ملالہ بری کیوں لگتی ہے؟


ملالہ کو بہت دیر تک بغور دیکھنے کے بعد بھی اس کے حلیے میں یا اس کی باتوں میں کوئی ایسی چیز نظر نہیں آ سکی جسے بنیاد بنا کر اسے مغرب کا ایجنٹ کہا جائے، اسے ایک مرتبہ پھر ملاحیاں سنائی جائیں یا گلے پھاڑ کر اس کے خلاف نعرے لگائے جائیں۔ بنیادی طور پر یہ قصور اس لکیر کا ہے جس کے پار کھڑے ہو کر ملالہ کو دیکھا گیا۔ لکیر کے ایک جانب وہ ہیں جو عورت کے وجود سے تمام ممکنہ فائدے لینے کے بعد اسے ”برداشت“ کرنے کا بیان دیتے ہیں، دوسری طرف وہ ہیں جنہیں عورت میں ایک برابر کا انسان نظر آتا ہے، پچاس فی صد آبادی نظر آتی ہے، کل کی ماں نظر آتی ہے اور چمکتا مستقبل نظر آتا ہے۔

ایک سیدھی سادھی سی بچی، سر پہ دوپٹے کی بکل مارے کھڑی ہے، بال ایسے بنائے ہیں جیسے سن زیرو میں ہماری پردادیاں بناتی تھیں، سرخی پاؤڈر کا نام و نشان نہیں ہے، بار بار اوڑھنی درست کرتی ہے، ایسا لباس پہنے ہے جیسا وہ سوات میں بھی پہنا کرتی ہو گی اور بڑے مطمئن انداز میں کھڑی ہے۔ اس میں ایسا کیا ہے جو ناپسندیدہ ہو؟ ہاں ایک چیز اس کے پاس موجود ہے، جس سے ڈرا جا سکتا ہے، جو اجارہ پسند دانشوروں کو خوفزدہ کر سکتی ہے، انہیں نفرت میں مبتلا کر سکتی ہے، وہ اس بیٹی کا اعتماد ہے۔ وہ غیر متزلزل یقین اور اعتماد جو ہے، اسے لکیر کے اس پار یوں دیکھا جاتا ہے جیسے کوئی اپنی اولاد کو دیکھ کے خوش ہو، اور لکیر کے اٌس پار یہی چیز وحشت، غصے اور نفرت میں بدل جاتی ہے۔ ایسا کیوں ہے، اس بحث کو اتنی مرتبہ دہرایا گیا، اتنے دلائل دیے گئے کہ اگر مشرقی اور مغربی جرمنی الگ ہوتا تو ایک ہو جاتا، ادھر زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد والا معاملہ ہے۔ اب زمین کے ہل جانے پر بھی نہ ہلنے والے لکیر کے اس جانب ہیں یا پار کھڑے ہیں، فیصلہ ہر وہ شخص کرے گا جو کل اس کالم پر پکوڑے کھائے گا، ملالہ فی الوقت کینیڈا میں تقریر کر رہی ہے۔

نیلسن منڈیلا، آنگ سو چی، راؤل والنبرگ، دلائی لامہ اور آغا خان کے بعد وہ چھٹی انسان ہے جسے کینیڈا کی اعزازی شہریت دی گئی ہے۔ کوئی بڑی بات نہیں، لاکھوں لوگ کینیڈا جا کر بستے ہیں، ہم بھی جا سکتے ہیں، پندرہ بیس پچیس لاکھ کی گیم ہے، ٹھیک ہے آج وہ ترقی یافتہ ہیں، کل ہم ہوں گے، وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا، پاکستان بلا شک و شبہ دنیا کے خوب صورت ترین ممالک میں سے ایک ہے، اس کے لوگوں جیسا محبتی شاید ہی کہیں اور کوئی پایا جائے لیکن۔

لیکن لمحہ موجود میں کینیڈا کا منتخب وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو انتہائی عزت و احترام سے پاکستان کی بیٹی کو اپنے ملک کا جھنڈا پیش کر رہا ہے، تمام لوگ خاموشی اور محبت سے اس منظر کو دیکھ رہے ہیں، پوری دنیا اپنے ٹی وی اور انٹرنیٹ پر یہ سب کچھ لائیو دیکھ رہی ہے، انسپریشن لے رہی ہے، اور کچھ لوگ اس کی گردن پر گولی کا نشان تلاش کر رہے ہیں۔ انہیں اس کا مستقل ٹیڑھا ہوا منہ یا چھوٹی ہو چکی آنکھ بھی نظر آتی، انہیں اس کی وہ تکلیف بھی نہیں دکھائی دیتی جو اس نے کئی ماہ ہسپتال میں برداشت کی، انہیں بس وہ نشان چاہئیے۔ تلاش اپنی اپنی، نصیب اپنا اپنا۔

تو ملالہ کو بصد احترام خطاب کرنے کی دعوت دی جاتی ہے جسے قبول کر کے وہ ڈائس پر آتی ہے۔ بہت عام سے لہجے میں، ایسے ہی جیسے کوئی بھی دیسی لڑکی بات کرے، وہ سب کا شکریہ ادا کرتی ہے، اپنے پاکستانی ہونے اور پشتون ہونے کی بات کرتی ہے، لڑکیوں کی تعلیم کا ذکر کرتی ہے، جن ریفیوجیوں کو، برادر ممالک کے پناہ گزینوں کو ہم روتے ہیں، ان کا معاملہ اٹھاتی ہے، امن اور مساوات کا پیغام دیتی ہے۔ پھر وہ بتاتی ہے کہ جب لوگوں کو پتہ چلا کہ میں جسٹن ٹروڈو سے ملنے جا رہی ہوں تو سب بڑے ایکسائیٹڈ تھے، کسی نے کہا تم اسے دیکھو گی؟ کوئی بولا تم ٹروڈو سے ہاتھ ملاؤ گی؟ تو ان سب لوگوں کو نوید ہو کہ آخرکار یہ سب ہو چکا، ہاں اس وقت میں ٹروڈو کے سامنے موجود ہوں۔ یہ تقریر کا ایک لائٹر نوٹ تھا۔ سب لوگ ہنسے، خود ٹروڈو بھی جھینپ سے گئے، صنف مخالف میں وہ اچھے خاصے مشہور ہیں، خدا کا دیا حسن ہے اور نزاکت ساتھ آ ہی جاتی ہے۔ تو خیر، یہ سب بات کر کے ملالہ نے دوبارہ خواتین کی تعلیم کا ذکر کیا اور دنیا کے دوسرے بڑے لیڈروں کے لیے بھی پیغام دیا کہ انہیں ریفیوجیز (شامی اور دیگر مہاجرین) کے معاملے کو انسانی ہمدردی کے تحت دیکھنا چاہئیے اور کچھ گنجائش نکالنی چاہئیے۔ پھر ملالہ نے اپنی کتاب کی دو کاپیاں وہاں پیش کیں، لوگ کھڑے ہوئے، دیر تک تالیاں بجیں اور بقول میڈیا وہ ایک ”راک سٹار ویلکم“ وصول کر کے اپنی جگہ پر آ گئی۔

یہ وہی ملالہ ہے جسے ابھی دو تین دن پہلے امن کا سفیر مقرر کیا گیا اور صرف سوشل میڈیا پر خبروں کے نیچے کمنٹ دیکھ لیجیے، دنیا مبارکبادیں دیتی تھی اور اس کے وطن والے گالیاں دیتے تھے۔ وہ اپنے بیان میں اس اعزاز کو پاکستان کے لیے باعث فخر کہتی ہے اور پاکستانی اسے باعث شرم کہتے ہیں۔ وہ کہتی ہے انتہا پسندی یا دہشت گردی پاکستان کا اصل چہرہ نہیں، پاکستان کا اصل چہرہ ملالہ ہے، اور دوسرے چہرے کہتے ہیں کہ نہیں، ایسی تیسی، ہمیں وہی لوگ وارے ہیں جن کی وجہ سے ہم دنیا بھر بدنام ہیں، ملالہ کا نام مت لو، ہم انتہا پسندی کا ٹیگ لگوائے جی سکتے ہیں۔ اچھا بھئی فبھا! کتنے کالم ہیں جن میں اسے مبارک باد دی گئی؟ کتنی پوسٹیں سوشل میڈیا پر نظر آئیں؟ ہم تو وہ لوگ ہیں جو حکومتیں بدلنے پر مٹھائی کے ٹوکرے لیے سڑکوں پر ناچتے پھرتے ہیں تو کوئی ایک مٹھائی جو بٹی ہو، اس نیک شگن کے لیے؟ ہماری اس بیٹی کے لیے جسے ہم قبول ہی نہیں کرتے اور وہ ہر جگہ پاکستان کے گیت گاتی پھرتی ہے۔

دیکھیے سیدھی سی بات ہے۔ ملالہ عورتوں کی بات کرتی ہے، ملالہ ان کی تعلیم اور ان کے حقوق کی بات کرتی ہے، ملالہ جنگوں اور دہشت گردی کے خلاف ہے، ملالہ جنگی متاثرین اور مہاجرین کے حق میں بولتی ہے، ملالہ ہر جگہ بطور ایک پاکستانی لڑکی اپنی پہچان کرواتی ہے اور اسی حلیے میں نظر آتی ہے۔ ملالہ دنیا بھر کے دہشت گردوں کے خلاف امن کا ایک پیغام ہے، ایک چیلنج ہے۔ ملالہ وہ ہے جو ان کے حملے میں بچ گئی اور ڈری نہیں، اس نے حوصلہ کیا، اس کے والد نے حوصلہ کیا، دنیا نے ان کی آواز پر لبیک کہا۔ ملالہ کو امن کا نوبل انعام ملا، سخاروف ایوارڈ ملا، ضمیر کی سفیر کہلائی، گلوبل سٹیزن ایوارڈ ملا، اب امن کی سفیر برائے اقوام متحدہ ہوئی، یہ سب کیوں ہوا؟ اس لیے کہ وہ اس خطے سے اٹھی جہاں دہشت گردی کی آواز سب سے طاقتور تھی۔ وہ اس سب کے خلاف مزاحمت کا استعارہ بنی اور اس وقت بنی جب لوگ انہیں دفاتر کھول کر بات چیت کرنے کا آپشن دینا چاہتے تھے۔ اس نے دنیا کو دکھایا کہ پاکستان وہ نہیں ہے جو وہ دیکھتے ہیں، پاکستان وہ ہے جو گل مکئی کا پاکستان ہے، جیسا وہ دیکھنا چاہتی ہے، جیسا وہ خواہش کرتی ہے، پاکستان کے بچے بھی وہ سب چاہتے ہیں۔ یہ سب ایوارڈ تیرہ سالہ این فرینک کو بھی مل جاتے اگر وہ دوسری عالمی جنگ کے دوران مر نہ جاتی۔ اس نے بھی ڈائری لکھی تھی، اس نے بھی عالمی ضمیر کو جھنجھوڑا تھا۔ ایوارڈ یہ نہیں دیکھتے کہ ملالہ کون ہے یا این فرینک کون تھی۔ وہ یہ دیکھتے ہیں کہ ظلم کتنا ہوا اور اس کا جواب کیسے دیا گیا۔

اب اگر ان تمام باتوں پر کوئی متفق ہے، اپنے ملک کی ترقی اور وہاں امن کا خواب دیکھنا چاہتا ہے، اپنی بیٹیوں بہنوں بچوں کو اچھی تعلیم اور صحت مند ماحول دینا چاہتا ہے تو اسے یہ سب کرتی ہوئی ملالہ کیوں بری لگتی ہے؟ وہ پاکستان پاکستان کی مالا جپتے ہوئے نہیں تھکتی اور ہمارے لوگ اسے دھتکارتے نہیں تھکتے۔ بہرحال کچھ بھی ہو، ایک مرتبہ یہ کالم کہیں شئیر کیجیے اور اس پر آنے والے تبصرے دیکھ لیجیے۔ اندازہ ہو جائے گا کہ ملالہ کو مبارک باد کیوں نہیں دی گئی یا اس کی کسی کامیابی کو اپنایا کیوں نہیں گیا۔ ہماری سوچ، ہماری فکر، ہمارا احساس، سب کچھ اس صابن کی طرح ہے جو تھوڑا سلو ہو چکا ہے!

بشکریہ روزنامہ دنیا

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain