پرواز: خواب، حقیقت اور سانحہ


Loading

پرواز انسان کی سب سے بڑی آرزو رہی ہے اس کا خواب رہا ہے کہ وہ پرندوں کی طرح فضاؤں میں پرواز کرے بادلوں سے اونچا اڑے اور افق کو چھو لے۔ مگر جب یہ آرزو یہ خواب خاک میں مل جائے جب فضا میں بلند ہونے والی امیدیں زمیں بوس ہو جائیں تو سوال محض حادثے کا نہیں رہتا سوال اعتماد کے بکھرنے کا ہوتا ہے انسانی کوششوں کی بے بسی کا ہوتا ہے۔

12 جون 2025 کی وہ شام جب ائر انڈیا کی پرواز AI 171 احمد آباد سے لندن کے لیے روانہ ہوئی محض چند لمحوں میں ایک ایسی سانحے کی تصویر بن گئی جو انسانی تاریخ پر ایک گہرا زخم چھوڑ گئی۔ جدید ترین بوئنگ 787 ڈریم لائنر جسے تحفظ کی علامت سمجھا جاتا تھا اس کا یوں اچانک گر جانا یہ سوال اُٹھاتا ہے کہ کیا واقعی ہم جتنے محفوظ سمجھتے ہیں اتنے ہیں بھی؟ کیا ہماری ٹیکنالوجی ہمارا علم اور ہماری منصوبہ بندی واقعی اتنی کامل ہے کہ زندگی کی نزاکتوں کو گرفت میں لے سکے؟ طیارے میں 230 مسافر اور 12 عملہ کے ارکان سوار تھے ہر ایک کی اپنی کہانی اپنے خواب اپنے پیارے تھے جو انہیں لندن میں ملنے کا انتظار کر رہے تھے۔ ان میں سے بیشتر نے پہلی بار ڈریم لائنر میں سفر کرنے کا خواب دیکھا ہو گا ایک محفوظ اور آرام دہ سفر کا تصور کیا ہو گا مگر ان کی تقدیر نے ایک مختلف ہی انجام لکھ رکھا تھا۔

محض چند سو فٹ بلندی پر پہنچنے کے بعد جب زمین پر موجود لوگ طیارے کو آسمان کی وسعتوں میں گم ہوتے دیکھ رہے تھے کہ انہیں ساعتوں میں وہ جہاز زمین سے ٹکرا گیا اور 241 زندگیاں لمحوں میں ختم ہو گئیں۔ وہ لمحے جو زندگی اور موت کے درمیان کی حد تھے ایک ابدی خاموشی میں بدل گئے صرف ایک شخص برطانوی شہری وشواش کمار رمیش معجزاتی طور پر بچ نکلے وہ اس حادثے کے واحد گواہ ہیں ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے بھائی کے ساتھ سفر کر رہے تھے جو اس حادثے میں جاں بحق ہو گئے اس ایک بچ جانے والے کی کہانی باقی 241 روحوں کے ساتھ ہونے والے ظلم کی ایک کربناک یاد دہانی ہے۔

بوئنگ 787 جدید ٹیکنالوجی سے لیس آٹو پائلٹ، آٹو تھروٹل، فلائٹ کمپیوٹر اور سیکڑوں حفاظتی نظاموں سے مزین ہوتا ہے یہ سب انسانی عقل اور انجینئرنگ کا شاہکار ہیں جو پرواز کو محفوظ بنانے کے لیے تیار کیے گئے ہیں مگر یہ تمام نظام صرف اس وقت موثر ہوتے ہیں جب بنیادی انسانی احتیاط تربیت اور ذمہ داری اپنی جگہ قائم رہے۔ ٹیک آف کا لمحہ وہ نکتہ ہوتا ہے جہاں ایک معمولی سی چُوک ایک غیر فعال سینسر یا ایک ناقص فیصلہ پورے نظام کو خاموش کر سکتا ہے یہ لمحہ جہاں تمام تر ٹیکنالوجی کو انسانی مہارت کی ضرورت ہوتی ہے ایک ایسی نازک کڑی ہے جہاں معمولی سی خطا بھی تباہی کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔

حادثے پلک جھپکتے میں پیش آتے ہیں مگر ان کی جڑیں اکثر ہفتوں اور مہینوں پر محیط ہوتی ہیں کسی الرٹ کو نظر انداز کرنا انجینئرنگ میں تاخیر عملے کی تھکن یا جانچ پڑتال میں لاپرواہی یہ سب عوامل ایک خطرناک خاموشی میں پروان چڑھتے ہیں جب تک کہ وہ یک دم ایک چیخ بن کر سامنے نہ آ جائیں۔

یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ غلطیوں سے سیکھتا ہے مگر کیا ہم واقعی سیکھتے ہیں؟ کیا ہم ہر حادثے کے بعد صرف رسمی تحقیقات اور بیانات پر اکتفا کرتے ہیں یا واقعی ان گہرائیوں میں جاتے ہیں جہاں خامیاں چھپی ہوتی ہیں؟ عام شہری اس بات پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں کہ ایوی ایشن انڈسٹری میں حفاظتی پروٹوکولز پر کتنا عمل درآمد ہو رہا ہے۔

اس سانحے میں کئی پہلو قابل غور ہیں ابتدائی تحقیقات سے یہ معلوم ہوا ہے کہ ٹیک آف کے بعد طیارے کا اگلا حصہ غیر معمولی طور پر نیچے جھکنے لگا اور ایک ڈاکٹرز ہوسٹل سے ٹکرا کر جہاز آگ کی لپیٹ میں آ گیا۔ یہ ہوسٹل جو اسپتال کے قریب تھا اس میں بھی قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا۔ زمین پر بھی 28 افراد لقمۂ اجل بنے جو اپنے روزمرہ کے معمولات میں مصروف تھے اور انہیں خبر بھی نہ تھی کہ موت اس طرح ان پر جھپٹ پڑے گی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ہوسٹل میں موجود طلبہ اور عملے کے لیے یہ ایک غیر متوقع اور ہولناک تجربہ تھا۔

سوال یہ نہیں کہ کوئی سینسر فیل کیوں ہوا یا پائلٹ نے آخری لمحے کیا فیصلہ کیا؟ سوال یہ ہے کہ ان تمام حفاظتی اقدامات جدید ٹیکنالوجی اور سخت ترین قواعد و ضوابط کے باوجود بھی ہم اس حادثے سے بچ کیوں نہ سکے؟ کیا ہماری حفاظتی تدابیر صرف کاغذوں پر رہ گئیں یا ان میں کہیں ایک ایسا خلا رہ گیا جو انسانی جانوں کے لیے مہلک ثابت ہوا؟ اس سانحے نے ایک بار پھر فلائٹ سیفٹی کے عالمی معیاروں پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔

ایسے سانحات کے بعد کہا جاتا ہے کہ ان کا امکان بہت کم ہوتا ہے کروڑوں میں ”ایک“ یہ اعداد و شمار کسی بھی صنعت کے لیے باعث فخر ہو سکتے ہیں مگر جب وہ ”ایک“ ہو جاتا ہے تو تمام اعداد و شمار بے معنی ہو جاتے ہیں۔ اُس ایک لمحے میں اعتماد کا سفر بھی ٹوٹ جاتا ہے اور ٹیکنالوجی کا غرور بھی۔ اس وقت ہر اعداد و شمار ہر دلیل ہر وضاحت درد اور کرب کے سامنے ہیچ ہو جاتی ہے۔

ہم انسان جو اپنی ٹیکنالوجی پر فخر کرتے ہیں اس بات کو فراموش کر بیٹھتے ہیں کہ بنیادی انسانی غلطی یا معمولی سی لاپرواہی بھی بڑے سے بڑے نظام کو ناکام کر سکتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم نے کچھ نہیں سیکھا ہر حادثہ ایک سبق چھوڑ جاتا ہے بشرطیکہ ہم اُسے سنجیدگی سے لیں فلائٹ چیک لسٹ انسپیکشن رپورٹس پائلٹ ٹریننگ کے معیارات اور ائر ٹریفک کنٹرول کی باریکیوں میں چھپی کوتاہیاں اس المیے کی اصل جڑ ہو سکتی ہیں۔ یہ وہ خامیاں ہیں جو وقت کے ساتھ نظر انداز ہوتی رہتی ہیں اور پھر ایک دن بھیانک سانحے کا روپ دھار لیتی ہیں۔

یہ محض ایک حادثہ نہیں تھا یہ ایک نظام کی ناکامی تھی یہ صرف 241 افراد کا سانحہ نہیں تھا یہ ان ہزاروں لوگوں کا درد ہے جو اپنے پیاروں کے انتظار میں ائرپورٹ کے دروازے تک آئے تھے مگر اب وہ صرف اس تابوت کا انتظار کر رہے ہوں گے جس میں ان کے پیاروں کی باقیات ہوں گی، ان والدین کا درد جن کے بچے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئے، اس شریک حیات کا دکھ جس کی دنیا اجڑ گئی اور ان بچوں کا کرب جو اپنے والدین کو دوبارہ کبھی نہیں دیکھ پائیں گے۔

وزیر اعظم نریندر مودی اور برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے افسوس کا اظہار کیا بادشاہ چارلس سوم کی جانب سے تعزیت بھی کی گئی مگر متاثرین کے لواحقین کے لیے یہ سب محض رسمی بیانات سے زیادہ کچھ نہیں کیونکہ ان کے دلوں میں بس ایک ہی سوال گونج رہا ہے کیا یہ روکا جا سکتا تھا؟ جواب شاید مکمل نہ ہو مگر دل کہتا ہے ”ہاں شاید“ ۔ اگر ایک چیک لسٹ پر دھیان دے دیا جاتا اگر ایک تھکا ہوا عملہ تبدیل ہو جاتا اگر ایک پرانا سینسر وقت پر بدلا جاتا تو یہ پرواز شاید اپنی منزل تک پہنچ جاتی یہ ”اگر“ اور ”مگر“ ہمیشہ ہمارے ذہنوں میں گونجتے رہیں گے ان روحوں کی طرح جو ہم سے جدا ہو گئیں۔

پرواز محض آسمان کو چُھونے کا عمل نہیں یہ زمین پر بسنے والوں کے خواب، یقین اور اعتماد کا بھی نام ہے اور جب پرواز حادثے کا شکار ہوتی ہے تو صرف ایک جہاز نہیں گرتا ایک نسل کا خواب زمین پر آ گرتا ہے یہ سانحہ ہمیں ایک بار پھر یاد دلاتا ہے کہ انسانی زندگی کی اہمیت سب سے بڑھ کر ہے اور اس کی حفاظت کے لیے کوئی بھی قیمت زیادہ نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments