چوکا گاؤں کا آدم خور شیر (2)


اپریل 1937ء کی ایک دوپہر ایبٹسن، اس کی بیوی اور میں براستہ تنک پور موضع بھوم پہنچے۔ ہم سر سے پاؤں تک گرد میں اٹے ہوئے تھے۔ دریائے ساروا کے کنارے کچھ دیر آرام کرنے کے اور چائے کی ایک پیالی پینے کے بعد ہم تھولی گھاٹ پیدل روانہ ہوئے جہاں ہمارے خیمے ملازموں نے پہلے ہی نصب کر رکھے تھے۔ دوسری صبح ہم ناشتہ کرنے کے بعد ہم کالا ڈھونگا پہنچے۔ تھولی گھاٹ اور کالا ڈھونگا کے درمیان آٹھ میل کا فاصلہ ہے۔ ہماری آمد کی اطلاع پہلے ہی سے وہاں پٹواریوں اور جنگل کے محافظوں کو پہنچا دی گئی تھی۔ ان لوگوں کو ہم نے اس لئے جمع ہونے کو کہا تھا کہ وہ ہمیں آدم خور کے متعلق تازہ ترین اطلاعات بہم پہنچا سکیں۔ جب ہم ریسٹ ہاؤس پہنچے تو چار آدمی ہمارے منتظر تھے اور آدم خور کے متعلق ان کی اطلاع حوصلہ افزا تھی۔ گزشتہ چھ سات دنوں میں وہاں کوئی انسان ہلاک نہیں ہوا تھا اور لوگوں کو یقین تھا کہ شیر موضع ٹھک کے گرد و نواح میں موجود ہے۔ جہاں اس نے چند روز پہلے ایک بچھڑا ہلاک کیا تھا۔ کالا ڈھونگا ایک پہاڑی وادی میں واقع ہے اور اس کا رقبہ کوئی چار میل کے قریب ہے۔ اس کے تین طرف دریائے ساروا اور چھوتی طرف ایک پہاڑی ہے جو کوئی پانچ ہزار فٹ اونچی ہے۔ ریسٹ ہاؤس دریائے ساروا کے کنارے واقع ہے اور اس کے سامنے والے دنیا کے خوبصورت ترین مناظر ہیں۔

رات کالا ڈھونگا کے ریسٹ ہاؤس میں گزارنے کے بعد صبح کے ناشتے سے فارغ ہوتے ہی ہم چوکا کی طرف پیدل چل پڑے جو وہاں سے کوئی پانچ میل کے فاصلے پر تھا۔ سورج کی شعاعوں میں خوشگوار قسم کی حدت تھی۔ شمال سے جنوب کی طرف ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔

آدم خور کے ہاتھوں مزید انسانی جانوں کے نقصان کو روکنے کے لئے ہم نے چھ نوجوان بھینسے تنک پور سے پہلے ہی چوکا روانہ کر دیے تھے۔ یہ بھینسے ہم نے شیر کو ترغیب دینے کے لئے استعمال کرنے تھے۔ چوکا پہنچنے پر ہمیں بتایا گیا کہ ان بھینسوں کو جنگل میں مختلف جگہوں پر گزشتہ تین راتوں سے باندھا ہوا ہے اور اگرچہ ایک شیر کے پنجوں کے نشان دو تین بھینسوں کے قریب دیکھے گئے ہیں لیکن ان میں سے کوئی ہلاک نہیں ہوا۔ اگلے چار دنوں کے دوران ہم صبح کے وقت ان بھینسوں کو دیکھنے جاتے۔ دن میں شیر کو دیکھنے کی کوشش کرتے اور شام کو ایک دفعہ پھر بھینسوں کو دیکھنے جاتے۔ پانچویں صبح کو ٹھک کے قریب جنگل کے کنارے بندھے بھینسے کو شیر اٹھا کر لے گیا۔ اپنے شکار کو گھنے جنگل میں لے جانے کے بجائے جیسا کہ ہمیں توقع تھی شیر اسے ایک کھلے راستے سے پہاڑی پر لے گیا تھا۔ ایسا اس نے ایک مچان سے بچنے کی خاطر کیا تھا۔ اس مچان سے اس پر دو مرتبہ پہلے گولی چلائی جا چکی تھی اور شاید وہ زخمی بھی ہوا تھا۔ بھینسے کو تھوڑی دور لے جانے کے بعد اس کے سینگ دو تنگ چٹانوں کے درمیان پھنس گئے تھے اور شیر اسے وہیں چھوڑ گیا تھا۔ شیر کے پنجوں کے نشانات سے معلوم ہوا کہ وہ ایک بڑا نر شیر ہے۔

مردہ بھینسے سے بیس فٹ کے فاصلے پر جامن کا ایک درخت تھا۔ بھینسے کو چٹانوں کے درمیان سے کھینچنے کے بعد ہم نے ایک آدمی کو جامن کے درخت پر چڑھا دیا تاکہ وہ اس کی ایسی چند شاخیں توڑ دے جو بھینسے کو پوری طرح دیکھنے میں رکاوٹ بنی ہوئی تھیں۔ پہاڑی پر وہ اکیلا ہی درخت تھا اور وہیں بیٹھ کر شیر پر گولی چلائی جا سکتی تھی۔ درخت پر سے گرد و پیش کا منظر صاف دکھائی دیتا تھا۔ جب وہ شخص درخت کی شاخیں توڑ رہا تھا تو میرا خیال ہے کہ شیر نے اسے دیکھ لیا تھا۔

اس وقت صبح کے گیارہ بجے تھے۔ اپنے آدمیوں کو گاؤں کھانا کھانے کے لئے بھیج کر میں اور ایبٹسن ایک سایہ دار جھاڑی کے نیچے بیٹھ کر سرگوشیوں میں باتیں کرنے لگے۔ اڑھائی بجے کے قریب ہم ہلکا پھلکا کھانا کھا رہے تھے کہ چند جنگلی پرندوں کے بولنے کی تیز آواز سنائی دی۔ ایبٹسن اور اس کا ملازم شیر کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کے لئے جنگل میں چلے گئے اور میں جامن کے درخت پر چڑھ گیا۔ جب میں درخت پر ٹھیک طرح بیٹھ سے گیا تو ایبٹسن اور اس کا ملازم جنگل سے باہر نکل آئے اور چوکا کیمپ واپس چلے گئے۔ اپنے پیچھے وہ دو آدمی ٹھک میں چھوڑ گئے۔

ایبٹسن کے جانے کے تھوڑی دیر بعد پھر جنگل میں سے پرندوں کی تیز آوازیں سنائی دینے لگیں۔ اس سے ظاہر تھا کہ شیر پھر حرکت کر رہا تھا۔ لیکن اس بات کی بہت کم امید تھی کہ وہ شام سے پہلے کھلے میدان میں سے گزر کر اپنے شکار کی طرف آئے گا۔ پرندے تقریباً پندرہ منٹ تک چلاتے رہے اور پھر ایک دم خاموش ہو گئے۔ اس کے بعد شام تک کوئی آواز سنائی نہ دی اور جنگل پر خاموشی طاری رہی۔

دریائے ساروا کے کنارے نیپال کی پہاڑیوں پر شام کی شفق آہستہ آہستہ اندھیرے میں تبدیل ہونے لگی۔ اتنے میں ایک ہرن کے بولنے کی تیز آواز سنائی دی۔ شیر اس سمت سے واپس آ رہا تھا جدھر سے وہ اپنا شکار چھوڑ کر گیا تھا۔ میرے سامنے درخت کی ایک شاخ تھی جس پر میں نے بندوق کی نال ٹکا رکھی تھی اور شیر کے آنے پر فقط بندوق کے پچھلے حصے کو ذرا اوپر اٹھا کر لبلبی دبانے کی ضرورت تھی۔ وقت آہستہ آہستہ رینگنے لگا پھر دو سو گز کے فاصلے پر پہاڑی کی سمت ککر چیخ اٹھا۔ شیر پر گولی چلانے کے سلسلے میں میری امید نے دم توڑ دیا۔ اب یہ صاف ظاہر تھا کہ شیر نے میرے آدمی کو درخت کی شاخیں توڑتے دیکھ لیا تھا اور پھر شام کے قریب ممکن تھا کہ اس نے مجھے بھی درخت پر بیٹھے دیکھ لیا ہو۔ بہرحال وہ شکار سے پرے پرے چلا گیا تھا۔ اس کے بعد تھوڑے تھوڑے وقفے سے سانبھر اور ککروں کی آوازیں سنائی دیتی رہیں لیکن ہر آواز پہلی آواز سے قدرے دور سے آتی تھی۔ نصب شب کے قریب یہ آوازیں بھی بند ہو گئیں اور جنگل پر مکمل خاموشی طاری ہو گئی۔

ابھی دن نکلا ہی تھا کہ میں درخت سے اترا، اپنی سکڑی ہوئی ٹانگیں سیدھی کیں اور ایک قریبی جھاڑی میں چھپائی ہوئی تھرماس سے چائے پینے لگا۔ جب ٹانگوں میں ذرا چستی آئی اور میں قدرے تازہ دم ہو گیا تو گاؤں کی طرف چل پڑا۔ گاؤں آ کر پہلے میں نے غسل کیا اور ناشتہ کر کے لیٹ گیا۔ رات کے اس تجربے سے میں کچھ دل برداشتہ ہو گیا تھا۔ اتنے میں گاؤں کے چند معتبر لوگ بھی وہاں آ پہنچے۔ انہوں نے مجھ سے درخواست کی کہ میں ایک دو روز مزید وہاں ٹھہروں۔ انہیں یقین تھا کہ میں شیر کو ہلاک کر لوں گا۔

ایک بجے کے قریب میں پھر ٹھک کی پہاڑیاں چڑھ رہا تھا۔ راستے میں مجھے بتایا گیا کہ ایک سانبھر کی آواز سنی گئی ہے۔ کیمپ سے میں اس ارادے سے چلا تھا کہ اب کے ایک زندہ بھینس کے قریب شیر کا انتظار کروں گا۔ جس طرف سے سانبھر کی آواز سنائی دی تھی وہاں راستے میں ایک درخت تھا۔ ہم نے رسے کی مدد سے اس پر مچان تیار کی اور درخت کے نیچے بھینس باندھ دی۔ تین بجے کے قریب میں اس درخت پر چڑھ گیا۔ ایک گھنٹے کے بعد ایک ککر کی آواز آئی اور تھوڑی دیر بعد کوئی ہزار گز سے شیر کی گرج سنائی دی۔ بھینس کے آگے بہت سارا چارہ ڈال دیا گیا تھا۔ اس کے گلے کی گھنٹی رات بھر بجتی رہی مگر وہ شیر کو اپنی سمت متوجہ نہ کرسکی۔

صبح کے وقت جب میں چوکا واپس آیا تو معلوم ہوا ایبٹسن صبح ہونے سے پہلے ہی وہاں سے جا چکا ہے۔ گزشتہ شام اسے اطلاع ملی تھی کہ لدھیا وادی سے آٹھ میل دور ایک شیر نے ایک بیل ہلاک کر دیا تھا۔ وہ ساری رات اس بیل کے قریب شیر کے انتظار میں بیٹھا رہا مگر بے سود۔ دوسری شام وہ کیمپ واپس چلا آیا۔ صبح کو جب ہم ناشتہ کر رہے تھے تو ایک آدمی نے آ کر اطلاع دی کہ جو بھینس دریا کے بہاؤ کی سمت جنگل میں بندھی تھی۔ جہاں گزشتہ روز ککر اور سانبھر کی آوازیں سنائی دی تھیں ، وہاں سے غائب ہے۔ اس گفتگو کے دوران میں ڈویژنل فاریسٹ آفیسر میکڈونلڈ بھی وہاں پہنچ گیا جو اسی روز کالا ڈھونگا سے اپنا کیمپ چوکا میں منتقل کر رہا تھا۔ اس نے بتایا کہ اس نے دریا کے بہاؤ کی سمت (غالباً جہاں بھینس بندھی ہوئی تھی) شیر کے پنجوں کے نشانات دیکھے ہیں۔

ناشتے کے بعد مسز ایبٹسن اور میکڈونلڈ مچھلی کے شکار پر چلے گئے اور میں ایبٹسن کے ایک ملازم کے ہمراہ گمشدہ بھینس کی کھوج میں چل پڑا۔ ٹوٹے ہوئے رسے اور شیر کے پنجوں کے نشانوں کے سوا کسی دوسری بات سے یہ ظاہر نہ ہوتا تھا کہ بھینس کو ہلاک کیا گیا ہے۔ بہرحال آس پاس تلاش کرنے پر مجھے خون کی لکیر دکھائی دی۔ نہ جانے کس مصلحت کی بنا پر شیر اپنے شکار کو تین چار میل کا چکر دے کر اسے پھر سے دریا کے کنارے لے آیا تھا اور یہ جگہ اس جگہ سے کوئی دو سو گز کے فاصلے پر تھی جہاں اس نے بھینس کو ہلاک کیا تھا۔ اس جگہ سے دریا کا پاٹ بہت چھوٹا ہو جاتا تھا۔ میرا خیال تھا کہ شیر اپنے شکار کے ہمراہ وہیں کہیں لیٹا ہو گا۔ چونکہ میرا ارادہ ساری رات شیر کے انتظار میں بیٹھنے کا تھا لہذا میں نے دن کا باقی وقت مسز ایبٹسن اور میکڈونلڈ کے ہمراہ مچھلیاں پکڑنے میں گزارنا بہتر سمجھا۔ لیکن میں پہلے اس بات کا یقین کر لینا چاہتا تھا کہ شیر وہاں موجود ہے کہ نہیں۔

(جاری ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).