بلکہ ایک بین الاقوامی نظریہ ہے جو ظلم، جبر اور استحصال کے خلاف ہر جگہ، ہر قوم میں آواز بلند کرتا ہے۔ اگر یہ جماعتیں اس معیار پر پورا نہیں اُترتیں، تو وہ ”کمیونسٹ“ کہلانے کی مستحق بھی نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments