نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے
پچھلے دنوں بورے والا جم خانہ میں میری کتاب حیات ورق ورق کی تقریب رونمائی تھی۔ یہ کتاب میں نے اپنی اہلیہ کی شدید خواہش اور اس کے اصرار پر اس کی رحلت کے بعد لکھنا شروع کی اور اس پر مجھے تاحیات افسوس اور پچھتاوا رہے گا، کہ میں نے اس کی زندگی میں اس کی ایک معصوم سی خواہش کو پرکاہ برابر بھی اہمیت کیوں نہ دی۔ شاید ہمارے خالص مردانہ معاشرے میں یہ ایک عمومی رویہ ہے کہ ہم لوگ صرف گھر داری میں مصروف رہنے والی بیویوں کی چھوٹی چھوٹی خواہشات اور مطالبات کو نظر انداز کرنا ہی عین مردانگی خیال کرتے ہیں۔ ہم دیہاتی پس منظر رکھنے والے لوگوں کے لیے پتلون قمیض یا شلوار پہننا بذاتِ خود ایک بڑا کام ہے۔ جونہی ہم اپنی ڈیوٹی سے فارغ ہو کر گھر واپس آتے ہیں تو سب سے پہلے روایتی دفتری لباس سے باہر نکل کر دھوتی یا چادر پہنتے ہیں۔ تب ہمیں فراغت کا احساس ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک خالص پینڈو ہونے کے ناتے میرا رویہ بھی تمام عمر ایسا ہی رہا۔ میں جب تک گھر پہنچ کر دھوتی بنیان نہ پہن لیتا اپنے آپ کو ڈیوٹی پر ہی تصور کرتا تھا۔
میری مرحومہ اہلیہ اکثر مجھے کہا کرتی، کہ انجم میں کئی مصالحے استعمال کر کے تمہارے لباس کو دھوتی ہوں تم اپنے اردگرد دیکھ لو کہ اس قدر سفید کپڑے تمہیں کسی کے بھی نظر نہیں آئیں گے جس قدر تمہارے ہوتے ہیں۔ واضح رہے کہ میں نے عمر بھر سفید لباس پہننے کو ہی ہمیشہ ترجیح دی اور اکثر میرے اردگرد رہنے والے لوگ مجھ سے پوچھا بھی کرتے تھے کہ تم یہ کپڑے کہاں سے خریدتے ہو۔ جب میں انہیں بتاتا کہ یہ عام دکان سے خریدے ہوئے سستے سے کپڑے ہیں، تو کوئی بھی میری اس بات پر یقین کرنے کے لیے تیار نہ ہوتا۔ بہرحال میرے سفید کپڑوں میں یقیناً کوئی ایسی سفید چمک موجود ہوا کرتی تھی جو دوسرے لوگوں کے کپڑوں میں دکھائی نہیں دیا کرتی تھی۔ یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ میرا وہم ہی ہو جو اس سلسلے میں تمہارے جاری کردہ بیان پر یقین کرنے سے پیدا ہو گیا ہو۔
جب میں دھوتی بنیان پہن کر تمہارے پاس آبیٹھتا تو تم اکثر گلہ کرتی ہوئی دکھائی دیتیں، کہ انجم کبھی صاف ستھرے کپڑوں میں بھی ہمارے پاس بیٹھ جایا کرو۔ ہماری قسمت میں یہ گندی دھوتی بنیان ہی رہ گئی ہے، لیکن میں اسے بھی اپنے روایتی انداز میں ٹال جایا کرتا تھا۔ اب سوچتا ہوں کہ یہ کون سا مشکل کام تھا۔ تمہاری یہ چھوٹی سی خواہش پوری کرنا میرے لیے کیا بُری بات تھی، لیکن وہ خاندان جو معاشی دباؤ میں زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں۔ وہاں پر شاید ایسی چھوٹی چھوٹی خواہشات کا اظہار بھی غیر ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ انہیں پورا کرنا اور اُن پر غور و خوض کرنا تو بہت بعد کی بات ہے، لیکن اب مجھے شدت سے اپنی ایسی ہی بہت سی کوتاہیوں کا احساس ہوتا ہے جن کی وجہ سے تمہاری چھوٹی چھوٹی معصوم اور بے ضرر سی خواہشات کو پورا کرنے سے قاصر رہا۔ جب کہ تمہاری پوری زندگی میرے اور ہمارے بچوں کے اردگرد بالکل اسی طرح گھومتی رہی، جس طرح ایک لٹو اپنے محور کے گرد اپنی حرکت کو ایک گول دائرے میں جاری رکھتا ہے۔
اس تقریب میں جن دوستوں نے خطاب کیا۔ اُن میں ڈاکٹر سہیل عزیز، ڈاکٹر شاہد صدیق، اعجاز اسلم، ڈاکٹر ارشد پرویز، بریگیڈیئر عامر ہاشمی کے علاوہ ہمارے بچے بلال، بدر، مائرہ اور عشاء بھی شامل تھے۔ زعیم رشید نے جس خوبصورت اور ادبی انداز میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ وہ بھی اپنی مثال آپ تھا۔ اس قدر خوبصورت اور نفیس انداز میں اُردو بہت کم کم ہی سماعتوں کو نصیب ہوتی ہے۔ باقی تمام مقررین نے بھی اپنے اپنے مخصوص انداز میں کتاب اور میری ذات کے مختلف پہلوؤں پر تبصرہ پیش کیا۔ میں نے اس کتاب کا انتساب اپنے چھوٹے بچوں عشاء اور بدر کے نام کیا تھا۔ جس پر باقی بچوں کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا۔
تقریب سے ایک دن پہلے میں بچوں کی عدالت میں حاضر ہو کر اپنی صفائیاں پیش کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ جب کہ متاثرہ بچے اس نا انصافی، ظلم، استحصال اور کھلی دھاندلی پر سراپا احتجاج تھے۔ اُن کا موقف یہ تھا کہ پڑھائی کے سلسلے میں میری جانب سے سب سے زیادہ ظلم و ستم کا شکار وہ ہوئے۔ اُن لوگوں کے مطابق اُن کے کلاس فیلوز اتوار آنے پر چھٹی کی وجہ سے بڑے خوش و خرم اور پُر جوش ہوتے۔ جب کہ ہمیں اس بات کی پریشانی ہوتی کہ ہمارا چھٹی کا یہ دن بھی پڑھائی ٹیسٹ اور ڈانٹ ڈپٹ میں گزرے گا۔ وہ تو بھلا ہو ہماری دادی جان کا کہ ایسے مواقع پر وہ آپ کو ڈانٹ کر ہماری جان چھڑا دیا کرتی تھیں۔ ویسے ہم لوگ بھی ہفتے کے دن سے ہی اس معاملے میں دادی جان کی منت سماجت شروع کر دیا کرتے تھے کہ صبح جلدی آ کر ابو سے ہماری جان چھڑوا دینا اور وہ ہماری خواہشات کے عین مطابق ایسا ہی کیا کرتی تھیں۔ جب کہ اس کے برعکس آپ کو اس سلسلے میں ہمارے جذبات، احساسات اور خواہشات کا قطعی کوئی علم نہ ہوتا اور آپ ہر وقت پڑھائی، پڑھائی اور پڑھائی کو ہی ہمارے سروں پر مسلط کیے رکھتے۔
اُن لوگوں نے ہلاکو اور چنگیز خان کا نام لیے بغیر ہی مجھے بھی انہی کی صف میں اس طرح لا کھڑا کیا کہ میں یہ بات سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ شاید وہ سچ ہی کہہ رہے ہیں۔ اُردو کے مشکل مشکل مضامین ہمیں یاد کروائے گئے جو اب تک ہمیں یاد ہیں۔ چلو آمنہ تم علامہ اقبالؒ کا مضمون سناؤ اور آمنہ شروع ہو گئی۔ عظیم انسان روز روز پیدا نہیں ہوتے۔ مادرِ گیتی اُن کو روز روز جنم نہیں دیتی اس کے لیے تاریخ کو صدیوں انتظار کرنا پڑتا ہے اور اس کے بعد آگے پھر چل سو چل۔ اسی طرح اصفیٰ، بلال اور انعم نے بھی اُس دور کے یاد کیے ہوئے اُردو اور انگلش کے مشکل اور طویل مضامین سنانے کا مظاہرہ کیا۔ پھر انہوں نے گلہ کیا کہ جن بچوں کے نام آپ نے اپنی کتاب کا انتساب کیا ہے وہ آپ کی زد میں آئے بغیر بڑے آرام اور سہولت کے ساتھ خود بخود ہی پڑھائی کرتے رہے اور اسی وجہ سے اُن کی تعلیمی میدان میں کارکردگی اور نتائج ہماری نسبت کہیں بہتر رہے۔ گویا کہ وہ ببانگ دہل اس بات کا اظہار کر رہے تھے کہ میرے دخل در نا معقولات سے اُن کی تعلیمی کارکردگی پر منفی اثرات پڑے ہیں اور اُن کی پر زور تقاریر اور مدلل انداز بیان سے اب تو مجھے بھی گمان گزرنے لگا تھا کہ شاید وہ درست ہی کہتے ہوں۔ اس لیے میں نے کتاب کے انتساب میں ترمیم کرنے کا فیصلہ کر لیا اور کتاب کی رونمائی کی تقریب میں اس کا اعلان اپنی تقریر کے آغاز میں ہی کچھ یوں کیا۔
عزیزی ڈاکٹر سہیل عزیز، اہلیہ سہیل عزیز، منتظمین تقریب اور اشاعت کتاب ہذا، ممبران تخلیق کلب، معزز مہمانانِ گرامی اور اہالیانِ خانہ من و برادر صغیر عزیزی ڈاکٹر ارشد پرویز، السلام علیکم!
سب سے پہلے تو میں اپنے بچوں کی طرف سے اپنی ذات پر آنے والے شدید دباؤ، اظہار غم و غصہ، دھمکیاں برائے قطع و بندش سماجی، معاشرتی، معاشی تعلقات و مہیا کردہ سہولیات من جانب فریق ثانی، اندیشۂ ہائے دور دراز برائے خدشۂ دنگا و فساد، لڑائی مارکٹائی از قسم ضربان شدید و خفیف و سر پھٹول میں بصد ہوش و حواس بوجوہ متذکرہ بالا بیان کردہ خوف و خدشات منجاب پسر کبیر ڈاکٹر بلال خالد و دختران نیک اختران، ڈاکٹر انعم اصفیٰ، آمنہ اور ڈاکٹر مائرہ روبرو گواہان حاضرہ تمام کتاب کے انتساب میں اس گروہ ناراضگان کو بہ جبر و ا کراہ شامل کرنے کا اعلان کرتا ہوں۔
اس کے بعد میں نے حاضرین کو بتایا، کہ اس کتاب کو لکھنے کی دو بڑی وجوہات میرے سامنے تھیں۔ ایک تو میری اہلیہ کی دیرینہ خواہش کا احترام تھا اور دوسرے میں شادی شدہ جوڑوں کو اس محرومی، کسک اور تشنگی کا احساس دلانا چاہتا ہوں جو ایک فرد کے چلے جانے کے بعد دوسرے کو محسوس ہوتی ہے۔ جس کا احساس انہیں اکٹھا رہتے وقت کبھی نہیں ہوتا۔ ایک دوسرے کی موجودگی ہر دو فریقین کے لیے ہی بہت بڑی نعمت ہے۔ اسے فضول قسم کے چھوٹے موٹے اختلافات کی نذر کر کے کفران نعمت مت کریں۔
قانون قدرت ہے کہ ہر فرد نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ اس اٹل قانون کے تحت ہر شادی شدہ جوڑے میں سے کسی ایک کا بلاوا تو پہلے آنا ہی آنا ہے۔ اس سے مفر تو کسی طرح بھی ممکن نہیں ہے اور نہ ہی اس کا سدِ باب کیا جاسکتا ہے، لیکن ازالے کے طور پر اتنا تو کیا ہی جا سکتا ہے کہ ہم لمحہ موجود میں ایک دوسرے کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے اپنی بقیہ ازدواجی زندگی کو خوبصورت اور پرسکون انداز میں بسر کرنے کا عہد کریں اور اس سلسلہ میں ماضی کے منفی اور ناخوشگوار رویوں کو یکسر فراموش کر دیں اور زمانہ حال میں ایک دوسرے کے لیے ہمہ قسم کی آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کریں اور اگر میری ادنیٰ سی تحریر کی وجہ سے شادی شدہ جوڑوں کی زندگی میں مثبت اور خوشگوار تبدیلیاں رونما ہو جائیں تو میرے لیے یہ ایک بہت بڑی اچیومنٹ ہوگی۔
- چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بورے والا - 16/07/2025
- کیا خوب دن تھے جوانی کے - 09/07/2025
- جس کی لاٹھی اُس کی بھینس - 03/07/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).