دس اپریل 1986۔۔۔ وہ دن کہ جس کا وعدہ تھا (5)


بے نظیر کو شاید خود بھی اتنے بڑے استقبال کی توقع نہ ہو گی۔ میرا ہی نہیں دو چار روز پہلے تک ہر شخص کا یہی خیال تھا کہ بس مناسب سا استقبال ہو گا۔ یہ تو کسی کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ پورا پاکستان لاہور میں اُمڈ آئے گا اور لاہور کی سڑکیں تنگ پڑ جائیں گی۔ ٹرک آہستہ آہستہ آگے نکل گیا۔ اب دوبارہ اس ٹرک کے قریب پہنچنا ممکن ہی نہیں تھا۔سو میں ہجوم میں گم ہو گیا۔ جلوس کی مخالف سمت میں چلنے لگا یہ دیکھنے کے لیے کہ یہ جلوس کتنا طویل ہے۔ اس جلوس میں بہت سے رنگ تھے۔ سندھی، بلوچی، پٹھان اور پنجابی سب اس کارواں میں شریک تھے۔ ہر زبان میں لکھے ہوئے استقبالیہ بینر، ہر صوبے کا لباس، یہ جلوس نہیں تھا یہ پاکستان کا کلچر تھا۔ کلچر جو آزادی کے نعرے لگا رہا تھا۔ ہجوم مشتعل ہونے کے باوجود نظم و ضبط میں تھا۔ غصہ صرف چہروں اور نعروں سے عیاں تھا۔ ’’امریکہ نے کتا پالا، کالی کالی مونچھوں والا‘‘۔ بھئی کیا زبردست نعرہ ہے۔ بس مجھے لفظ مونچھوں پر اعتراض ہے یہاں اگر مونچھوں کی جگہ ’’تسموں‘‘ استعمال کیا جاتا تو نعرہ مزید بامعنی ہو جاتا اور بھٹو صاحب کی روح بھی خوش ہوتی کہ انہوں نے سہالہ ریسٹ ہاؤس میں جنرل ضیاء کی مونچھوں کے تسمے بنانے ہی کی تو بات کی تھی۔ اور بات یہیں سے تو شروع ہو کر پھانسی تک پہنچی تھی۔ ایک ٹرک میں ایک کتا بھی بٹھایا گیا تھا۔ اصلی والا کتا۔ اس کے گلے میں ضیاء الحق کی تصویر ڈالی گئی تھی، وقفے وقفے سے اس کی پٹائی بھی ہو رہی تھی۔ سچ پوچھو تو مجھے کتے پر ترس آیا۔ لیکن شاکر یہ نفرت ہے، غصہ ہے، پابندیوں، پھانسیوں، کوڑوں اور جلاوطنیوں کا ردِ عمل ہے۔ میں چئیرنگ کراس تک یہ سارے منظر دیکھتا رہا اور پھر جلوس سے الگ ہو گیا۔

اب مجھے مینار پاکستان جانا تھا۔ جہاں جلوس کے اختتام پر جلسۂ عام ہوگا۔ میں جلوس کے پہنچنے سے پہلے وہاں پہنچنا چاہتا تھا تاکہ وہاں بھی کوئی مناسب جگہ مل سکے۔ مینار پاکستان۔ ایک تاریخی جگہ کہ جہاں 1940ء میں قرارداد پاکستان منظور ہوئی تھی اور یہی مینارِ پاکستان آج 10 اپریل کو ایک اور تاریخی منظر دیکھنے والا تھا۔ کہتے ہیں کہ کسی کے جلسے کو ناکام کرنا ہو تو اسے مینارِ پاکستان لے جاؤ کہ منٹو پارک کے گراؤنڈ اتنے وسیع ہیں کہ بھرنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ لاکھوں لوگ بھی سما جائیں تو گراؤنڈ خالی نظر آتا ہے۔ مگر شاکر آج یہ گراؤنڈ چھوٹے پڑ گئے تھے۔ میں جلوس کی آمد سے بہت پہلے وہاں پہنچا تو گراؤنڈ کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ بادشاہی مسجد اور شاہی قلعے میں بھی لوگ ہی لوگ تھے بھاٹی گیٹ تک تِل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ محتاط اندازہ ہے کہ جلسے میں 15 لاکھ افراد تھے مگر بی بی سی کا تبصرہ بہت اچھا ہے کہ وہاں اتنی خلقت تھی کہ جسے گِنا نہیں جا سکتا ۔ بے نظیر بھٹو جب وہاں پہنچیں تو شام ہونے والی تھی۔ ٹرک کو سٹیج تک لے جایا گیا اور پھر بے نظیر بھٹو کی آواز سنائی دی۔ ان کا لب و لہجہ انگریزی تھی۔ اردو انہیں ٹھیک طرح بولنا نہیں آتی۔ مگر جوش اور ولولہ بے پناہ ہے۔ واقعی بھٹو کی تصویر، بلکہ بھٹو کی تقریر، بے نظیر نے جلسے میں ایک نظم پڑھی ’’میں باغی ہوں، میں باغی ہوں ۔۔۔ جو چاہے مجھ پر ظلم کرو‘‘ ۔ بڑی زور دار نظم تھی وہ نظم انہوں نے بہت پرجوش طریقے سے پڑھی اور پھر جلسے کا اختتام ہوا۔ اختتام بھی زور دار تھا۔ بے نظیر بھٹو نے لاہوریوں کے انداز میں ’’ضیاء الحق جاوے ای جاوے‘‘ کا نعرہ لگا کر سب کو نہال کر دیا۔ اور پھر ’’جاوے ای جاوے، جاوے ای جاوے‘‘ کو اس تواتر سے کہا کہ باقاعدہ ردھم بن گیا۔ پوری خلقت ’’جاوے ای جاوے‘‘ کہنے لگی۔ شام کے سائے گہرے ہونے لگے تو جلسہ ختم ہو گیا لیکن جلسہ ختم کہاں ہوا تھا۔ ’’جاوے ای جاوے‘‘ کا نعرہ واپس جانے والے قافلوں کا زادِ سفر بن گیا تھا۔ اب پاکستان کی ہر گلی اور محلے میں ’’ضیاء الحق جاوے ای جاوے‘‘ کا نعرہ سنائی دے رہا ہے۔

لو بھائی شاکر دوسری رات تمام ہوئی اور یہ خط بھی ۔۔۔ تمہیں باخبر رکھنے کے لیے بہت مشقت کرنا پڑی۔ جاتے جاتے ایک نعرہ۔ ’’ضیاء الحق جاوے ای جاوے‘‘ لیکن بھائی یہ تو بتاؤ کہ ضیاء الحق کب جاوے گا۔۔۔؟

والسلام

تمہارا رضی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).