سوشل میڈیا گروپس: ”ہاہاہا“ اور ”لول“ سے ” انگوٹھے“ تک


میں سرینا ہوٹل کے سامنے سگنل سے چند گز کے فاصلے پر تھی، سگنل بس ہرے سے لال ہی ہونے کو تھا کہ میں نے گاڑی کی رفتار بڑھائی، یکدم موبائل فون کی وہ ٹیون بجی جو میں نے اپنی رپورٹنگ بیٹ یعنی پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے واٹس ایپ گروپ کے لیے مخصوص کررکھی ہے، ٹیون کا بجنا تھا کہ ایکسلیریٹر پر میرے پاؤں کی گرفت ڈھیلی ہوگئی، میں نے ایک ہاتھ سے موبائل کا لاک کھولا، دوسرے ہاتھ سے اسٹیرنگ سنبھالا، سامنے دیکھا تو سگنل سرخ تھا اور میں چوراہے کے وسط میں کھڑی تھی، اب سگنل توڑنا ہی واحد حل تھا۔ سگنل کراس کیا، گاڑی سائیڈ پر لگائی دور سے سلیٹی رنگ کے یونیفارم والے ٹریفک پولیس نے گویا شکار تارڑ لیا، میں نے اسے ان دیکھا کرکے واٹس ایپ کھولا تو آئی ایس پی آر گروپ پر نئے پیغام کا اشارہ تھا، دوسرے طرف ٹریفک پولیس والا دھاڑنے لگا، غلطی تو میری ہی تھی ادھر فکر یہ بھی تھی کہ فوج کی خبر کی بریکنگ میں کہیں دیر نہ ہوجائے، سو معاملہ کچھ معذرت اور مذاکرات کے بعد رفع دفع کیا، میں نے پھر توجہ اپنے موبائل اسکرین پر کی، آئی ایس پی آر گروپ کھولا تو نئے میسج کے طور پر سامنے ایک صحافی دوست کی جانب سے بھیجا گیا ایک ” انگوٹھا“ تھا۔ دل تو چاہا کہ بس۔

قارئین میں سے جو صحافی ہیں وہ اس عظیم دکھ کو سمجھ سکتے ہیں کہ کیسے واٹس ایپ کے ان گروپس نے زندگی میں زہر گھول رکھا ہے، خبروں کی ترسیل اور تبادلے کے لیے بنائے گئے اکثر گروپس میں کوئی ایک شرارتی منڈا سب کو زچ کیے رکھتا ہے، انہیں بات بے بات ” لول لول ” کرنے کا بڑا شوق ہوتا ہے، کبھی کبھی بے سر و پا لطیفوں میں انہیں ایسی ڈیجیٹل ہنسی آتی ہے کہ ایک بار ” ہا ہا ہا“ لکھ دینے سے ان کا اظہار جذبات نہیں ہوتا۔

بعض دوستوں کے پاس نہ جانے کہاں سے گھٹیا بازاری لطیفوں کا پورا دیوان موجود ہوتا ہے، یہ ہر اس وقت جب آپ کسی اہم خبر کے انتظار میں ہوتے ہیں ، سردار جی کا کوئی لطیفہ فارورڈ کردیتے ہیں، انہوں نے واٹس ایپ گروپس کو اگالدان سمجھ رکھا ہوتا ہے۔ خون کا گھونٹ پی کر ابھی موبائل رکھا ہی ہوتا ہے کہ کچھ دیر میں پھر کسی ساتھی کو اس واہیات لطیفے پر ”واہ جی“ لکھنے کی الٹی آجاتی ہے۔

آج کل سپریم کورٹ، وزارت خزانہ، کرائم، ڈیفنس، پارلیمنٹ غرض ہر بیٹ کے رپورٹرز اور ان وزارتوں کے پی آر اوز نے واٹس ایپ گروپس بنا رکھے ہیں، پہلے جو خبریں یا پریس ریلیز ای میل ہوتی تھی اب واٹس ایپ پر بھیج دی جاتی ہیں، مگر ان گروپس میں بھی نوک جھونک چلتی رہتی ہے۔ کوئی خبر یا لطیفہ غلطی سے کسی گروپ میں کاپی پیسٹ ہو بھی جائے تو بجائے اسے درگزر کرنے کے، صرف یہ لکھ کر ” یہ کیا ہے؟ “ پچاس میسج بھیج دیے جاتے ہیں۔ او بھائی دیکھ کر خود ہی سمجھ جاؤ مگر نہیں ” یہ کیا ہے ” لکھ کر ہی روحانی تسلی ملتی ہے، ، پھر غلطی کرنے والا بیچارہ اگر یہ لکھ دے کہ ” غلطی سے بھیج دیا ” تو اس پر ” اوہ! اچھاچلو کوئی بات نہیں“ کے پیغامات کا ایک نیا سلسلہ اگلے آدھے گھنٹے تک چلتا ہے۔

ان گروپس میں ووٹ مانگے جاتے ہیں، نئی دوستیاں اور نئے دشمن جنم لیتے ہیں، کوئی میری طرح کا خاموش کھلاڑی ہوگا تو اسے پہلے تو مغرور سمجھا جاتا ہے پھر اسے دھمکایا بھی جاسکتا ہے کہ آپ کی جانب سے حصہ کیوں نہیں ڈالا جاتا۔

یہ حال صرف صحافتی گروپس کا نہیں، دوستوں، عزیز رشتہ داروں کے واٹس گروپس میں بھی ایسی ہی ٹائم پاسی عروج پر ہے، جہاں ایک نہایت فارغ کزن صبح 6:30 بجے گڈ مارننگ کا میسج کرکے پھر دل والی ایک گرافکس تصویر بھیجتا ہے، اور ا گر بھولے سے بھی آپ نے اس سُرخ دل کا جواب نہ دیا تو شکایتی پیغامات بشمول رویتی خاندانی طعنہ بازی کا سلسلہ شروع ہوسکتا ہے۔

ماریہ اپنے مُنے کی تصویر بھیج دے تو اس پر جب تک ” واوو ۔ ویری کیوٹ بے بی“ لکھ نہ دیں جان بخشی مشکل ہے، فرض کریں کہ آپ ماریہ کے بچے کی تصویر پر کوئی کمنٹ کرنا بھول گئے، تو آپ کی ہر بات ہر تصویر پر خاندان کے کچھ رشتہ داروں کی پراسرارخاموشی سوچی سمجھی پلاننگ محسوس ہوتی ہے۔

مذہبی پیغامات، خداترسی کی اپیل اور بلڈ گروپ ”او پازیٹو“ کی فوری ضرورت کے پیغامات پر تو اپنی رائے محفوظ رکھنے میں ہی عافیت ہے ورنہ ریڈی میڈ فتوی لگ سکتا ہے۔

ہم میں اکثر کے دن کا 85 اعشاریہ 50 فیصد حصہ ان مغلظات میں چھپی خبر، کسی اچھی بات یا اہم پیغام کو فلٹر کرنے میں نکل جاتا ہے، باقی 14 اعشاریہ 50 فیصد حصہ کچھ نہایت اہم دوستوں رشتہ داروں اور ساتھیوں کی بڑے بڑے منہ والی سیلفیوں کے نیچے ” بیوٹی فُل“، ”لول“، ”ہاہا ہا ہا“ لکھنے میں۔

عفت حسن رضوی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عفت حسن رضوی

نجی نیوز چینل میں ڈیفنس کاریسپانڈنٹ عفت حسن رضوی، بلاگر اور کالم نگار ہیں، انٹرنیشنل سینٹر فار جرنلسٹس امریکا اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد کی فیلو ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں @IffatHasanRizvi

iffat-hasan-rizvi has 29 posts and counting.See all posts by iffat-hasan-rizvi