چوکا گاؤں کا آدم خور شیر (3)


واپس گاؤں آ کر میں نے چار آدمی اور لئے اور پھر اسی سمت چل پڑا۔ میں چاروں آدمیوں کے آگے آگے چل رہا تھا۔ دریا کے تنگ پاٹ کے قریب شیر کی غرا ہٹ سنائی دی۔ شیر کی غرا ہٹ مجھ سے بیس گز سامنے گھنی جھاڑیوں میں سے آ رہی تھی۔ جب جنگل میں ایک ان دیکھا شیر قریب ہی غرا رہا ہو تو اس کی آواز بے حد ہیبت ناک ہوتی ہے اور واضح طور پر بتاتی ہے کہ دخل اندازی کی کوشش نہ کرنا۔ اس تنگ جگہ پر جب کہ شیر موزوں جگہ پر بیٹھا تھا اور اس کا پلہ بھاری تھا، میرا آگے بڑھنا سراسر حماقت تھی۔ میں نے اپنے آدمیوں کو پیچھے مڑنے کا اشارہ کیا اور خود بڑی بھی بڑی احتیاط سے الٹے قدموں چلنے لگا۔ مجھے یقین تھا کہ شیر کہاں ہے۔ اب میں اس سے دو دو ہاتھ کرسکتا تھا۔ میں نے انہیں گاؤں واپس جانے کے لئے کہا مگر وہ اس قدر خوف زدہ تھے کہ رائفل کی پناہ کے بغیر ایک قدم اٹھانے کو تیار نہ تھے۔ اگر میں انہیں گاؤں چھوڑنے جاتا تو تقریباً دو گھنٹے ضائع ہو جاتے۔ لہذا ناچار انہیں اپنے ساتھ ہی رکھنا پڑا۔

میرا ارادہ تھا کہ شیر کے عقب سے اس پر حملہ کیا جائے۔ دریا کے بائیں کنارے کی چڑھائی چڑھنے کے بعد ہم دریا سے تقریباً دو سو گز پیچھے ہٹ گئے۔ یہاں ہم بائیں سمت کو مڑ گئے۔ دو سو گز مزید چلنے پر ہم پھر بائیں جانب کو ہو لئے۔ اب ہم اس جگہ سے تقریباً سو گز کے فاصلے پر تھے جہاں سے شیر کی غرا ہٹ سنائی دی تھی۔ اب صورتحال شیر کے بجائے ہمارے حق میں تھی۔ میں جانتا تھا کہ شیر دریا کی سمت نہ جائے گا۔ کیونکہ وہاں اس نے آدمی دیکھ لئے تھے اور نہ ہی پہاڑی کی سمت کیونکہ ایسا کرنے کے لئے اسے ہمارے قریب سے گزرنا پڑتا۔ ہم اسے سامنے والی پہاڑی کی سمت جانے کی ترغیب دینا چاہتے تھے۔ کوئی دس منٹ تک ہم دریا کے کنارے بیٹھے بغور گرد و پیش کا جائزہ لیتے رہے۔ تب چند قدم پیچھے ہٹ کر ہم تین گز بائیں سمت کو چلے اور پھر ایک جگہ بیٹھ گئے۔ ابھی ہم بیٹھے ہی تھے کہ میرے ساتھ والے آدمی نے سرگوشی میں کہا، “شیر” اور دریا کی سمت اشارہ کر دیا۔ لیکن مجھے کچھ دکھائی نہ دیا۔ دوبارہ پوچھنے پر اس نے بتایا کہ اس نے فقط شیر کے کان ہلتے ہوئے دیکھے تھے۔ کوشش کے باوجود مجھے شیر دکھائی نہ دے سکا۔ اتنے میں ایک آدمی حالات کا ٹھیک جائزہ لینے کو کھڑا ہوا اور شیر جو ہماری طرف منہ کر کے لیٹا ہوا تھا، اٹھ کھڑا ہوا اور پہاڑی چڑھنے لگا۔ جونہی ایک پہاڑی کے عقب سے اس کا سر دکھائی دیا میں نے گولی چلا دی۔ بعد میں دیکھنے پر معلوم ہوا کہ گولی شیر کی گردن کے بالوں میں سے گزر گئی تھی۔ شیر نے ایک چھلانگ لگائی اور جھاڑیوں کے عقب میں روپوش ہو گیا۔ میرا خیال تھا کہ شیر زخمی نہیں ہوا اور میرا یہ خیال بعد میں صحیح ثابت ہوا کیونکہ جس چٹان میں میری گولی لگی تھی اس کے قریب ہی شیر کے کچھ بال پڑے تھے اور خون کہیں دکھائی نہ دیتا تھا۔

تھوڑے فاصلے پر بھینس پڑی تھی۔ شیر نے اسے گدھوں اور دوسرے گوشت خور پرندوں سے بچانے کی خاطر پانی کے ایک چار فٹ گہرے گڑھے میں چھپایا ہوا تھا۔ چاروں آدمیوں کو گاؤں واپس بھیج کر میں تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک شکار کے قریب چھپا رہا اور جب شیر واپس نہ آیا تو کیمپ واپس لوٹ گیا۔ اگلی صبح ناشتہ کرنے کے بعد میں اور میکڈونلڈ پھر دریا کے کنارے آئے۔ شیر اپنے شکار کو وہاں سے اٹھا کر کچھ فاصلے پر لے گیا تھا اور رات میں اس کا نصف سے زیادہ حصہ کھا گیا تھا۔

ٹھک کی پہلی بھینس کو جسے شیر نے ہلاک کیا تھا اور جس کے قریب میں رات بھر شیر کا انتظار کرتا رہا تھا، وہاں سے اٹھا کر اس سے دو سو گز کے فاصلے پر ایک نئی بھینس باندھ دی گئی تھی۔ چار دن بعد ٹھک کے نمبردار نے ہمیں اطلاع بھیجی کہ شیر اس بھینس کو ہلاک کر کے اٹھا لے گیا ہے۔

ہم نے جلدی سے تیاری کی پھر میں اور ایبٹسن بڑی مشکل چڑھائی عبور کرنے کے بعد اس جگہ پہنچ گئے۔ شیر بھینس کو ہلاک کر کے اسے سیدھا وادی میں لے گیا تھا۔ ہم دونوں شیر کے پنجوں کے نشانات پر چلنے لگے۔ ہمارے پیچھے ہمارے دو ملازم تھے، جنہوں نے ہمارا سامان اٹھا رکھا تھا۔ جلد ہی ہمیں پتا چل گیا کہ شیر اپنا شکار کسی خاص جگہ لے کر گیا تھا۔ آخری گھنی جھاڑیوں میں سے دو گرے ہوئے درختوں پر سے گزر کر شیر نے اپنا شکار ایک چھتری نما درخت کے نیچے چھپا دیا تھا۔ شیر نے اسے ابھی تک چھوا نہیں تھا اور یہ بات ہمارے لئے خاصی پریشان کن تھی۔ بھینس کی گردن پر دانتوں کے نشانات سے پتا چلتا تھا کہ وہ آدم خور شیر ہی تھا۔

اتنا لمبا سفر کرنے سے ہمارے جسم پسینے سے شرابور ہو رہے تھے۔ ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر چائے پیتے وقت میں گرد و پیش کا جائزہ لینے لگا تاکہ کوئی ایسا درخت نظر آ سکے جس پر میں رات گزار سکوں۔ کوئی تیس گز کے فاصلے پر ایک درخت کا تنا زمین سے دس فٹ اوپر زمین کے متوازی جا رہا تھا۔ میں نے اس تنے میں مچان کھڑی کر دی۔ مچان تیار کرتے وقت ہم لوگ بلند آواز میں باتیں بھی کر رہے تھے تاکہ اگر شیر کہیں آس پاس ہو تو وقتی طور پر وہاں سے ہٹ جائے۔ جب مچان تیار ہو گئی تو ایبٹسن اور میں تھوڑی دیر سگریٹ پیتے اور گپیں لگاتے رہے۔ اس کے بعد وہ دونوں آدمیوں کے ساتھ وہاں سے رخصت ہو گیا۔

جس درخت پر ہم نے مچان بنائی تھی وہ زمین سے 65 درجے کا زاویہ بناتا تھا۔ اس کے نیچے کوئی بیس مربع فٹ زمین بالکل ہموار تھی۔ اس کے فورا بعد گھاٹی شروع ہو جاتی تھی۔ جس کی ڈھلوان پر گھنی جھاڑیاں اگی ہوئی تھیں۔ اس گھاٹی کے آخر پر ایک ندی تھی۔ شیر کے آرام کے لئے مثالی جگہ۔

ایبٹسن اور اس کے آدمیوں کو رخصت ہوئے ابھی پندرہ منٹ ہی ہوئے ہوں گے کہ ایک سرخ بندر چلا چلا کر جنگل کے باسیوں کو شیر کی موجودگی کا احساس دلانے لگا۔ اس سے پتا چلتا تھا کہ جب ہم وہاں پہنچے تو اس وقت شیر وہاں موجود نہ تھا اور اب اپنے شکار کے پاس آوازیں سن کر صورت حال کی تحقیق کرنے آ رہا ہے۔

میرا منہ پہاڑی کی طرف اور شکار میری دائیں طرف تھا۔ بندر ابھی چھ سات بار ہی چلایا تھا کہ مجھے اپنے نیچے گھاٹی پر کسی خشک لکڑی کے ٹوٹنے کی آواز سنائی دی۔ میں نے داہنی طرف دیکھا تو شیر گھاٹی چڑھ کر چالیس گز دورسے میرے درخت کی طرف دیکھ رہا تھا۔ چند منٹ تک وہ درخت کو گھورتا رہا۔ آخر اس نے میری سمت آنے کا فیصلہ کر لیا۔ میرے درخت کے نیچے ہموار زمین کی طرف بڑھتے وقت وہ زیادہ محتاط ہو رہا تھا اور اس کا پیٹ زمین سے لگتا جا رہا تھا۔ آخر وہ میرے درخت کے نیچے آ کر خشک پتوں پر لیٹ گیا۔

پندرہ منٹ تک وہ بالکل خاموش بیٹھا رہا۔ شیر بالکل میرے نیچے لیٹا تھا۔ اس کی تھوڑی زمین پر تھی اور آنکھیں بند تھیں۔ ایک دم اس نے آنکھیں کھولیں ، مکھیاں اڑانے کے لیئے پلکیں جھپکائیں اور پھر سوگیا۔ اب مجھے شیر کی دم اور پچھلی ٹانگیں دکھائی دے رہی تھیں۔ اگر میں درخت پر ذرا بھی حرکت کرتا تو شیر کو میری موجودگی کا علم ہو جانا تھا۔ اس بات کا مجھے یقین تھا کہ شیر نیند پوری کرنے کے بعد اپنے شکار کے پاس جائے گا۔ لیکن کب؟ دوپہر بڑی گرم تھی لیکن شیر نے بڑی سایہ دار جگہ چنی تھی اور ٹھنڈی ہوا بھی چل رہی تھی اس حالت میں ممکن تھا کہ وہ شام تک سویا رہے اور میں شام کے اندھیرے میں اس پر گولی چلانے کا موقع کھو بیٹھوں۔ لہذا صورت حال کو شیر کی مرضی پر چھوڑنا سراسر غلطی تھی۔ لیکن جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں جہاں میں بیٹھا تھا وہاں فقط شیر کی دم اور ٹانگیں دکھائی دے رہی تھیں۔ اس کے اس حصے پر گولی چلانے کا کوئی فائدہ نہ تھا۔ آخر میں نے بڑی احتیاط سے اپنی ٹانگیں اوپر کیں اور آہستہ آہستہ تنے کے اوپر کھڑا ہو گیا۔ اب مجھے شیر کا تین چوتھائی حصہ دکھائی دینے لگا۔ میں نے اپنی پشت کو ایک بڑی شاخ کے ساتھ لگایا اور بندوق کی نالی شیر کی طرف پھیر کر چلا دی۔ شیر بجلی کی طرح اچھلا اور گھاٹی اترنے لگا۔ میں ایک دم اپنی جگہ سے مڑا اور دوسری گولی اس کے سینے میں اتار دی۔ وہ بڑے دل گردے والا شیر ثابت ہوا کیونکہ ایک آواز نکالے بغیر وہیں ڈھیر ہو گیا۔

گولی کی آواز سن کر ایبٹسن اور اس کے ساتھی میری سمت چل پڑے۔ راستے میں میری ان سے ملاقات ہو گئی۔ ہم واپس جائے وقوعہ پر آئے۔ ہم چاروں میں اتنی ہمت نہ تھی کہ اتنے بڑے شیر کو اٹھا کر کیمپ تک لے آتے۔ لہذا ہم آدمیوں کو جمع کرنے گاؤں کی سمت چل پڑے۔

وہ ایک بڑا نر شیر تھا۔ مجھے اس کے جسم کے مختلف حصوں میں شاٹ گن کے کئی چھرے بھی ملے۔ اگلی صبح تقریباً سو افراد کے مجمع کے سامنے ہم نے شیر کی کھال اتاری۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments