صدسالہ اجتماع، جوابی بیانیہ اورمولانا فضل الرحمن کا کردار


سوال ہوا، اگر مولانا فضل الرحمن نیا بیانیہ دینے جارہے ہیں تو کیا انہوں نے اس حوالے سے دیوبند کے باقی علما کو اعتماد میں لیا ہے؟ دوسرا سوال ہوا، اگر بیانیہ بدل رہا ہے تو کیا مولانا فضل الرحمن دیوبندی جہادی تنظیموں سے لاتعلقی کا اعلان کریں گے؟

بھلے لوگ ہیں جنہوں نے یہ سوال اٹھائے ہیں۔ بات یہ ہے کہ بیانیہ کوئی آئین سازی کا عمل نہیں ہوتا۔ یہ قرار داد نہیں ہوتی کہ چوراہے پہ کھڑے ہوکر رائے لی جائے اور یہ علامیہ بھی نہیں ہوتا کہ چیخ چلا کر جاری کیا جائے۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ بیانیے کی تبدیلی میں ریاست کا کرداراہم ہوتا ہے، تو اس سے مراد یہ قطعاً نہیں ہوتی کہ پارلیمنٹ اس کی کوئی دستاویز مرتب کرے اور بالغ رائے دہی کی بنیاد پر اسے منظور کروا کر نافذ کردے۔

بیانیہ نافذ نہیں ہوتا، بیانیہ رائج ہوتا ہے۔ یہ سمت کی تبدیلی کے کچھ اشارے ہوتے ہیں جو رویے سے ظاہر ہوتے ہیں۔ اس سے بحث جنم لیتی ہے اور اجتماعی شعور خودکار طریقے سے ایک ترتیب و تنظیم میں آ رہا ہوتا ہے۔ ترتیب وتنظیم کا یہ دورانیہ خود طے کر رہا ہوتا ہے کہ کتنا بولنا ہے اور کتنا آگے جانا ہے۔ ایک وقت آتا ہے کہ ترویج پانے والے اسی بیانیے کے تحت بغیر کسی مزاحمت کے پالیسی تشکیل پانے لگتی ہے۔

دوست ہماری اس رائے پر قدرے ناراضی کا اظہار کرجاتے ہیں، مگر سچ یہ ہے کہ سول قیادت نے بیانیے کی تبدیلی کے واضح اشارے دیے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ تبدیلی سیاسی مفادات کے تحت ہے، مگراس میں حرج ہی کیا ہے؟ ہماری خواہش ہونی چاہیے کہ سیاسی مفاد ان اکائیوں کے گرد گھومے جو سیاسی قیادت کو غیر جمہوری مراکز کی طرف دیکھنے سے روکے۔ یہ ممکن ہے کہ مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی کا مسلم لیگ کا حکومتی شراکت دار ہونا کوئی اخلاقی جرم ہو، مگر حالات کے پس منظر میں یہ بات زیادہ اہمیت رکھتی ہے کہ یہ دونوں بزرگ چوک کی بجائے پارلیمنٹ کے ساتھ کھڑے ہیں۔

ہمارا روایتی بیانیہ، جس کے سبب پڑوسیوں کے ساتھ ہمارے تعلقات کشیدہ ہیں، خارجہ امور کی فائل غصب شدہ ہے، غیر ریاستی عناصر ملک پہ قابض ہیں، عالمی فورمز پر ہمارا مقدمہ کمزور ہے، بجٹ غیر متوازن ہے، ملک بدستور سیکیورٹی اسٹیٹ ہے، انتہاپسند غیر جمہوری جماعتیں منتخب سیاسی قیادت کی آئینی مدت پر اثر انداز ہیں، یہ ریاست کا بیانیہ نہیں ہے۔ یہ ریاست کی غالب قوت کا بیانیہ ہے جس میں ادارہ جاتی مفادات کو قومی مفاد پر ترجیح دی گئی ہے۔ داخلی خارجی علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر مسلسل سیاسی سفارتی ہزیمتوں کے بعد امید کی آنکھ میں آرزو جاگی تھی کہ غالب ادارے رویہ بدلیں گے اور نئی دنیا کی طرف پیش قدمی کی سبیل کریں گے، مگراے بسا آرزو کہ خاک شدہ، گو کہ جنرل باجوہ کے غیر سیاسی رویے سے امید کی کچھ کرنیں چمکی ہیں۔ دیر سے سہی، مگر عوامی قیادت نے نہ صرف یہ کہ دستیاب دائرے میں امکان کی راہیں ڈھونڈی ہیں بلکہ پیش قدمی بھی کی ہے۔ یہیں سے بیانیے کی بحث چھڑی ہے جس کے بعد پارلیمنٹ اور چوک فکری بنیادوں پر بھی آمنے سامنے آگئے ہیں۔

اس موقع پر مولانا فضل الرحمن کا کردار اور بھی اہم ہوجاتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن دیگر سیاست دانوں کی طرح ایک سیاست دان ہی ہیں جن کی سیاسی کوتاہیاں واضح ہیں، مگر ماننا چاہیے کہ وہ ہمیشہ پارلیمنٹ کے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔ جنرل ضیا الحق کے لیے سب سے بہتر اسٹیک ہولڈر مولانا فضل الرحمن ہوسکتے تھے کہ جنرل ضیا جنسِ ارزاں کی طرح دینِ خدا کی باتیں بیچ رہے تھے۔ مولانا نے پاکستان کی تاریخ کے سب سے بدترین آمر کے قبضے کو مسترد کر کے عوامی سیاسی قیادت کا انتخاب کیا۔ تین برس جنرل ضیا کی جیل کاٹی مگر اس کی کابینہ کا حصہ بننے پر آمادہ نہیں ہوئے۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب مولانا فضل الرحمن کے اپنے مسلک کے اکابر علما آگے بڑھ کر جنرل ضیا الحق کو زمین پر خدا کی آخری نشانی قرار دے کر شریعت کورٹ کے قلمدان، مدرسے کے پلاٹ اور سرکاری جامعات کے شعبہ اسلامیات میں ملازمتیں حاصل کر رہے تھے۔ مولانا صاحب کی اپنے ہی مسلک کے تھانوی الفکر علما سے اسی سبب دوریاں رہیں کہ انہوں نے جنرل ضیا کے لیے وہی کردار ادا کیا جو ترک سلاطین کے لیے شیوخ الاسلام ادا کرتے تھے۔

آمدم برسر مطلب، نوے کے اواخر تک میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو میں سے بے نظیر کا انتخاب بھی مولانا نے اسی بنیاد پرکیا کہ میاں صاحب پارلیمنٹ اورچوک میں سے واضح طور پر چوک کا انتخاب کیے ہوئے تھے۔ میاں صاحب نے ذوالفقارعلی بھٹو کی پھانسی پر اطمینان کا اظہار کیا تھا جبکہ مولانا صاحب بھٹو کی پھانسی پر اس قدر رنجیدہ تھے کہ اپنے ہی والد کی جماعت کو اس جرم میں تقریبا برابر کا شریک سمجھتے تھے۔ تلخ تجربات کے بعد میاں صاحب نے بالا دست بیانیے کے برعکس ایک مختلف سیاسی بیانیے کو اپنایا ہے، جس میں پارلیمنٹ کی بالادستی اور پڑوسیوں کے ساتھ سیاسی بنیادوں پر تعلق کی استواری کو اہمیت حاصل ہے۔ سیاسی قیادت کے بیچ یہی اس وقت کا نقطہ ارتکاز بھی ہے۔

مولانا فضل الرحمن کا پاک بھارت تعلق کے حوالے سے نقطہ نظر بہت معروف ہے۔ مولانا نے جہاد کشمیر کو کبھی ازروئے شریعت جہاد تسلیم نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیر کمیٹی کا چئیرمین بننے پر کشمیر کی سیاسی تحریکوں (سوائے کشمیر لبریشن فرنٹ کے سربراہ یاسین ملک کے)، تمام جہادی تنظیموں، کشمیر کے لیے سرگرم عمل پاکستانی جہادی تنظیموں اور پاک بھارت تعلقات کو دو قومی نظریے کے خلاف سمجھنے والے دانشوروں نے اس پر خفگی کا اظہار کیا۔ گو کہ قیادت ملنے سے پہلے ہی مفتی محمود جے یو آئی کو افغان جہاد میں جھونک چکے تھے، مگر قیادت ملنے کے بعد مولانا فضل الرحمن اس کے حامی نہیں رہے۔ تحریک نظام مصطفی، جس کے سرخیلوں میں مفتی محمود بھی تھے، کو مولانا صاحب ہمیشہ سے امریکی مفادات کی تحریک کہتے آئے ہیں۔ افغان جہاد کے حوالے سے مولانا صاحب کا زیر لب موقف وہی رہا ہے جو اسی دور میں برسرِ لب مولانا شیرانی کا رہا۔ مولانا شیرانی افغان جہاد کو فساد کہا کرتے تھے اور مدارس سے جانے والے لڑاکوں کو کرائے کے معصوم قاتل کہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ملا داد اللہ نے کوئٹہ میں مولانا شیرانی پر اس دور میں خود کش حملہ کروایا جب خود کش حملوں کا موسم ابھی شروع نہیں ہوا تھا۔

بلوچستان میں جے یو آئی کا ایک بڑا دھڑا مولانا فضل الرحمن سے اسی بات پر الگ ہوا کہ مولانا واضح لفظوں میں افغان طالبان کی حمایت کیوں نہیں کرتے، طالبان رہنماؤں سے کنی کیوں کتراتے ہیں، طالبان کے لیے چندہ مہم کیوں نہیں چلاتے، وہ افغان طالبان کی بجائے افغان حکومت کے ساتھ معاملات کیوں کرتے ہیں، افغانستان ہندوستان اور چین کے سیاسی حلقوں میں ان کو حاصل احترام کی بنیاد کیا ہے، سیاسی بنیادوں کی بجائے مذہبی بنیادوں پروہ طالبان کو رعایت کیوں نہیں دیتے۔ یہی وجہ رہی کہ مولانا فضل الرحمن پر اپنے ہی صوبے میں اوپر تلے خود کش حملے ہوئے۔ ان کے بہت ہی اہم رہنما مولانا حسن جان کو طالبان نے قتل کیا، ان کے ایک دوسرے بڑے رہنما مولانا نور محمد کو دورانِ درس قتل کر کے مولانا صاحب کو اپنا قبلہ درست کرنے کا پیغام بھجوایا گیا۔ حکومت پاکستان اور ٹی ٹی پی کے بیچ ابتدا میں جب مذاکرات کے لیے ٹیموں کی تشکیل ہونے لگی تو ٹی ٹی پی قیادت نے مولانا فضل الرحمن کا نام مسترد کرکے مولانا سمیع الحق کے نام پر اصرار کیا تھا۔

اس بات پر سوچنا چاہیے کہ ہزار جتن کے باوجود بھی مولانا فضل الرحمن کو مذہبی اتحاد دفاع پاکستان کونسل میں شامل کیوں نہیں کیاجا سکا تھا۔ اس بات پر بھی کہ مولانا صاحب دائیں بازو کی جماعتوں کی نسبت بائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ سہولت کیوں محسوس کرتے ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ مولانا نہ صرف یہ کہ اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ان کی سیاسی تربیت نوابزادہ نصر اللہ خان کے بعد خان عبدالولی خان نے کی بلکہ جے یو آئی کی قیادت ملتے ہی مولانا سیدھا خان عبدالولی خان کے پاس کچھ نصیحتیں لینے چلے گئے؟ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ دائیں بازو کی قیادت بحیثیت مجموع آج بھی غیر جمہوری طاقتوں کی خیمہ بستیوں میں بیٹھ کرلال قلع پر سبز ہلالی پرچم لہرانے کی ترکیبیں سوچ رہی ہے۔

موجودہ حالات میں مولانا صاحب کیا سوچ رہے ہیں، یہ تو اس خطاب سے واضح ہے جو انہوں نے یورپی سفیروں سے کیا ہے۔ جے یو آئی اور دیوبند مسلک کے وابستگان کے لیے ضروری ہے کہ اس خطبے کے متن اور بین السطور پہ غور کریں۔ دیوبند مسلک کے دو بنیادی المیے ہیں جو یقیناً مولانا صاحب کے پیش نظر ہیں۔ دونوں المیوں نے افغان جہاد کے اثرات سے جنم لیا ہے۔ ایک یہ کہ دیوبند کا اجتماعی رویہ اول و آخرغیر جمہوری ہوچکا ہے، جس میں خود جے یو آئی کے کارکنان کا رویہ بھی شامل ہے۔ دوسرا یہ کہ فکری طور دیوبند مسلک جنرل ضیا کے دیے ہوئے نعروں کی رو میں یوں بہا کہ اپنے جدید سیاسی تصور سے ہٹ کر سید مودودی کے تصورِ سیاست و ریاست پرچلا گیا۔ یعنی دیوبند مکتب فکر کا پیروکار یا جے یو آئی کا کارکن عقیدت مند تو مولانا فضل الرحمن کا ہے مگر فکری سرگرمیوں میں وہ اس کیمپ میں نظر آتا ہے جہاں غیر جمہوری طاقتوں کے نمائندے مفروضوں اور افسانوں پہ مبنی سیاسی اسلام کے غلبے کا چراغ روشن کیے بیٹھے ہیں۔ آسان لفظوں میں یوں کہیے کہ جے یو آئی کے وابستگان کی بڑی تعداد کی مولانا صاحب سے عقیدت کی بنیاد فکر نہیں ہے، عصبیت ہے۔

مولانا صاحب کے لیے کامیابی یہی ہوگی وہ کسی بھی طور اپنے حلقہ ارادت کو غیر جمہوری کیمپ سے نکال لے جائیں، دوسرا اس حلقے کو کم از کم بھی دیوبندی سیاسی لٹریچر کی طرف واپس لے جائیں۔ دیوبندی سیاسی فکرکو یہ احساس تو ہونا شروع ہوچکا ہے کہ ان کے ساتھ ہاتھ ہوا ہے، خدا کرے کہ صد سالہ اجتماع اس احساس کی آرائش میں کامیاب ہوجائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).