زندگی ایک ریل گاڑی ہے


Loading

munazza shakeel

ریل گاڑی اپنی پٹڑی پر مسلسل سفر جاری رکھتی ہے۔ راستے میں مختلف اسٹیشنز آتے ہیں۔ وہاں رکتی ہے، کچھ مسافر اپنے مطلوبہ اسٹیشن پر اتر جاتے ہیں، کچھ ٹرین پر چڑھتے ہیں اور اپنے سفر کا آغاز کرتے ہیں۔ یہی مثال زندگی کی ہے۔ زندگی ایک ٹرین ہے جو مسلسل اپنے سفر پر گامزن ہے۔ اس زندگی میں مختلف مراحل میں ہم سفر بننے والے کردار مسافر ہیں جو مطلوبہ وقت اور حالات میں ہمارا ساتھ دیتے ہیں پھر وقت اور حالات کا دائرہ پلٹنے کے بعد ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔

انسانی زندگی کا تجزیہ کیا جائے تو وہ زندگی کے مختلف مراحل میں نت نئے تجربات، مشاہدات، چہروں اور تعلقات سے منسلک ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا تجربہ ہے جس سے دنیا کا ہر فرد ضرور گزرتا ہے، اگرچہ اس کے تجربات اور تاثرات مختلف ہو سکتے ہیں۔

تعلیمی سفر کی بات کی جائے تو طالب علم کی زندگی کی گاڑی میں سکول، کالج اور یونیورسٹی مختلف اسٹیشن ہیں۔ ہر سٹیشن میں کچھ ساتھی ملتے ہیں۔ ایک ساتھ وقت گزارتے ہیں مگر منزل پر پہنچتے ہی سب خاموشی سے غائب ہو جاتے ہیں۔ سکول کی زندگی کی بات کی جائے تو اس موڑ پر بننے والے دوست سچے اور مخلص ہوتے ہیں۔ نہ کوئی لالچ اور نہ ہی کوئی غرض۔ اس دور میں دوستی کا مطلب صرف مل جل کر کھیلنا، ہنسنا، قہقہے لگانا ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انسان اپنے اساتذہ کے ساتھ بھی گہرے دلی تعلق میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ مگر جوں ہی سکول کی تعلیم مکمل ہوتی ہے۔ سب دوست بچھڑ جاتے ہیں۔ کوئی شہر چھوڑ جاتا ہے۔ کوئی نئے دوستوں اور زندگی کی دوڑ میں مگن ہو جاتا ہے۔ کالج کی زندگی خواب اور منزل کے درمیان کا مقام ہے۔ جہاں طالب علم نسبتاً شعور کی دنیا میں قدم رکھتا ہے۔ اپنے خوابوں کی تعبیر اور منزل کے حصول کے لیے محنت اور جدوجہد کرنے لگتا ہے۔ اس دور کی دوستی سنجیدہ اور پرجوش ہوتی ہے۔ اس سفر کے ساتھی تعلیمی سفر میں ساتھ ہوتے ہیں۔ خوشی غمی میں شریک ہوتے ہیں۔ مدد اور اصلاح کے موقع پر کندھا دیتے ہیں۔ مگر وقت تو دریا کی طرح بہتا چلا جا رہا ہے۔ آخر کار کالج کی تعلیم بھی اپنے اختتام کو پہنچ جاتی ہے۔ اور انسان ایک مرتبہ پھر اپنے اساتذہ اور دوستوں سے بچھڑ جاتا ہے۔ اس کے بعد یونیورسٹی کا مرحلہ آتا ہے اور طالب علم کی زندگی کے نئے باب کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ طالب علم کے سفر کا وہ مرحلہ ہوتا ہے۔ جہاں ایک مرتبہ پھر اسے نئے چہرے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ وہ نئے تعلقات استوار کرتا ہے۔ اس مرحلے پر دوستی کا مطلب صرف اکٹھے اٹھنا بیٹھنا، کھیلنا کودنا ہی نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ ہم خیال اور ہم فکر دوستوں کی تلاش کرتا ہے۔ اس مرحلے پر وہ ذاتی طور پر زیادہ سنجیدہ، باشعور، مستقبل کے لیے فکرمند اور پر اعتماد ہوتا ہے۔ اس موڑ پر کبھی وہ دوستوں کے ساتھ گفت و شنید کے دوران مستقبل کے بارے میں اظہار خیال کرتا ہے۔ اپنے مقاصد اور منازل کا ذکر کرتا ہے۔ کبھی سرسبز دالانوں میں بیٹھ کر مستقبل کے نقشے بناتا ہے۔ وقت کا پیا چلتا رہتا ہے۔ بالآخر فائنل سمیسٹر کے آخری امتحان کے بعد یہ تمام ساتھی ماضی کے دستور کے مطابق ایک مرتبہ پھر جدا ہو جاتے ہیں۔

اس کے بعد زندگی کا سفر تو جاری رہتا ہے۔ ہر شخص زندگی کی مصروفیات میں مگن ہو جاتا ہے۔ مختلف مراحل میں ملنے اور بچھڑنے والے ساتھی جسمانی طور پر بظاہر تو بچھڑ جاتے ہیں۔ لیکن ان کی باتیں اور اچھا سلوک ذہن کے گوشے میں نقش ہو جاتا ہے۔ اب ان کرداروں کے ساتھ روز بروز کا رابطہ تو نہیں ہوتا۔ لیکن کبھی کبھار یہ کردار رابطے میں آ جاتے ہیں۔

تعلیمی زندگی کے اختتام کے بعد طالب علم کی عملی زندگی کی شروعات ہوتی ہے۔ نوکری اور شادی وغیرہ۔ اس کی ذمے داریوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ تعلیمی زندگی میں ملنے اور جدا ہونے والے مختلف ساتھی تو بظاہر زندگی سے غائب ہو جاتے ہیں۔ لیکن انسان کو یاد رکھنا چاہیے۔ اس کے خونی رشتے دار یعنی والدین، بہن بھائی، ددھیال اور ننھیال والے بھی اس کی زندگی کے مختلف کردار ہیں جن کے ساتھ صلہ رحمی کا حکم خود اللّٰہ تعالٰی نے دیا ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگی میں ان رشتے داروں کو خصوصاً والدین کے ساتھ تعلق مربوط کرے۔ اپنی تعلیمی اور پیشہ ورانہ زندگی کے ساتھ ساتھ گھریلو زندگی اور اپنے رشتے داروں کے ساتھ تعلق کو کسی صورت نظر انداز نہ کرے۔

مختصر یہ کہ زندگی ایک مسلسل سفر ہے۔ انسان اس سفر میں مختلف ہم سفروں کا ساتھ پاتا ہے۔ ہر ہم سفر اسے کچھ نہ کچھ سکھاتا ہے۔ اس کی زندگی کو سنوارنے، بہتر اور آسان بنانے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے پھر چلا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ تعلقات عارضی ہوتے ہیں۔ مگر ان کے اثرات دائمی ہوتے ہیں۔ وہ ہنسی، مشورے، اختلافات اور جھگڑے وقت کے ساتھ ماضی کا حصہ بن جاتے ہیں۔ صرف آوازیں، تصویریں اور یادیں دل کے گوشے میں محفوظ رہ جاتی ہیں۔ جن کا احساس کبھی چہرے پر مسکراہٹ اور کبھی کبھار آنکھوں میں آنسو جاری کرنے کا باعث بھی بنتا ہے۔ زندگی کے مختلف موڑوں پر مختلف ساتھیوں کا بچھڑنا ایک تلخ حقیقت تو ہے۔ مگر یہی دراصل زندگی کا حسن ہے۔ انسانی زندگی میں کچھ بھی مستقل نہیں۔ سب عارضی ہے۔ وقت اور حالات کے پنجرے میں اگر کچھ مستقل ہے تو صرف ایک چیز۔ وہ صرف اور صرف ماضی کے بیتے ہوئے لمحات کی دل کے گوشے میں محفوظ یادیں۔

لہٰذا انسان کو چاہیے کہ موجودہ لمحے کو اہمیت دے۔ اپنے پاس موجود نعمتوں، رشتوں اور دوستوں کی قدر کرے۔ کیوں کہ یہ لمحات وقت کی گردش میں بہتے ہوئے ماضی کی یادوں میں تبدیل ہو کر پھر دل میں نقش ہو جائیں گے۔ مگر چاہنے کے باوجود بھی دوبارہ کبھی میسر نہ ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments