سندھ کی بچیاں تو عیش کرتی ہیں


محلے میں سب مل جل کر رہتے تھے، خوشی غمی میں ہر بندہ بڑھ چڑھ کر آگے ہوتا تھا۔ چار پانچ دوستوں کا ایک گروپ تھا۔ میٹرک کے بعد سے ہر ایک چھوٹی موٹی ٹیوشنیں پڑھا دیتا تھا، کمائی کی کمائی تھی اور پڑھائی اپنی جگہ روتی پیٹتی چل رہی تھی۔ جہاں جانا ہوتا فوجیں اکٹھی حرکت میں آتی تھیں۔ ایک انکل جو عام محلے داروں سے نسبتاً بہتر حالات میں تھے اور ابھی کچھ عرصہ پہلے ریٹائر ہوئے تھے انہوں نے محلے سے باہر کہیں اور گھر بنا لیا تھا، دو تین ہفتے پہلے وہاں شفٹ ہو چکے تھے۔ بیٹھے بیٹھے کسی نے مشورہ دیا کہ یار انکل کے نئے گھر جاتے ہیں، اتنے عرصے کی محلہ داری تھی، صاحب سلامت تھی، تو انہیں جا کے مبارک باد اور کچھ مٹھائی وغیرہ دے آتے ہیں۔ ویک اینڈ پر جانے کا پروگرام بن گیا۔

ہفتے کی شام دو تین موٹر سائیکلوں پر وہاں کا رخ کیا۔ صاف ستھرا ہوادار علاقہ تھا۔ بلکہ باقاعدہ پوش ایریا تھا۔ بہت خوبصورت بنا گھر اور پودے لگے دیکھ کر اچھا لگا کہ انکل کا جمالیاتی ذوق عمدہ تھا۔ گھنٹی بجائی، کچھ دیر بعد ملازم آیا اور اندر لے گیا۔ ڈرائنگ روم میں سفید قالین بچھا تھا۔ دو تین دوستوں نے جوتے اتار دئیے، ایک دو نے پہنے رکھے۔ ادھر انکل اندر والے دروازے سے داخل ہوئے ادھر سے دوستوں نے اینٹری ماری، انکل کی نظریں ان کے جوتوں پر تھیں جنہوں نے باہر اتارنے کی زحمت نہیں کی تھی، ظاہری بات ہے جوتوں نے کچھ نہ کچھ نقش و نگار تو بنانے ہی تھے۔ خود انہوں نے بیڈروم سلیپر پہن رکھے تھے اور تنبیہی نظروں سے جوتے والوں کے قدم ناپ رہے تھے۔ سب بیٹھ گئے، مٹھائی وغیرہ پیش کر دی، پھر انہوں نے قالین کی پوری تاریخ بتائی اور ذرا ناگواری سے بامعنی انداز میں یہ بھی بتایا کہ بعض اوقات اسے دن میں دو بار صاف کروانا پڑتا ہے۔

ایک طرف سے سوال آیا کہ “ملک صیب ایہکوں ول کہیں مسیت اچ بھجواؤ جتھاں ہر کوئی جتے لہا کے ویندا اے” (ملک صاحب اس قالین کو پھر کسی مسجد میں بھجوائیے جہاں ہر کوئی جوتے اتار کر جاتا ہے) اور ظاہری بات ہے سوال کرنے والا دوبارہ ملک صاحب کے گھر نہیں گیا۔

مسجد، مندر، گوردوارہ، خانقاہیں یا کوئی بھی مقدس جگہ ہو، پاکی کا ایک معیار رکھتی ہے، بے شک نئے جوتے ہوں صاف ہوں، جو بھی ہو جوتوں سمیت اندر داخل نہیں ہوا جا سکتا۔ یہ خدا کے گھر کا پروٹوکول ہے۔ خاکی بندے اپنے لیے اگر جوتے اتروائیں گے تو وہ تفاخر یا احساس برتری کا ایک انداز ہو گا۔ گوروں کے زمانے میں بنے کسی بھی سرکاری دفتر چلے جائیں، بڑے صاحب کا کمرہ اتنا وسیع و عریض ہو گا کہ ان کی میز تک پہنچتے پہنچتے انسان دس مرتبہ اپنی چال پر غور کرے گا، جوتوں کی آواز کبھی دبائے گا، کبھی جلدی چلنا چاہے گا، کبھی راستے میں پتلون کی کریز ٹھیک کرے گا، الغرض پوری طرح مرعوب ہونے کے بعد صاحب کی میز آئے گی۔ یہ درخواست گزاروں کے ذہن سے کھیلنے کا ایک گر تھا کہ آنے والے غریب غربے فقٹے اتنے قدم اٹھائیں اور افسر اس دوران گھور گھور کر ان کا ایسا تراہ نکالیں کہ وہ کچھ کہنے جوگے نہ رہیں۔ یہی ذہنیت پرانے درباروں کے ان دروازوں کو بنانے میں تھی جن کی چوکھٹ نیچی ہوتی تھی، جہاں داخل ہونے کے لیے سر جھکانا پڑتا تھا۔ عام انسانوں کے یہاں بھی جہاں بیٹھک میں صوفوں کے ساتھ سفید یا ہلکے رنگ کا قالین بچھا ہو یا گھر کے اندر داخل ہونے سے پہلے مہمانوں کو جوتے اتارنے کا کہا جائے وہاں عموماً یہی مرعوب کرنے والی ذہنیت کارفرما ہوتی ہے۔ دیسی سیٹ اپ میں یہ بات سمجھ آتی ہے لیکن میز کرسیوں صوفوں سینٹرل ٹیبل والے کمرے میں جوتے اتروائے جائیں تو اس سے بڑی بدتہذیبی کیا ہو گی؟

جام شورو میں وزیر تعلیم نے ایک تقریب میں شرکت کرنا تھی۔ جاپان نے سندھ میں لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ کا بیڑہ اٹھایا اور کل چون پرائمری سکولوں کی تعمیر اور سارا فرنیچر وغیرہ دینے کا معاہدہ کیا۔ ان میں سے انتیس سکول بن گئے، فرنیچر رکھا گیا، اس کی افتتاحی تقریب تھی۔ ابھی ان سکولوں میں پڑھائے گا کون، خبر کے مطابق استادوں یا عملے کا تعین باقی ہے۔ تو جس علاقے میں لوگ ایک ایک کمرے کے کچے گھروں میں رہتے ہیں وہاں عالی شان تنبو تانے گئے، وال ٹو وال سرخ قالین بچھائے گئے، جنریٹروں پر اٹھارہ اے سی چلائے گئے، پنڈال بقعہ نور بنا، ڈرون کیمروں سے فنکشن کی کوریج ہوئی، کراچی سے آئی بچیوں نے ٹیبلو وغیرہ پیش کیے، محترم مہمانوں کو اعلی قسم کا بوفے لنچ دیا گیا، سب کچھ ختم ہوا تو مہمان لوگ کوریج کرتے صحافیوں سمیت باہر روانہ ہوئے۔ چھوٹے چھوٹے جوتوں پر قدم رکھتے اپنی گاڑیوں تک پہنچے اور روانہ ہو گئے۔ یہ چھوٹے جوتے کہاں سے آئے؟

یہ جوتے ان بچیوں کے تھے جو ضلع جامشورو کے تھانہ بودلہ خان میں واقع گورنمنٹ گرلز ایلیمینٹری سکول ولی داد جوکھیو میں پڑھتی ہیں۔ اور کچھ بڑے جوتے ان کی ماؤں کے ہوں گے۔ جام مہتاب علی ڈہر نے سکول کو اپ گریڈ کرنے کا مژدہ سنایا اور بتایا کہ جاپان انٹرنیشنل کارپوریشن کے تعاون سے شروع کیے گئے اس پروگرام کا مقصد اندرون سندھ میں اعلی تعلیم کو فروغ دینا ہے اور شہری و دیہی تفریق کا خاتمہ کرنا ہے۔ یہ بچیاں پوری تقریب میں جھنڈیاں ہلاتی رہیں، جوتے باہر اتار کر اپنی چھوٹی چھوٹی چادروں میں بکلیں مار کر اور حیرت زدہ منہ کھول کر سامنے سٹیج کو دیکھتی رہیں اور انہیں بتایا جاتا رہا کہ ہم اس تفریق کو ختم کر کے دم لیں گے۔ ٹیبلو اور دیگر پرفارمنسز میں بھی ان بچیوں کا حصہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ وہ کام بھی “شہری” سکولوں نے کیا۔ یہ بچیاں ننگے پاؤں جاپان اور پاکستان کے جھنڈے لہرانے آئی تھیں سو یہ کام انہوں نے خوب کیا۔

اس کے بعد ظاہری بات ہے بوفے لنچ میں بھی انہیں کس نے پوچھنا تھا، ہاں اوقات کے مطابق فی طالب علم ایک بریانی کا لنچ بکس دیا گیا۔ اور سندھ کے اس بدلتے تعلیمی منظر میں، تمام تفریق ختم کرتے ہوئے چھوٹی بچیوں کو بریانی میں بھی پورا حصہ نہیں مل سکا۔ چھوٹی بچیوں کو ایک ڈبہ فی دو طالبات کے حساب سے بریانی دی گئی۔ جس تقریب پر لاکھوں روپے لٹیں تو جن کے نام پر لٹ رہے ہیں انہیں بریانی کا ڈبہ ہی پورا دے دو ظالمو۔۔ ان کے جوتے ہی نہ اترواؤ، انہیں تھوڑی بہت عزت نفس کے ساتھ زندہ رہنے دو، قدم قدم پر انہیں ان کی اوقات یاد دلائی جاتی ہے اور پھر بتایا جاتا ہے کہ یہ اقدامات انقلابی ہیں۔ سرخ قالین سلامت رہیں، صاحب لوگوں کے جوتے بچے رہیں، ہماری بیٹیاں ننگے پیر ان قالینوں پر ڈرتے ڈرتے قدم رکھیں، تف بر ایں انقلاب!

سائیں نے
مکھن لے آنے کا حکم دیا
میں دوڑا
پیپل کے پتے پہ رکھا
مکھن کا پیڑا میں لے آیا
سائیں نے
مکھن کا پیڑا پیپل کے پتے سے اچکا اور نگلا
اور کہا:
“پتے کو چاٹو!”
اور میں حکم بجا لایا
تو فرمایا:
“ہمرے سنگ رہو گے
تو ایسے عیش کرو گے!” (نظم ۔ امداد حسینی بشکریہ دنیا زاد)

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain