یورپی یونین اور چوہدری نثار ماڈل


ad mehdiقوموں کے مفادات کا تعین کرنا، پھر مفادات کے حصول کی غرض سے حکمت عملی تشکیل دینا اور پھر مفادات کا حصول کرنا ہفتوں مہینوں نہیں بلکہ بسا اوقات صدیوں کا سفر ان تمام مراحل کو پورا کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ نو آبادیاتی دور میں فرانس میں نپولین بونا پارٹ کے اقتدار کے خاتمے کے ساتھ ہی برطانیہ میں 1815میں یورپ کے ایک ایسے اتحاد کے خواب دیکھے جانے لگے تھے کہ جس میں کچھ اقدار کو تسلیم کرکے اور قوانین کی تشکیل کے ذریعے یورپ میں تسلط کی جنگ کی بجائے مشترکہ طاقت بننے کی جانب بڑھا جائے۔ ان معاملات میں جہاں لڑائی جھگڑے ہوتے رہے وہی پر یہ خیال بھی بہرحال تقویت پاتا رہا۔ اس معاملے میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ دوسری عالمی جنگ تک دنیا کے نقشے میں بہت حد تک برطانیہ نے اپنی مرضی کے رنگ بھرے اور دوسری عالمی جنگ کے اختتام، مارشل پلان اور اس کے بعد امریکہ نے قیادت سنبھالتے ہوئے من چاہے نقشے برطانیہ کے ہمراہ تشکیل دیے۔ یورپ میں دوسری عالمی جنگ کے بعد یہ تصور مزید گہرا ہوتا چلا گیا کہ اگر باہمی اختلافات کسی پر امن تصفیے تک نہیں پہنچ پاتے تو اس کے مزید ابتری ہی نصیب میں لکھی جاتی رہے گی۔

اسی سبب سے 1957ء میں معاہدہ روم عمل میں آیا اور پھر یکے بعد دیگرے یورپی مملکتیں متحدہ یورپ کی لڑی میں پروئی جانے لگیں مگر گزشتہ سال برطانیہ کے عوام کی جانب سے یورپی یونین سے نکلنے کے حق میں رائے آنے کے بعد اس میں غیر معمولی بھونچال آگیا اور اب برطانیہ میں اس کا آغاز بھی ہوگیا ہے۔ اس آغاز سے عالمی حالات میں تبدیلی کی توقع کی جا رہی ہے۔ یہ بہت اہم ہے کہ برطانیہ کم و بیش 200 سال پرانے تصور سے کیو ں باہر آیا اور ابھی بھی کس حد تک باہر آنا چاہتا ہے قوموں کے اتنے بڑے فیصلوں کے پس منظر میں ان قوموں کی ذہنی نشوونما کو بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ برطانیہ کے عوام کسی کے زیر تحت رہنے کے لئے کبھی تیار نہیں ہوتے مگر یورپی یونین میں شمولیت کی بناپر گورے بتدریج ایسے قوانین کے تحت زندگی گزارنے پر مجبور ہو رہے تھے کہ جن قوانین کی تشکیل میں انگریز فیصلہ کن طاقت نہیں تھے۔

تقریباً 60 فیصد برطانوی قوانین یورپی یونین کی پارلیمنٹ کی اختراع تھے۔ یورپی یونین کی پارلیمنٹ سیاسی اشرافیہ کی نمائندگی کرتی ہے انگریز یہ بھی بری طرح محسوس کررہے تھے کہ یورپی پارلیمنٹ کے ذریعے ان پر غیر مسلط ہو چکے ہیں۔ اور یہ تصور اذیت ناک بنتا جا رہا تھا۔ انگریز اس اذیت کو برداشت کرتے چلے جاتے اگر اس سے برطانیہ کی معاشی حالت میں بہتری ہو رہی ہو تی۔ مگر یورپی یونین میں نسبتاً کمزور معاشی حالت کے حامل ممالک کی شمولیت اور اس کے اثرات نے ایک عام انگریز کو اس سے بد ظن کرنا شروع کر دیا۔ یونان کے بحران نے مزید جلتی پر تیل کا کام کیا اور انگریزوں میں یورپی یونین کے ساتھ رہنے کے سبب سے جو بد اثرات مرتب ہو رہے تھے ان سے چھٹکارا پانے کی سوچ مزید پنپتی چلی گئی۔ تقریباً 20 ارب اسٹرلنگ پائونڈ کی رقم برطانیہ کی جانب سے یورپی یونین کو دی جا رہی تھی۔

پھر برطانیہ میں یہ تصور بھی بہت گہرا ہوتا جا رہا تھا کہ امیگریشن کی وجہ سے برطانیہ میں دوسری قوموں کا اثر نفوذ بھی بڑھتا چلا جا رہا ہے اور اگر یہی کیفیت رہی تو برطانیہ کے پرانے باسی کے لئے اپنی زمین پر دوسروں کو بھی گرفت کرتے دیکھنا ہوگا۔ مگر اس سب کے باوجود یہ حقیقت بھی اپنی جگہ پر موجود ہے کہ یورپی یونین سے نکلنے کے فیصلے سے برطانیہ کے اپنے وجود کو بھی بہر حال خطرات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ بریگزیٹ کے حق میں جہاں مجموعی طور پر فیصلہ آیا وہیں پر اسکاٹ لینڈ اور آئر لینڈ میں عوام کی غالب اکثریت نے ریفرنڈم میں یورپی یونین میں شمولیت کے حق میں فیصلہ دیا تھا وہاں مفادات یورپی یونین کے ساتھ رہنے میں نظر آرہے ہیں۔ یورپی یونین سے نکلنے کے بعد اسکاٹ لینڈ اور آئر لینڈ یونائیٹڈ کنگڈم میں رہنے کے حوالے سے کن جذبات کا شکار ہوں گے ان میں بہرحال یو کے کی سالمیت کو خطرات پہنچ سکتے ہیں۔ برطانیہ کی 50% ایکسپورٹس چاہے مصنوعات کی صورت میں ہوں یا سروسز کی صورت میں یورپی یونین کی ممالک کی طرف ہی جاتی ہیں۔

برطانیہ کی خواہش ہے کہ وہ اس اتحاد سے صرف اتنا ہی باہر آئے کہ جتنا وہ اپنے مفادات کے خلاف تصور کرتا ہے۔ لیکن جرمنی کی چانسلر اینجلا مرکل کے اس بیان کے بعد کہ دونوں معاملات اکھٹے نہیں چل سکتے۔ یورپی یونین کے کرتا دھرتائوں کے تیور سمجھے جا سکتے ہیں برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے کے اثرات سے بہرحال پاکستان بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ یہ اثرات مثبت بھی ہو سکتے ہیں اور منفی بھی۔ برطانیہ یورپی یونین میں پاکستان کے حق میں ایک توانا آواز تھی۔ جی ایس پی پلس دلوانے میں برطانیہ نے کلیدی کردار ادا کیا تھا، جس کے نتیجہ میں صرف ایک سال میں یورپی یونین میں پاکستان کی ایکسپورٹس تقریباً ساڑھے چھ ارب ڈالر سے ساڑھے سات ارب ڈالر تک بڑھ گئیں۔ برطانیہ کی جانب سے یورپی پارلیمنٹ کے اراکین کشمیر پر ایک موثر آواز تھے۔

برطانیہ سے براہ راست زیادہ بہتر معاہدے جو پاکستان کی معیشت پر مثبت اثرات مرتب کر سکتے ہیں وقوع پذیر ہو سکتے ہیں۔ یورپی یونین میں مفادات کی بقا اور برطانیہ سے مزید مفادات حاصل کرنے کی غرض سے پاکستان کو ابھی سے معاملات پر گہری نظر رکھنی چاہیے۔ اپنے دوست ممالک سے مشاورت کرنی چاہیے اس مشاورت کا ماڈل چوہدری نثار کی جانب سے بلائی گئی گستاخانہ مواد کے معاملے پر سفیروں کی کامیاب کانفرنس سے لیا جا سکتا ہے کہ داخلی اور بین الاقوامی سطح پر مشاورت کا عمل ہو۔ خیال تو اس کا بھی رکھنا چاہیے کہ جرمنی اور فرانس کے انتخابات میں کیا نتائج سامنے آتے ہیں کہ وہ مزید بھونچال پیدا کر سکتے ہیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).