دو مختصر جنگوں میں پوشیدہ پیغام
دنیا مئی اور جون 2025 کے دوران نہایت اضطراب کے عالم سے دوچار رہی۔ پہلے بھارت اور پاکستان کے درمیان چار روز ( 7 تا 10 مئی ) تک شدید فوجی محاذ آرائی ہوئی۔ اس سے قبل کہ یہ فوجی ٹکراؤ ایک مکمل اور امکانی طور پر ایٹمی جنگ میں تبدیل ہو جاتا دونوں متحارب ملکوں پر اثر و رسوخ رکھنے والے ممالک بالخصوص امریکہ کی بروقت ثالثی سے بھیانک جنگ کا خطرہ ٹل گیا۔ تاہم، اس کے فوراً بعد ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ کا آغاز ہو گیا جو بارہ روز ( 13 تا 24 جون ) تک جاری رہنے کے بعد صدر ٹرمپ کی غیر متوقع مداخلت کے نتیجے میں ختم ہوئی۔ ان دونوں جنگوں میں ہونے والی جانی اور مالی تباہ کاریوں کی تفصیلات سامنے آ چکی ہیں۔ تاہم، بعض حقائق ایسے ہیں جنہیں زیر بحث لانا اور یہ امر اجاگر کرنا ضروری ہے کہ ان دو مختصر جنگوں میں دنیا کے لیے کیا پیغام پوشیدہ ہے۔
معروضی تجزیہ سے معلوم ہو گا پاک بھارت فوجی محاذ آرائی کے دوران دونوں ملکوں نے اپنے دوست ملکوں سے جس بڑے پیمانے پر حمایت کی توقعات وابستہ کی تھیں وہ پوری نہیں ہو سکیں۔ ایران اسرائیل جنگ میں بھی کم و بیش یہی صورت حال تھی۔ اسرائیل کو مغربی ممالک سے جس غیر مشروط حمایت اور تعاون کی توقع تھی وہ اسے نہ مل سکی۔ امریکہ نے اس کی عملی فوجی مدد ضرور کی لیکن جنگ بندی اور ایران پر حملے روکنے کے لیے اسرائیل پر سب سے شدید دباؤ بھی امریکہ کی طرف سے ہی ڈالا گیا۔ اسی طرح ایران کو امید تھی کہ جنگ میں امریکہ کے ملوث ہونے کے بعد روس اور چین عملی طور پر اس کی فوجی حمایت کریں گے لیکن اس کی توقعات بھی پوری نہ ہو سکیں اور ان دونوں ملکوں نے ایران کی سیاسی اور سفارتی حمایت سے زیادہ آگے جانے سے گریز کیا۔
غور کرنا چاہیے کہ دنیا کے اہم ملکوں نے مذکورہ بالا دونوں تنازعات میں اتنا محتاط رویہ کیوں اختیار کیا؟ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دنیا گزشتہ 20 سال کے دوران نمایاں طور پر تبدیل ہوئی ہے۔ وہ اب ایک معاشی اکائی کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے جس کے سیاسی تقاضے ماضی کے سرد جنگ دور سے بہت مختلف ہیں۔ دنیا میں رونما ہونے والی اس انقلابی اور غیرمعمولی معاشی تبدیلی کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2005 میں دنیا کی کل جی ڈی پی صرف 47.81 ٹریلین ڈالر تھی جو 2025 میں بڑھ کر 113.81 ٹریلین ڈالر ہو چکی ہے۔ اس میں ترقی پذیر ملکوں کی ابھرتی ہوئی معیشتوں کا حصہ 46.93 جب کہ ترقی یافتہ ملکوں کا حصہ 66.87 ٹریلین ڈالر ہے۔
برق رفتار معاشی ترقی اور باہمی انحصار کی ناگزیر ضرورت نے ملکوں کی قومی ترجیحات تبدیل کر دی ہیں۔ معاشی سلامتی اور پائیدار ترقی اب ان کی اولین ترجیح بن گئی ہے۔ تیل کی دولت سے مالامال عرب ملک جانتے ہیں کہ ان کے قدرتی ایندھن کے محفوظ ذخائر جلد ختم ہونے والے ہیں اور متبادل توانائی تیزی سے اس کی جگہ لے رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ابھرتی ہوئی معیشتوں اور ترقی یافتہ ممالک میں کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا آغاز کر چکے ہیں۔ اسی باعث اب وہ علاقائی تنازعات اور جنگوں میں براہ راست فریق بننے کا خطرہ مول لینے پر تیار نہیں ہیں۔ امریکہ اگر آج دنیا میں امن کا خواہاں ہے تو اس کے اسباب بھی سیاسی سے زیادہ معاشی ہیں۔ سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات امریکہ میں 3200 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں۔ ایران اسرائیل جنگ اگر پھیل جاتی تو خلیجی ریاستیں بھی اس کی لپیٹ میں آ جاتیں اور امریکہ میں عربوں کی وہ بھاری سرمایہ کاری رک جاتی جس کی اس وقت اسے انتہائی ضرورت ہے۔ ان عوامل کے پیش نظر امریکہ نے دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کو طول پکڑنے سے نہ صرف روک دیا بلکہ امریکی صدر نے جنگ بندی کے عمل کی معمولی سی خلاف ورزی پر اسرائیل کی جن الفاظ میں بری طرح سرزنش کی انہیں یہاں نقل نہیں کیا جا سکتا۔ دوسری جانب دنیا کی تیسری بڑی فوجی طاقت روس کے معاشی مسائل یوکرین جنگ کے باعث مزید سنگین ہو گئے ہیں، وہ دوسروں کی جنگ میں شمولیت کا مالی بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ چین دنیا کی دوسری سب سے بڑی معاشی اور عسکری طاقت ہے۔ وہ بھی اپنے خارجہ تعلقات کو دیرپا معاشی مفادات کے تابع کر رہا ہے۔
چین ہمارا قریب ترین دوست ہے جس کی دانش سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔ بھارت اور چین 1962 میں اکسائی چین کے علاقے میں ایک بڑی جنگ لڑ چکے ہیں۔ 13000 فٹ بلندی پر ایک ماہ جاری رہنے والی اس لڑائی میں دونوں طرف سے مجموعی طور پر سیکڑوں فوجی ہلاک ہوئے۔ اس جنگ میں چین فتح یاب ہوا۔ دونوں پڑوسی ملک، دو الگ الگ علاقوں پر اپنی ملکیت کا دعویٰ رکھنے کے باوجود ایک دوسرے سے تجارت اور کاروبار کو رفتہ رفتہ بڑھاتے رہے جس کے نتیجے میں چین 2024 میں 118.4 ارب ڈالر کے ساتھ بھارت کا دوسرا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر بن چکا ہے۔ 2020۔ 2021 کے دوران ان دونوں ملکوں کے درمیان گلوان میں دوبارہ خونی سرحدی جھڑپیں ہوئیں جن میں درجنوں فوجی ہلاک ہوئے لیکن صورت حال پر فوری قابو پا لیا گیا۔ یہ جان کر شاید کئی لوگوں کو حیرت ہو گی کہ ان مسلح جھڑپوں اور فوجی کشیدگی کے دوران بھی دو طرفہ تجارت کا سلسلہ نہ صرف جاری رہا بلکہ بھارت کے لیے چینی درآمدات میں اضافہ بھی ہوا۔ چین سیاست اور تجارت کو الگ رکھتا ہے جو اس کی حیرت انگیز ترقی کا ایک بڑا راز ہے۔
اکیسویں صدی کی جدید دنیا میں معاشی سلامتی زیادہ اہمیت اختیار کرتی جا رہی ہے جس کا فطری تقاضا ہے کہ دنیا کے ہر خطے میں امن ہو، ورثے میں ملنے والے بیسویں صدی کے علاقائی تنازعات کو جنگوں میں تبدیل نہ ہونے دیا جائے، کسی مہم جوئی کے باعث جنگ کے شعلے اگر کہیں بھڑک اٹھیں تو انہیں فوراً سرد کر دیا جائے اور خود اس کا حصہ نہ بنا جائے۔
معاشی اکائی میں تبدیل ہوتی دنیا کے ملکوں میں اس امر پر اتفاق رائے پیدا ہوتا جا رہا ہے کہ انتہا پسند فکر کی، خواہ وہ کسی بھی عنوان اور انداز سے ہو ہر قیمت پر مزاحمت کی جائے کیونکہ اس فکر سے شدت پسندی جنم لیتی ہے جو اکثر اوقات دہشت گردی میں تبدیل ہو کر علاقائی اور عالمی امن کے لیے خطرہ بن جاتی ہے۔
ان دو مختصر جنگوں نے دنیا کے ملکوں کو پیغام دیا ہے کہ اب وہ دور رخصت ہو رہا ہے جب معیشت، سیاست کے تابع ہوتی تھی۔ اب ارتقائی عمل کا وہ مرحلہ آ گیا ہے جب تجارت اور معیشت کے تقاضے، سیاست اور خارجہ تعلقات کی سمت کا تعین کریں گے۔
اس اہم پیغام کو جلد سمجھ لینے میں بڑا فائدہ ہے۔
- دو مختصر جنگوں میں پوشیدہ پیغام - 05/07/2025
- صدر ٹرمپ: جو دل میں وہ زباں پہ - 28/06/2025
- کیا امریکہ اپنے بحران پر قابو پا لے گا؟ - 04/05/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).