مرنے سے پہلے قبر بنوانے کا ڈسکاؤنٹ آفر پیکیج
پچیس مئی 2025 کی دوپہر تھی۔ گھر سے باہر کچھ لوگوں کے بولنے اور ٹھک ٹھک کی آوازیں آئیں۔ باہر نکل کر کر دیکھا تو محکمہ سوئی گیس والے ٹھیکیدار اور لیبر کے ساتھ آئے ہوئے تھے۔ پوچھنے پہ بتایا کہ پراجیکٹ آیا ہے کہ سوئی گیس سپلائی کا جو پائپ زمین سے نکل کر میٹر میں جا رہا ہے وہاں نیچے سے لوہے والے پرانے پائپ کی جگہ ہارڈ پلاسٹک کا پیلے رنگ کا پائپ لگا دیا جائے تاکہ آئندہ کبھی لوہے کا پائپ بوسیدہ ہو جانے سے گیس لیکیج کا امکان نہ رہے۔
گلی میں لگی سرکاری ٹف ٹائلز کو ہٹا کر گڑھا کھودا گیا اور پائپ تبدیل کر کے جانے لگے تو میں نے کہا ہر میٹر کے سامنے آپ نے پندرہ بیس ٹف ٹائلز ہٹائی ہیں تو گڑھا برابر کر کے یہ ٹف ٹائلز واپس لگا دیں۔ کہنے لگے ہم دوسری گلی میں بھی پائپ تبدیل کر کے پھر آئیں گے۔ وہ پھر واپس نہ آئے۔ بہاول پور شہر میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ دوبارہ شروع ہے۔ کبھی رات کو بھی دو تین بار بجلی کچھ دیر کے لیے چلی جاتی ہے۔ قریب کے کمرشل ایریا کی فوڈ سٹریٹ رات دو بجے تک کھلی رہتی ہے وہاں بطور باورچی، ویٹرز اور صفائی کا کام کرنے والے لڑکے کچی آبادی سے آتے ہیں۔ چھبیس مئی کو دو لڑکے فوڈ سٹریٹ سے اپنی ڈیوٹی ختم کر گھر واپس جا رہے تھے۔ بجلی گئی ہوئی تھی، اندھیرے میں موٹر سائیکل گڑھے سے ٹکرا کر گرا تو دونوں کو اچھی خاصی چوٹیں آ گئیں۔
اگلی صبح میں نے سوئی گیس کا بل اٹھا کر اس پہ لکھے ایمرجنسی نمبر 1199 پہ کال کی۔ وہاں بیٹھی خاتون نے پوچھا کہ مسئلہ کیا ہے؟ میں نے اسے ساری تفصیل بتائی اور کہا بیٹا! متعلقہ افسران تک بات پہنچا دیں کہ رات موٹر سائیکل سوار لڑکوں کو گرنے سے چوٹیں آئی ہیں۔ چند سال پہلے بھی جب زیر زمین گیس پائپ لائن پرانی ہو جانے پہ لوہے والے پائپ نکال کر ہارڈ پلاسٹک پائپ کی لائن بچھائی گئی اور ٹھیکیدار اور اس کی لیبر گڑھے برابر کرنے کی بجائے ایسے ہی چھوڑ کر چلے گئے تو اس وقت جن لوگوں کے موٹر سائیکلز ان گڑھوں میں گرے تھے تو وہ تو بری طرح زخمی ہوئے تھے اور مرتے مرتے بچے تھے۔ اس خاتون نے کہا، سر! میں آپ کی شکایت فارورڈ کر رہی ہوں۔ کچھ دیر بعد میرے موبائل فون پہ پیغام آ گیا جس پہ فون نمبر کی بجائے لکھا تھا ”ایس این جی ایل“ اور نیچے لکھا تھا آپ کی شکایت درج کر لی گئی ہے جس کا نمبر یہ ہے۔
سہ پہر کے قریب ایک صاحب نے فون کیا کہ وہ محکمہ سوئی گیس کے ملازم ہیں اپنا ایڈریس بتائیں۔ وہ آئے، گڑھا دیکھا، ہٹائی گئیں ٹف ٹائلز دیکھیں اور کہا ”گڑھے کھودنے اور برابر کرنے کا ٹھیکہ پرائیویٹ ٹھیکیدار کو دیا گیا ہے تاہم ہم آپ کی شکایت ٹھیکیدار کو فارورڈ کر دیں گے“ ۔
تین دن گزر گئے۔ میرے ہمسایہ نے مستری بلا کر اسے مزدوری کے پیسے دے کر اپنے گھر کے میٹر کے سامنے والا گڑھا بھی بھروا دیا اور ٹف ٹائلز بھی لگوا دیں۔ مستری کے آنے کا مجھے پتہ نہ چلا۔ چوہدری کی دکان کے قریب ڈھابہ پہ چوہدری کو سارا قصہ سنا رہا تھا تو قریب بیٹھا ایک رکشہ ڈرائیور سگریٹ کے کش پہ کش لگا کر بولا ”او سائیں! تُساں وی بھولے بادشاہ او۔ انہاں ٹھیکیداراں دا کوئی کُجھ نئی بگاڑ سکدا۔ انہاں وڈے وڈے افسراں کُوں قابو کیتا ہوندا اے“ (او سائیں! آپ بھی بھولے بادشاہ ہو۔ ان ٹھیکیداروں کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ انہوں نے بڑے بڑے افسروں کو قابو کیا ہوا ہوتا ہے ) ۔
اچھے برے لوگ ہر محکمہ میں ہوتے ہیں۔ میں نے ذاتی طور پہ مشاہدہ کیا ہے کہ جہاں سرکاری محکموں میں کرپشن جاری ہے وہاں ایماندار افسران اور عملہ بھی اپنا وجود رکھتے ہیں اگرچہ ان کی تعداد کم ہوتی ہے۔ سرکاری محکموں بشمول سوئی گیس، واپڈا، ہاؤسنگ، لوکل گورنمنٹ، پبلک انجینئرنگ اور ہائی ویز وغیرہ کے ایماندار اور فرض شناس افسران سے گزارش ہے کہ ترقیاتی پراجیکٹس کا ٹھیکہ دینے کے بعد روزانہ کی بنیاد پہ ٹھیکیدار کے کام کو بھی دیکھا کریں۔
ایک مثال دیتا ہوں۔ آپ بہاول پور ریلوے اسٹیشن کے مغربی پلیٹ فارم سے قائد اعظم کالونی میں اتر کر گلی میں سیدھا آگے چلے جائیں تو آپ ایک عجیب معاملہ دیکھیں گے۔ دو متوازی سڑکیں جا رہی ہیں ان کے درمیان آبادی کو چیرتی ہوئی آدھ کلومیٹر کے قریب طویل گلی ان دونوں سڑکوں کو آپس میں جوڑتی ہے۔ یہ گلی کچی تھی۔ کچھ سال پہلے اس گلی میں ٹف ٹائلز لگانے کا سرکاری ٹھیکہ دیا گیا۔ ٹھیکیدار نے دائیں طرف والی سڑک سے ٹف ٹائلز لگانا شروع کی اور بائیں طرف والی متوازی سڑک سے بھی ٹف ٹائلز لگانا شروع کی لیکن درمیان میں گلی کا کچھ حصّہ ٹف ٹائلز لگائے بغیر ایسے ہی کچا چھوڑ دیا اور متعلقہ سرکاری محکمہ سے اپنے بل کی ادائیگی کرا کر رقم وصول کر کے سائیڈ پہ ہو گیا۔ کئی سالوں سے گلی ویسے کی ویسے حالت میں پڑی ہے۔ ملک میں ایسے کتنے سرکاری پراجیکٹس ہوتے ہیں جہاں ٹھیکیداروں کو اربوں روپے کی ادائیگیاں کر دی جاتی ہیں یہ دیکھے بغیر کہ ترقیاتی منصوبہ مکمل بھی ہوا یا نہیں؟ راقم کا مشورہ ہے کہ عوام کو چاہیے کہ وہ ایسے ترقیاتی پراجیکٹس کی ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پہ اپلوڈ کر دیا کریں جو نامکمل چھوڑ دیے گئے ہوں یا جن میں ناقص میٹریل استعمال کیا گیا ہو۔ کیا پتہ سوشل میڈیا کو اس طریقہ سے استعمال کرنے سے ملک میں مالی کرپشن کا گراف نیچے آ جائے۔ میرا یہ بلاگ ٹھیکیداروں کے خلاف نہیں۔ مجھے تسلیم ہے کہ سرکاری پراجیکٹس پہ کام کرنے والے پرائیویٹ ٹھیکیداروں میں ایماندار اور فرض شناس لوگ بھی موجود ہیں۔
ویسے راقم کا خیال ہے کہ سرکاری محکموں اور اداروں میں ہونے والی کرپشن کی جڑیں سات دارالخلافوں اسلام آباد، لاہور، کراچی، کوئٹہ، پشاور، مظفر آباد اور گلگت کی طرف جاتی ہیں۔ اس کرپشن میں اکیلے اسلام آباد کا حصّہ پچاس فیصد ہے۔ اکبر شیخ اکبر کا یہ بھی خیال ہے کہ اگر پاکستان میں مالی کرپشن کو ختم کرنا ہے تو پھر اسلام آباد کی بطور مرکزی دارالحکومت حیثیت ختم کر کے کسی نئی جگہ پہ نیا مرکزی دارالحکومت بنانا ہو گا جس میں صرف اور صرف سرکاری دفاتر ہوں وہاں پرائیویٹ ہاؤسنگ اسکیمیں اور بڑے شاپنگ سینٹرز بالکل نہ ہوں اور وہاں کام کرنے والی باوردی اور بے وردی بیورو کریسی، سرمایہ داروں، سیاستدانوں، جاگیرداروں اور پارلیمینٹیرینز یہاں تک کہ کسی کو بھی اپنا ذاتی گھر بنانے کی اجازت نہ ہو۔ پاکستان کے نئے دارالحکومت میں تمام مساجد حکومت خود بنائے اور وہاں پرائیویٹ مذہبی و نام نہاد روحانی گروپس کو کسی قسم کی کوئی عمارت یا ٹھکانہ نہ بنانے دیا جائے۔ نئے دارالحکومت میں لوکل و ملٹی نیشنل کمپنیوں، صنعتکاروں اور بزنس کمپنیوں کو بھی اپنے دفاتر بنانے کی اجازت بالکل نہ ہو کیونکہ ان میں سے بھی کچھ عناصر کاروبار کے ناجائز کام نکلوانے کے لیے سرکاری افسران اور عملہ کو منہ مانگی رشوت کی آفر دے کر مالی کرپشن کی راہ پہ لگا دیتے ہیں۔ نئے دارالحکومت کے مجوزہ خدوخال، ڈیزائننگ اور آرکیٹیکچر پہ آئندہ کسی بلاگ میں تجاویز اور خاکہ دوں گا۔
خیر، اٹھائیس مئی آ گئی۔ قریب کے ایک چوک سے جہاں روزانہ کام کی تلاش میں مستری مزدور جمع ہوتے ہیں وہاں سے ایک مستری نما مزدور کو لے آیا۔ وہ عجیب سے بو والی سگریٹ پی رہا تھا ساتھ تھوڑا لہرا بھی رہا تھا۔ کام تو کر رہا تھا لیکن بہکے بہکے انداز میں باتیں کیے جا رہا تھا۔ کہنے لگا کہ وہ قبرستان میں پڑا رہتا تھا تو قبریں تیار کرنے والے گورکن نے کہا کہ میرے ہیلپر بن جاؤ کام بھی سیکھ جاؤ گے اور پیسے بھی کماؤ گے۔
”سرجی! جب کرونا آیا تھا نا تو ہمارا کاروبار بڑا اوپر چلا گیا تھا۔ بڑا پیسہ کمایا تھا میں نے لیکن وہ سارے کا سارا سگریٹ پھونک گئی“ اُس نے کہا اور پھر میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھ کر پوچھا ”سر! کوئی امید رکھی جائے کہ کرونا دوبارہ بھی آئے گا“ میں نے تھوڑا سخت لہجے میں کہا ”کام پہ توجہ دو“ ۔ آدھ گھنٹہ سے پہلے کام بھی ختم ہو گیا اور اس کے سگریٹ بھی۔ وہ کھڑا ہوا تو لہرا کر سامنے والی دیوار سے ٹکرانے لگا لیکن سنبھل گیا۔
کتنے پیسے؟ ”سر! بنتے تو چار سو روپے ہیں لیکن آپ صاحب بندے لگتے ہو دو چار ہزار دینا چاہو تو میں آپ کی خوشی کی خاطر لے لوں گا“ ۔ میرے پرس میں کھلے روپوں کی بجائے ایک ہزار روپے کا ایک نوٹ پڑا تھا۔ گرمی کی شدت کی وجہ سے ٹھنڈا تربوز کھانے کو بہت دل کر رہا تھا۔ سوچا یہ ”مصیبت“ اپنے چار سو روپے کاٹ کر بقایا کے چھ سو روپے مجھے واپس کرے گا تو جا کر تربوز خرید۔ / لاؤں گا۔ اس نے ہزار کا نوٹ پکڑا اور ایک نئی کہانی شروع کر دی۔
کہنے لگا ”سر! اگر کوئی مجھے ایڈوانس پے منٹ کر دے تو میں اس کے لیے قبر رعایتی نرخوں پہ بھی بنا دیتا ہوں۔ ویسے تو ہم قبر تیار کرنے کا چھ ہزار روپے لیتے ہیں لیکن اگر آپ یہ چھ سو روپے میرے پاس رہنے دو تو میں آپ کی قبر صرف چار ہزار روپے میں تیار کر دوں گا“ میں اس کی بات سن کر ابھی حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا کہ وہ ڈگمگاتا ہوا چل پڑا۔
حیرت نے مجھ ایسا گنگ کر دیا کہ میں اسے یہ بھی نہ کہہ سکا کہ میرے چھ سو روپے بقایا تو واپس کر کے جاؤ۔ تھوڑا سا دور جا کر رک کر پیچھے دیکھا اور کہا ”سر! آپ کے لیے یہ ڈسکاؤنٹ آفر صرف دو سال کے لیے ہو گی اگر آپ دو سال کے اندر نہ مرے تو آپ کے چھ سو روپے ضبط ہو جائیں گے“ پھر کہا ”اگر آپ کا کوئی دوست یا کوئی ملنے والا بھی یہ ڈسکاؤنٹ آفر لینا چاہے تو اسے میرا بتا دیجیے گا“ اور پھر وہ دوبارہ چل پڑا۔
اس کی باتوں سے مجھے چکر سے آنے لگے اور نشئی والی فیلنگ آنے لگ گئی۔ اتفاق دیکھیے قریب سے ایک رکشہ گزر رہا تھا جس میں میوزک کے ساتھ ذیشان روکھڑی کا گیت چل رہا تھا۔
”دو گُھٹ پی تے نشئی بن گئے آں“ (دو گھونٹ پی کر ہم تو نشئی بن گئے ہیں ) ۔
- پاک بھارت جنگ کی خواہشمند اشرافیہ - 01/07/2025
- مرنے سے پہلے قبر بنوانے کا ڈسکاؤنٹ آفر پیکیج - 01/06/2025
- انڈیا اور پاکستان میں جنگ ہارتی غربت - 18/05/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).