اوریا مقبول کو چھوڑیں۔۔۔ آئیے سود کو سمجھیں


جدید معیشت کی رو سے شرح سود میں احسان ،انصاف ،اور استحصال کا مقدمہ سمجھنے کے لئے تین مثالوں سے مدد لیتے ہیں-

میرے نانا جان نے آج سے تقریبا چالیس سال قبل اپنے ایک رشتہ دار حاجی محمد کو “کلر” (سرائیکی لفظ ، معانی گوبر کی کھاد ) بیچا جو کل ساٹھ بورے تھے جن کی مالیت اس وقت تقریبا نوے روپے بنی۔ حاجی محمد اس وقت ادائیگی نہ کر سکے ، اور بعد میں بھی میرے نانا جان کے بار بار کے تقاضوں کے باوجود بھی انہوں نے پیسوں کی ادائیگی میں تاخیر کی – آخرکار ، میرے نانا نے پیسے مانگنا بند کر دیا – چالیس سال بعد میرے ماموں اور حاجی محمد کے بیٹے میں لین دین کا ایک تنازعہ پیدا ہوا ، میرے نانا نے غصہ میں آ کر حاجی محمد سے کہا کہ گوبر کی کھاد کے پیسوں کی تم نے ادائیگی نہیں کی ، تم پہلے وہ لوٹاو ¿ ۔ حاجی محمد نے نوے روپے جیب سے نکالے اور میز پر رکھ دیئے ۔ میرے نانا حیران رہ گئے انہوں نے کہا کہ مجھے گوبر کی کھاد کی موجودہ مارکیٹ ویلیو پر پیسے دو،حاجی محمد نے ان پر سود لگانے کا الزام لگایا ، اور معاملہ مزید الجھ گیا۔ سوال یہ ہے کہ انصاف پانچ روپے لینے میں ہے یا موجودہ مارکیٹ ویلیو پر پیسوں کی وصولی میں ؟ اور اس واقعہ میں استحصال کیا ہے ؟

میرے ایک دوست محمد ارشد ملتان میں ایک کمپنی میں کام کرتے ہیں ، مشرف دور میں ہوم فنانسنگ کا چرچا ہوا ، انہوں نے بنک سے ہوم فنانسنگ (گھر پر قرض ) لی ، جس کا دورانیہ پندرہ سال تھا ۔ وہ اسی گھر میں رہتے ہیں جس کی انہوں نے فنانسنگ کروائی ہوئی ہے ، وہ ماہانہ قسطوں میں ادائیگی کررہے ہیں جو اس سے نسبتا کم ہے اگر وہ ویسا ہی کوئی گھر کرایہ پر لیتے ۔ اب وہ پندرہ سال بعد یعنی 2017ءمیں اپنے گھر کے مکمل مالک ہوں گے ۔ اسی شہر میں ایک اور دوست ہیں خالد صاحب جو ایک سرکاری ملازم ہیں ۔ خالد صاحب 1998 میں ملتان شفٹ ہوئے ، ماہانہ آٹھ ہزار گھر کا کرایہ ادا کرتے ہیں ، اور جب مالک مکان کہے انہیں ایک ماہ کے نوٹس پر فورا گھر خالی کرنا ہوتا ہے ، گھر خالی کرنا کیسا جذباتی امتحان ہے ہر صاحب گھر اسے سمجھ سکتا ہے …اب سوال یہ ہے کہ استحصال محمد ارشد کے ساتھ ہوا جو پندرہ سال کی ماہانہ (مکان کرایہ کے برابر) ادائیگیوں کے بعد گھر کے مکمل مالک بن جائیں گے یا خالد صاحب کے ساتھ جو 1998 سے ماہانہ آٹھ ہزار کی ادائیگی کے باوجود مالک مکان کے رحم و کرم پر ہیں ؟

ماموں بہت بڑے بیوپاری ہیں ، جو دیہات میں کسانوں کو اس شرط پر کھاد، سپرے، اور دوسری اجناس دیتے ہیں کہ جب فصل تیار ہو گی تو کسان انہیں وہ فصل بیچ کر اپنا قرض چکائے گا اور بقیہ رقم وصول کر لے گا۔ قرض کا عمومی دورانیہ تین سے چار ماہ ہوتا ہے۔ کھاد کی اگر نقد مالیت ایک ہزار ہے تو تین ماہ بعد تیرہ سو سے پندرہ سو وصول کی جاتی ہے – اس سلسلے میں انہیں ہمارے علاقہ کے تمام علما کا تعاون حاصل ہے جو فرماتے ہیں کہ یہ اجناس کا لین دین ہے سود یا ربا نہیں …جبکہ حکومت پاکستان کی زرعی ترقیاتی بنک یا دوسرے سبسڈی پر چلنے والے ادارے کسانوں کو سہہ ماہی یا سالانہ قرض دیتے ہیں جن پر انٹرسٹ ریٹ آٹھ فیصد کے آس پاس ہوتا ہے (جس میں مرکزی بنک کی موجودہ کم شرح کی بدولت مزید کمی متوقع ہے ) – ایک ہزار کے قرض پر صرف اسی سے سو روپے – سوال یہ ہے کہ انصاف کس میں ہے اور استحصال کس میں ؟

جدید معیشت سود کے تین جواز پیش کرتی ہے جس پر کھلے ذہن سے غور کرنے کی ضرورت ہے –

مہنگائی … مہنگائی کی پیمائش کا طریقہ سادہ ہے جس میں وہ تمام اشیا اور خدمات لی جاتی ہیں جو عام استعمال کی ہیں اور انہیں ہر ایک استعمال کرتا ہے ۔ فرض کیا کہ ہم سو ایسی اشیا و خدمات لیتے ہیں اور ان کی دو ہزار چودہ میں کل قیمت کا دو ہزار پندرہ کی کل قیمت سے موازنہ کرتے ہیں ، اگر کل قیمتوں میں اضافہ پانچ فیصد ہوا تو ہم کہیں گے کہ مہنگائی پانچ فیصد ہے اور اگر دس فیصد اضافہ تو ہم کہیں گے کہ مہنگائی دس فیصد ہے ۔ مہنگائی کے ساتھ ساتھ روپے پیسے کی ویلیو یا قوت خرید میں کمی ہوتی ہے – مثال کے طور پر اگر دو ہزار پانچ میں ایک روٹی کی قیمت ایک روپے تھے اور دو ہزار پندرہ میں اسکی قیمت اگر تین روپے ہے تو روٹی کے اعتبار سے مہنگائی میں دو سو گنا اضافہ ہوا ہے ، اور ایک روٹی کے ہی حساب سے ایک روپے کی قوت خرید میں دو سو گنا کمی ہوئی ہے – اسے روپے میں فرسودگی (depreciation ) کہتے ہیں –

رسک (خطرہ ) … اگر میں کسی قریبی دوست یا عزیز کو قرض دیتا ہوں تو یہ خطرہ موجود ہوتا ہے کہ کیا وہ مجھے واپس کرے گا یا نہیں ۔ اسی طرح اگر میں کسی انجان یا کم واقف شخص کو قرض دیتا ہوں تو عدم ادائیگی کا خطرہ مزید بڑھ جاتا ہے ۔ بنکوں کے ڈپازٹر (پیسے امانت رکھنے والا ) کے لئے یہ خطرہ نسبتاً کم ہوتا ہے ،مگر موجود ضرور رہتا ہے ۔ گزشتہ صدی میں بہت بڑی تعداد میں بنکوں کے بحران آئے ہیں جن میں بنک اس قابل نہیں ہوتے کہ اپنے ڈپازٹرز کو ان کی رقم واپس کر سکیں ۔ اس بحران کی بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ بنک جن کمپنیوں کو قرض پر رقم فراہم کرتا ہے ، وہ اپنے اپنے کاروبار میں خسارہ کی صورت میں بنک کو ادائیگی میں ناکام رہتے ہیں یوں بنک اپنے ڈپازٹرز کو بوقت ضرورت ادائیگی میں ناکام ہو جاتا ہے ۔ تمام ممالک میں حکومتیں فورا اقدامات کر کے بنکوں کو بیل آوٹ (فوری ضرورت کی رقم ) فراہم کرتی ہیں یوں عارضی طور پر خطرہ ٹل تو جاتا ہے مگر بالکل ختم نہیں ہوتا ۔ میری رائے میں محض قرض حسنہ کی بنیاد پر بڑے پراجیکٹس کی فنانسنگ ناممکن ہے ، اور بنک کے بغیر محض غیر ادارہ جاتی سماجی تعاون پر موجودہ پیچیدہ دنیا کی معاشی سرگرمیوں کو منظم کرنا ناممکن ہے۔

اسی طرح بنک بھی مختلف کمپنیوں کو قرض دیتے ہوئے رقم کی وصولی پر خطرہ کو مدنظر رکھتے ہیں ۔ اگر وصولی کے امکانات انتہائی کم ہیں تو قرض دینے سے انکار کر دیا جاتا ہے ، بصورت دیگر خطرہ کی نوعیت کی بنیاد پر ان پر شرح سود لاگو کیا جاتا ہے ۔ بنک اور دوسرے فنانشل اداروں کے پاس کمپنی کے خطرہ ڈیفالٹ کو پیمائش کرنے کے ریاضیاتی اور شماریاتی طریقے وافر طور پر موجود ہیں ۔

تلافی یا معاوضہ ادا کرنا … اس نکتے کو سمجھنے سے پہلے ایک بات یاد رہے کہ باوجود یہ کہ بنکنگ اور فنانشل سیکٹر پوری دنیا میں وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ منظم ہو رہا ہے ، مگر عزیزوں رشتہ داروں اور دوستوں کے درمیان قرض حسنہ کی روایت اب بھی پوری دنیا میں موجود ہے ۔ لوگ اپنے عزیز و اقارب کو قرض دیتے ہیں اور وہ انہیں واپس ادا بھی کرتے ہیں ۔ اس جذبہ کی حوصلہ افزائی یقینا ضروری ہے ۔ مگر یاد رہے کہ ہمارا اس طرح کا تعاون ایک تو قریبی لوگوں کے ساتھ مخصوص ہے تو دوسری طرف اس سے حاصل ہونے والے قرض کی کل مقدار محدود ہے جو کسی بڑے یا درمیانی درجہ کے پروجیکٹ کے لئے کافی نہیں ۔ دوسری بات یہ کہ یہ تعاون اپنی بنیاد میں رضاکارانہ ہے ، اگر کسی فرد کو اپنے کاروبار کے لئے قرض کی ضرورت ہے تو وہ کسی بھی شخص کو مجبور نہیں کر سکتا کہ مجھے ہر صورت میں قرض دیا جائے ۔ یا ایک شخص باصلاحیت ہے ، اس کے پاس کاروبار کے بہتر مواقع موجود ہیں ، مگر اس کے عزیز و اقارب میں ایسے صاحب حیثیت لوگ موجود نہیں جو اس کی مالی مدد کر سکیں تو کیا اس صورت میں اس فرد کی توانائیوں کا ضیاع ایک معقول بات ہے ؟

دور جدید کی معاشی سرگرمیاں بنک و فنانشل سیکٹر کے بغیر نہ منظم ہو سکتی ہیں اور نہ جاری رہ سکتی ہیں۔ بڑے پروجیکٹس کے لئے اربوں روپے کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ اربوں روپے ایک فرد یا چند فرد مل کر نہیں فراہم کر سکتے اس کے لئے ایک بہت بڑی تعداد میں لوگوں کے مالی تعاون کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ لوگ کسی ایسے شخص سے مالی تعاون کیوں کریں جسے وہ جانتے ہی نہ ہوں؟ یا دوسرے لفظوں میں انہیں مالی تعاون کی کیا ضرورت ہے ، اگر ان کے پاس جو پیسے ہیں وہ خود انہیں کہیں انویسٹ کر دیں جیسے کوئی زمین خرید کر رکھ لیں ،چونکہ زمین کی قیمت بڑھتی جاتی ہے اس لئے کل کو انہیں اس سرمایہ کاری پر نفع مل جائے گا ؟ لوگوں کے پاس یہ بھی آپشن موجود ہے کہ وہ مستقبل کے لئے پیسے محفوظ کرنے یا کسی کو قرض دینے کے بجائے اسے آج خرچ کر لیں ؟ یوں جدید معاشی نظام لوگوں کی تلافی کرتا ہے یا دوسرے لفظوں میں اس بات کا معاوضہ ادا کرتا ہے کہ وہ خود سرمایہ کاری کرنے یا خرچ کرنے کے بجائے ان کے کسی درمیانہ یا بڑے درجے کے پروجیکٹ میں مالی تعاون کریں – اس معاوضہ کا کیسے تعین ہو گا ؟ اس کی صورت یہ ہے کہ آپ ایک ملک کی معیشت میں تمام کمپنیوں کا اوسط نفع نکالیں، اس اوسط نفع سے شرح مہنگائی اور خطرہ (رسک ) کو نفی کریں تو حاصل ہونے والا عدد سرمایہ کاری پر ملنے والے نفع یا معاوضہ ہو گا –

اسی طرح شرح سود کے تعین میں گورنمنٹ کی پالیسیوں کا بھی عمل دخل ہوتا ہے جب مارکیٹ بہت زیادہ پھیل جائے اور اچانک بحران کا خدشہ ہو تو گورنمنٹ شرح سود میں اضافہ کر دیتی ہے ، اگر مارکیٹ میں بحران ہو تو شرح سود میں کمی کر کے معاشی سرگرمیوں کو تیز کرنے کی کوشش کرتی ہے – مگر یہ ہمارا اس وقت موضوع نہیں کیونکہ اس کا کلاسیکل معاشیات کی بنیادوں اور انٹرسٹ ریٹ (شرح سود ) کے بنیادی مباحثہ سے کوئی تعلق نہیں۔ ویسے بھی کلاسیکل معیشت حکومت کو یہ اختیار دینا پسند نہیں کرتی اور شرح سود کے تعین میں ان تین بنیادی اجزا کو اہمیت دیتی ہے –

انصاف و استحصال کا معاملہ… ہم سب جانتے ہیں کہ عموماًکسی ملک میں شرح سود شرح مہنگائی پر انحصار کرتی ہے اور مہنگائی کا تعین عام ضرورت کی کل اجناس اور خدمات کی قیمتوں میں اضافہ یا کمی سے ہوتا ہے۔ جن ممالک میں مہنگائی کی شرح کم ہے، وہاں شرح سود کم ہے اور جہاں مہنگائی زیادہ ہے تو وہاں شرح سود زیادہ ہے ، مثال کے طور پر پاکستان میں زرداری دور میں مہنگائی کی شرح بہت زیادہ تھی تو شرح سود بھی بہت زیادہ تھا -اسی طرح موجودہ حکومت میں مہنگائی کی شرح کم ہے تو مرکزی بنک کا شرح سود بھی کم (چھ فیصد ) ہے – ایران میں شرح سود بیس فیصد سالانہ ہے تو اسکی وجہ بھی وہاں مہنگائی کی شرح کا تقریبا سولہ فیصد ہے جو دو سال قبل کے چالیس فیصد سے گری ہے تو ساتھ ساتھ ملکی شرح سود بھی گرتا چلا آیا ہے ۔ امریکہ کا تین ماہ کے قرض پر شرح سود صفر اعشاریہ چار صفر فیصد ہے کیونکہ وہاں مہنگائی کی شرح ماہ اکتوبر میں صفر اعشاریہ دو فیصد تھی ۔

انصاف پر مبنی انٹرسٹ ریٹ وہ ہے جس میں مہنگائی کی شرح ،رسک کی شرح (کمپنی کے دیوالیہ ہونے کے خطرہ کی شرح )، اور اپنی آج کی ضرورت کو مستقبل کے لئے قربان کرنے کا معاوضہ دیا جائے۔ اگر انٹرسٹ ریٹ ان تینوں اجزا کے کل سے کم یا زیادہ ہو تو وہ استحصال ہے اور اگر برابر یا تقریبا برابر ہو تو وہ جدید معیشت کی رو سے انصاف ہے – اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی یاد رہے کہ احسان پر مبنی قرض جسے ہم قرض حسنہ کہتے ہیں اس کا بھی راستہ ویسے ہی کھلا ہے جیسے پہلے کھلا تھا اور کسی بھی مہذب سماج میں قرض حسنہ کے جذبات و تعاون کو ہمیشہ قدر کی نظر سے دیکھا جاتا ہے ۔ یہ آپ منحصر ہے کہ آپ کسی کو قرض دیتے ہوئے اس پر احسان کرتے ہو، انصاف کرتے ہو یا استحصال ۔

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan