دوستو! ہجرت فرض ہو چکی؛ اپنا اپنا سامان لپیٹو


یہ پاکستان ہے جہاں میں پیدا ہوا؛ یہیں پڑھا، یہیں کھیلا کودا؛ یہیں میرے چاہنے والے ہیں؛ یہیں وہ ہیں جنھیں میں چاہتا ہوں۔ جب تک میری اولاد نہ ہوئی، مجھے احساس ہی نہیں ہوا کہ یہ ملک کتنا خطرناک ہے۔ گیارہ ستم بر کے بعد دُنیا ہی نہیں بدلی، پاکستانی معاشرے کی رہی سہی قلعی بھی کھُل گئی۔ ہمارا دوغلا پن؛ ہمارے جھوٹ؛ ہماری بے ایمانیاں اور ہماری مذہب کے بارے میں جاہلیت کی حد تک بڑھی ناقص معلومات؛ بے حیائی لباس اُتارنے کا نام نہیں، بے حیائی ایمان کی حرارت ختم ہونے کا نام ہے۔ منافقت کا نام بے حیائی ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں پاکستانیوں کی اکثریت بے حیا ہے؛ منافق ہے۔

ہم تصور کرتے ہیں، کہ سوشل میڈیا پر وہ لوگ ہیں، جنھیں پڑھا لکھا طبقہ کہا جاتا ہے۔ یہ پورا پاکستان نہیں ہے؛ یہ پاکستان کے تمام پڑھے لکھوں‌ کا نمایندہ فورم نہیں ہے، لیکن سروے کی اصطلاح میں اسے ”سمپل“ کہا جا سکتا ہے، جسے کی پرکھ کرتے کسی گروہ کے رحجان کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔

سوشل میڈیا ہی کو دیکھ لیں، یہاں مذہب کے کسی پہلو پر مکالمہ کرتے کیسا خوف ناک ردعمل سامنے آتا ہے۔ سب سے پہلے مخالف نقطہ نظر بیان کرنے والے کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، آیا یہ مسلمان بھی ہے یا مسلمان کے بھیس میں دشمن کا ایجنٹ۔ ایک سانس میں امتی کہلانے والے نبیؐ کے اخلاق حسنہ کا ذکر کرتے ہیں، اور دوسری سانس میں منہ سے یوں‌ جھاگ اُڑاتے ہیں جیسے بگڑا ہوا سانڈ۔ مستزاد نبیؐ کے دین کے وارث بنتے ہیں۔ یہ نبیؐ کی اُمت کیسے ہو سکتی ہے، میں انھیں نبیؐ کا وارث نہیں مانتا۔

جیسا کہ میں نے کہا، میری اولاد ہوئی تو یہ ملک مجھے خطرناک دکھائی دینے لگا؛ سوچا یہاں سے ہجرت کر جاؤں؛ کسی ایسے ملک جا بسوں چاہے نام کا کافر ہو، لیکن وہاں کے شہری کو تحفظ کا احساس ہو۔ ایک نام ور جنھیں میں گرو کا درجہ دیتا ہوں، انھوں نے میری تجویز کی مخالفت کی کہ دوسرے درجے کے شہری بننے کا سوچو بھی مت؛ میں قائل ہو گیا۔ کچھ عرصہ گزرا میں پھر اسی نتیجے پر پہنچا کہ ہجرت فرض ہوچکی۔ ایک اور نام ور نے کہا، اگر تخلیقی میدان کو چھوڑ‌ کر کوئی اور شعبہ اختیار کرتے ہو تو پھر ایسا سوچو، ورنہ بانجھ ہو جاو گے۔ پلٹ آؤ گے۔ میں دوسری بار اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہوا۔

مشعل خان کو جس بے دردی سے مار دیا گیا، قطع نظر کون مجرم تھا کون نہیں؛ حکومت کا کتنا قصور تھا، منبر پر بیٹھوں کا کیا دوش؛ پولِس کا نظام کیسا ڈھل مل ہے؛ عدلیہ کی کیا خرابیاں ہیں؛ فوجی عدالتوں کا کیا کردار ہے۔ میں ان جزیات میں نہیں پڑنا چاہتا، میں اتنا جانتا ہوں، یہ عوام وحشی ہیں، جو مُردہ بھائی کا گوشت کھانے سے لے کر، لقمہ حرام تک ڈکار جاتے ہیں۔ یہ وہ گِدھ ہیں جنھیں صرف دوسروں کا مآل حرام دکھائی دیتا ہے، ہر ایک کی اپنی کمائی عین حلال ہوتی ہے۔ ہوسکتا ہے آپ کو یہ لہجہ تلخ لگے لیکن سینے میں اس سے بھی زیادہ اُبال ہے۔

پہلے میرا خیال تھا کہ ایسے حالات میں ہجرت کرنا بُزدِلی ہے۔ حالات کا مقابلہ کرنا چاہیے؛ سماج کو تبدیل کرنے میں خواہ دیے کا کردار ہو، نباہنا چاہیے۔ اب اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جہاں جان و مآل و آب رُو خطرے میں ہو؛ اُس جاہل معاشرے سے ہجرت کرنا بُزدلی نہیں حکمت ہے۔

اُمت رسول کے دعوے دار اِس معاشرے میں میری بیٹی برقع میں گھُوم رہی ہو، وہ محفوظ نہیں ہے۔ اُدھر کافر دیس میں اسکرٹ پہنے تو بھی ایسا عدم تحفظ کا احساس نہیں۔ اِدھر میرا بیٹا اپنے سے طاقت ور کا آسان شکار ہے؛ کیوں کہ ریاست اس کے تحفظ میں ناکام ہوچکی ہے۔ اُس سے بچ نکلے تو کسی بپھرے ہجوم کے نرغے میں آیا مشعل خان ہے۔ گر وہ مشعل خان نہیں تو مشعل خان کو بے دردی سے مارنے والوں میں سے ایک ہو سکتا ہے۔

دوستو! ہجرت فرض ہو چکی؛ اپنا اپنا سامان لپیٹو۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran