ڈارون کا نظریہ ارتقا کیوں درست ہے؟


پچھلی چند دہائیوں میں جب بھی میں نے مختلف مکاتبِ فکر کے مردوں اور عورتوں سے ڈارون کے نظریہِ ارتقا کے بارے میں تبادلہِ خیال کیا تو مجھے یہ جان کر حیرانی ہوئی کہ ان میں سے اکثر نے یا تو اس نظریے کو سنجیدگی سے پڑھا ہی نہیں تھا اور اگر پڑھا تھا تو صحیح طریقے سے سمجھا نہیں تھا کیونکہ وہ سائنس کے سنجیدہ طالبعلم نہیں تھے۔

دنیا کے بہت سے مذاہب کے پیروکاروں کا یہ ایمان ہے کہ انسان کرہِ ارض پر جنت سے اترا ہے اور اس کی تخلیق باقی جانوروں‘ پرندوں اور مچھلیوں کی تخلیق سے مختلف ہے۔ اس مذہبی نطریے کے مقابلے میں چارلز ڈارون CHARLES DARWINنے یہ سائنسی نظریہ پیش کیا کہ انسان کی تخلیق لاکھوں سالوں کے ارتقا کا نتیجہ ہے اور انسانوں‘ جانوروں‘ پرندوں اور مچھلیوں کے آبا و اجداد مشترک ہیں۔

ڈارون کئی ممالک اور جزیروں کے سفر اور تیس برس کی تحقیق کے بعد ان نتائج تک پہنچا تھا لیکن وہ ان نتائج کو چھپوانے سے گھبراتا تھا کیونکہ اسے خطرہ تھا کہ جب اس کا نظریہ ارتقا منظرِ عام پر آئے گا تو اس کے عہد کے روایتی عیسائی پادری اس کے نظریے کو بائبل کی تعلیمات کے خلاف جانیں گے اور اس کا دائرہِ حیات تنگ کر دیں گے۔

ڈارون نے اپنے آپ کو ایک دوراہے پر اس وقت کھڑا پایا جب اس کے جونیر رفیقِ کار ایلفرڈ والیسALFRED WALLACE نے اسے اپنا ایک مضمون بھیجا اور رائے چاہی۔ ڈارون وہ مضمون پڑھ کر بہت پریشان ہوا کیونکہ اس مضمون میں والیس نے ڈارون کا نظریہ چند صفحوں میں اختصار سے بیان کر دیا تھا۔ ڈارون نے دوستوں سے پوچھا تو انہوں نے مشورہ دیا کہ ڈارون اور والیس کے مقالے ایک ہی کانفرنس میں پیش کیے جائیں تا کہ اولیت کا افتخار دونوں کو بیک وقت حاصل ہو۔ اس کانفرنس کے کچھ عرصہ بعد ڈارون نے 1858 میں اپنی مشہور کتابTHE ORIGIN OF SPECIES چھاپی۔

ڈارون کے دور کے عیسائی پادریوں کا کہنا تھا کہ بائبل میں آیا ہے کہ کرہِ ارض کی عمر چھ ہزار برس ہے اور آدم جنت سے زمین پر آیا ہے۔ڈارون نے ثابت کیا کہ انسان لاکھوں برس کے ارتقا اور NATURAL SELECTION کا ماحصل ہے۔

عیسائی دنیا میں یہ تضاد آج تک موجود ہے۔ روایتی عیسائی اور پادری ڈارون کے نظریے کو نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ وہ عیسائی تعلیمات کے خلاف ہے۔ روشن خیال عیسائی ڈارون کے نظریے کو مانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انجیل کی تعلیمات اور ڈارون کے نظرے میں کوئی تضاد نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انجیل لوک ورثہ اور اخلاقیات کی کتاب ہے سائنس کی نہیں اور ہمیں انجیل کی دیگر ادبِ عالیہ کی طرح استعاراتی تفسیرINTERPRETATION METAPHORICAL کرنی چاہیے نہ کہ لغویLITERAL ۔

عیسائیوں کی طرح مسلمانوں میں بھی دو گروہ پائے جاتے ہیں. روایتی مسلمان اور علما ڈارون کے نظریے کو نہیں مانتے اور اسے قرآنی تعلیمات کے خلاف سمجھتے ہیں۔ ان کا ایمان ہے کہ آدم جنت سے زمین پر آیا تھا۔ وہ اس قرآنی آیت کا جس میں کہا گیا ہے کہ تمام انسانوں کی ابتدا ’نفس الواحدہ‘ سے ہوئی وہ ’نفس الواحدہ‘ کا ترجمہ آدم کرتے ہیں۔ روایتی مسلمانوں اور علما کے ساتھ ساتھ دوسرا گروہ روشن خیال مسلمانوں اور علما کا ہے جو قرآن کی تفسیر جدید سائنس کی روشنی میں کرتے ہیں۔ ان کی ایک مثال مسلم دانشور ابولکلام آزاد ہیں۔ انہوں نے اپنی تفسیر میں قرآن کی آیات سے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ قرآن اور ڈارون کے نظریے میں کوئی تضاد نہیں۔ انہوں نے ’نفس الواحدہ‘ کا ترجمہ آدم کی بجائےAMOEBA UNI-CELLULAR ORGANISM کیا۔

بعض مسلمانوں کا خیال ہے کہ سائنس کی تحقیق کا مذہبی کتابوں سے کوئی تعلق نہیں۔ہمیں سائنس کی تحقیق کے نتائج کو قبول کرنا چاہیے اور اس بات کی فکر نہیں کرنی چاہیے کہ آسمانی کتابیں ان سے اتفاق کرتی ہیں یا نہیں۔ ویسے بھی آسمانی کتابوں کی اتنی ہی تفسیریں ہیں جتنے عالم اور فرقے۔ بعض دفعہ وہ تفسیریں مختلف ہی نہیں متضاد بھی ہوتی ہیں۔

ڈارون کی زندگی میں ہی اس کی حمایت اور مخالفت کرنے والوں میں مناطرے ہوتے رہے لیکن وہ خاموشی سے اپنا تحقیقی اور تخلیقی کام کرتا رہا اور جہالت کی تاریکیوں میں علم و دانش کی شمعیں جلاتا رہا۔ فوت ہونے سے پہلے اس نے ایک اور کتاب لکھی جس کا نام THE DESCENT OF MAN تھا۔ اس کتاب میں ڈارون نے ثابت کیا کہ انسانوں اور حیوانوں کی بہت سی ذہنی خصوصیات مشترک ہیں اور انسانی دماغ جانوروں کے دماغ کی ارتقا یافتہ صورت ہے۔ ڈارون نے کہا کہ رحمِ مادر میں انسانی بچے کا دماغ ساتویں مہینے میں اتنا نشوونما پا چکا ہوتا ہے جتنا کہ بندر کا دماغ جوانی میں ہوتا ہے۔ اسی لیے حیوانوں اور انسانوں کی ذہنی اور جذباتی خصوصیات میں مماثلت پائی جاتی ہے۔ ڈارون نے ثابت کیا کہ انسانوں کی طرح جانور بھی خوش ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے کھیلتے اور شرارت کرتے ہیں۔ خوشی کی خصوصیات کے ساتھ ساتھ جانور غم کا اظہار بھی کرتے ہیں اور جب انسانوں کی طرح خوفزدہ ہوتے ہیں تو ان کے دل زور زور سے دھڑکنے لگتے ہیں اور ان کے بال کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اگر جانوروں کا کوئی قریبی رشتہ دار فوت ہو جائے تو وہ دکھی بھی ہوتے ہیں۔ جب بندروں کے بچے یتیم ہو جاتے ہیں انہیں دوسرے بندر پالتے ہیں۔

جانور انسانوں کی طرح محبت بھی کرتے ہیں۔ کتے اپنے مالک کے بہت وفادار ہوتے ہیں۔ جانوروں کو حسن کا بھی احساس ہوتا ہے۔ مورنی کا رقص اس کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔

ڈارون کا کہنا تھا کہ جو چیز ارتقا کے حوالے سے انسانوں کو باقی جانوروں سے ممتاز کرتی ہے وہ اس کے الفاط اور زبانwords and language ہیں۔ زبان کی وجہ سے انسانوں نے شاعری اور ادب‘ سائنس اور ٹکنالوجی‘ نفسیات اور سماجیات کو تخلیق کیا اور کلچر اور تہذیب کو فروغ دیا۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 681 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail